میں ہوں تجھ میں مجھ میں ہے توبھارت اور بنگلادیش کے ’’جغرافیائی جزیرے‘‘

حالیہ سمجھوتے کے نتیجے میں سرحدوں کی عجیب وغریب تقسیم


Rizwan Tahir Mubeen July 26, 2015
حالیہ سمجھوتے کے نتیجے میں سرحدوں کی عجیب وغریب تقسیم ۔ فوٹو : فائل

GUJRANWALA: کسی ذاتی ملکیت کے بیچوں بیچ کچھ اراضی آپ کی ملکیت ہو، پھر اس کے اندر بنی ہوئی ایک عمارت اُسی کی ملکیت ہو، مگر اس عمارت کے اندر آپ کا گھر ہو اور پھر گھر کے اندر ایک کمرہ پھر اُسی کی ملکیت ہو اور پھر اس کمرے کا ایک چھوٹا سا گوشہ آپ کے نام ہو۔۔۔ الجھ گئے ناں۔۔۔! ظاہر ہے اس گنجلک تقسیم کو سمجھنے کی کوشش میں ہر شخص ہی جھنجھلا جائے گا کہ ایک کے اندر دوسرا اور دوسرے کے اندر پھر پہلا اور اس کے اندر پھر دوسرا۔۔۔ بھئی سیدھی سادی تقسیم کیوں نہیں کرلیتے کہ یہاں سے یہاں تک ہمارا اور یہاں سے وہاں تک تمہارا۔

ذاتی حیثیت میں زمین کی تقسیم ہو یا ریاستی سطح پر زمین کا بٹوارا، بالآخر کسی نہ کسی سادہ طریقے ہی کو معیار اور پیمانہ جانا جاتا ہے، مگر یہ مندرجہ بالا پیچیدہ تقسیم دوبارہ پڑھیے، کیوں کہ آج کی دنیا میں بھی بھارت اور بنگلا دیش کے بہت سے علاقے کچھ اسی طرح کی تقسیم سے دوچار ہیں۔ جی ہاں! بنگلا دیش کے علاقےDahala Khagrabari کچھ ایسے ہی بٹوارے کی تصویر ہے۔ بھارتی سرحد کے نزدیک واقع اس علاقے میں دنیا کا واحد ''تھرڈ آرڈر اینکلو'' ہے۔

اینکلو(Enclave) یا 'محصورہ' ایسے خطۂ زمین کو کہتے ہیں جو کسی دوسرے ملک میں واقع ہو۔ یعنی جغرافیے میں کسی جزیرے کی مانند۔ دنیا کی سرحدوں میں ایسا شاذ ونادر ہی ہوتا ہے کہ اس ''جزیرے'' کے اندر پھر ایک جزیرہ ہو، جسے کاؤنٹر اینکلو counter-enclave کہتے ہیں، جب کہ ''تھرڈ آرڈر انکیلو'' سے مراد ایسا علاقہ ہے، جو اپنے گرد تہ در تہ تین جغرافیائی دائروں میں تقسیم ہو۔

ایک بھارتی انکلیو Dahala Khagrabari ہے، جس کی آبادی 50 ہزار سے زاید ہے۔ اگر آپ یہاں رہتے ہیں، تو یہ علاقہ مکمل طور پر بنگلا دیش میں واقع ہے اور ایک ایسے بنگلادیش میں جو کہ خود ایک ایسے ہندوستان کی حدود میں ہے، جو کہ دراصل بنگلا دیش کی مرکزی سرحد کے اندر واقع ہے۔ یہ دنیا کی اپنی طرز کا واحد counter-enclave ہے۔

Dahala Khagrabari بنگلادیشی گاؤںUpanchowki Bhajni میں واقع ہے، جسے Balapara Khagrabari نے ڈھانک رکھا ہے اور یہ سب بنگلا دیش کے رنگ پور ڈویژن کے اندر واقع ہیں۔ عملاً اس کے اندر آمدورفت کی ممانعت نہیں۔ البتہ حدود ضرور بنائی گئی ہیں۔ Dahala Khagrabari کا مالک ایک بنگلادیشی کسان ہے، جو اس کے گرد والے بنگلادیشی اینکلو کا رہایشی ہے۔

Dahala Khagrabari سب سے چھوٹا انکلیو نہیں بلکہ رنگ پور ضلع میں واقع ہندوستانی Panisala سب سے چھوٹا انکلیو ہے، جس کا رقبہ 1,090کلو میٹر ہے۔

Dahala Khagrabari دنیا کا واحد تھرڈ آرڈر انکلیو ہے، جو ہندوستانی علاقے میں واقع ایک بنگلا دیشی علاقے اور کے اندر ہندوستانی علاقے میں واقع ایک بنگلادیشی علاقے کا نام ہے۔

یہاں اگر آپ گاڑی چلا رہے ہوں، تو آپ چار دفعہ بھارت اور چار دفعہ بنگلادیش سے گزریں گے۔ یوں ہندوستان کے باسی بہ آسانی ہندوستان نہیں جا سکتے اور انہیں اپنے ہی ملک کی طرف سفر کرنے کے لیے پاسپورٹ درکار ہوتا ہے، تاکہ وہ بنگلا دیش سے ہو کر گزر سکیں اور ہندوستان جا سکیں۔

یہاں ایک باڑ کے ذریعے سرحد کی نشان دہی کی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کے تحت 300 میٹر کے اس بفرزون کا احترام کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہاں روزانہ آمدورفت کے بنا چارہ بھی نہیں، جسے دونوں ممالک کے بیچ بانٹ دیا گیا ہے۔

سرحدوں کی تقسیم انسانوں کے بیچ بھی فاصلے پیدا کر دیتی ہے۔ یہاں بھی دوریوں کی ایسی بہت سی کہانیاں سننے کو مل جاتی ہیں۔ جیسے آفتاب محمد علی نامی ہندوستانی شہری نے بیان کی، جو Seortikursha کے رہنے والے ہیں۔ 10 ہزار مربع میٹر کا یہ علاقہ 'ویٹی کن سٹی' کا ایک تہائی بنتا ہے۔

1994ء میں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک اور ہندوستانی سے طے کی، جو ان کے اینکلو سے باہر ہندوستان کی مرکزی سرحد کے اُس پار رہتا تھا، لیکن عین شادی کے روز بنگلادیشی سرحدی محافظوں کے روک لیے جانے کے باعث وہ بیٹی کو بروقت رخصت نہ کر سکے۔

ہندوستان اور بنگلا دیش کی یہ عجیب وغریب حد بندی طویل کشیدگی کے بعد ہونے والے اچانک سمجھوتے کی صورت میں عمل میں آئی ہے، جس میں علاقوں کی ملکیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جوں کی توں صورت حال کو منجمد کیا گیا، تو ایسی مضحکہ خیز صورت حال وجود میں آگئی کہ ہندوستانی شہریوں کو ہندوستان کی مرکزی سرحد تک پہنچنے کے لیے بھی پاسپورٹ درکا رہے، تاکہ وہ بنگلا دیش سے گزر سکیں۔

ہندوستان اگر اپنے ان ''جزیروں'' میں بسنے والے شہریوں کو کچھ سہولیات دینا چاہے، تو منطقی اعتبار سے یہ ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ بغیر بجلی کا Dahala Khagrabari آج پتھر کے دور کا ایک نمونہ معلوم ہوتا ہے، جس کے ارد گرد جدید زندگی پوری طرح رواں دواں ہے۔

بھارت اور بنگلادیش کے ایک دوسرے کی حدود میں 160 انکلیو واقع ہیں، مگر ڈھالا جیسا کوئی نہیں۔

Dasiar Chhara بھارت کا چوتھا بڑا انکلیو ہے۔ ہندوستان کی مرکزی سرحد سے تین کلو میٹر پرے اس انکلیو کا رقبہ ساڑھے چھے کلو میٹر ہے۔

ستمبر 2011ء میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور بنگلادیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے، جس کے تحت ایسی ہی سرحدوں کی حد بندی اور ایسے ہی علاقوں کا تبادلہ مقصود تھا، اس سمجھوتے کے تحت انکلیو کے رہایشیوں کو یہ اختیار بھی دیا جانا تھا کہ وہ اگر چاہیں تو اپنی مرضی سے دونوں میں سے کسی بھی ملک میں رہایش اختیار کرلیں۔ اس سمجھوتے میں ان لوگوں کے مسائل حل کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔

علاقے کی روایات کے مطابق ''محصوروں'' کے رہائشی ماضی میں بھی اس طرح کی صورت حال سے دوچار رہے ہیں، جس میں نقل وحمل کے لیے ایک کارڈ استعمال کیا جاتا تھا۔ جب دو راجوں، راجا آف کوچ بہار اور مہاراجا آف رنگ پور کے درمیان علاقے اسی طرح منقسم تھے۔ اس کے بعد آمدورفت کے لیے ایک معاہدہ1713ء میں ایک معاہدہ کوچ بہار اور مغلیہ سلطنت کے درمیان بھی طے ہوا۔

1947ء کے بٹوارے کے بعد رنگ پور اُس وقت کے مشرقی پاکستان کا حصہ بنا، جب کہ کوچ بہار 1949ء میں بھارت میں ضم ہو گیا۔ اکثر اینکلو یا 'محصورے' 1958ء کے پاک بھارت سمجھوتے کا نتیجہ تھے، لیکن ہندوستان کی عدالت عظمیٰ قانونی موشگافیوں میں الجھی رہی، اس دوران مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا، یوں مذاکرات کے مرحلے کو ازسرنو استوار کرنا پڑا۔

1974ء میں دونوں ممالک نے اتفاق کیا کہ انکلیو کے تبادلے کیے جائیں گے یا کم سے کم ان کے درمیان رسائی آسان بنائی جائے گی، مگر اس بار بھی ہندوستان کی طرف سے عمل درآمد میں تاخیر ہوئی، وجہ داخلی سیاسی معاملات ٹھیرے۔ اس کے بعد 2001ء میں مزید کچھ گفت وشنید ہوئی، لیکن صورت حال کسی نتیجہ خیز موڑ کی جانب نہ آسکی۔

انکلیو کے رہایشی نہایت کسم پرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ پانی، بجلی، سڑکوں، اسکولوں اور ادویات جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ سرحدوں کی روک ٹوک بین الاقوامی طرز کی نہ ہونے کی بنا پر جرائم پیشہ افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے شناختی کارڈ کے حصول کے لیے اپنے اپنے ملک جانا پڑتا ہے، اس کے لیے انہیں مرکزی سرحد پر محافظوں کی اجازت درکار ہوتی ہے، جو خاصا دقت طلب کام ہے۔

2011ء میں دنوں ممالک کی جانب سے 162 انکلیو کے مسائل حل کرنے کی سعی کی گئی تھی، جس پر اصل پیش رفت 28 مئی 2015ء کو بھارتی صدر پرنب مکھرجی کی جانب سے 119 ویں ترمیم کے منظور شدہ بل کی توثیق کے بعد ہوئی۔ جون 2015ء میں نریندر مودی کے دورۂ بنگلادیش کے دوران اسی قانون کی روشنی میں سرحدی تبادلے کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے گئے، جس کی روشنی میں ہندوستان کو 51 انکلیو ملنے ہیں (رقبہ 7,110 ایکڑ) جو کہ مرکزی طور پر ہندوستان کے اندر واقع ہیں، جب کہ بنگلادیش کو 111 انکلیو (17,160 ایکڑ) ملیں گے، جو کہ اس کی حدود کے اندر موجود ہیں۔

ان علاقوں میں رہنے والوں کو دونوںممالک میں سے کسی کی بھی شہریت اختیار کرنے کی اجازت ہو گی۔ دونوں ریاستوں کے درمیان علاقوں کے تبادلے پر عمل درآمد 31 جولائی 2015ء تا 30 جون 2016ء کے درمیان ہو گا۔ اس عرصے میں دونوں ممالک حد بندی کے لیے ضروری کارروائی مکمل کریں گے۔ انکلیو کے رہایشیوں کی نقل مکانی کی تکمیل 30 نومبر 2015ء تک مکمل کیے جانے کی امید ہے۔

٭ٹن بگھا (Tin Bigha) بھارتی راہ داری
ہندوستان کی ٹن بگھا(Tin Bigha) نامی راہ داری 178 x 85 میٹر رقبے کی ایک ایسی پٹی ہے، جو دھاگرام انگارپوٹے (Dahagram- Angarpota) کے دو حصوں کو جدا کرتی ہے، یہ بنگلادیشی باشندوں کے لیے 999 برسوں کے لیے لیز پر ہے کہ وہ ایک انکلیو سے دوسرے میں جانے کے لیے اس ہندوستانی راہ داری کو استعمال کر سکتے ہیں۔ روزانہ کچھ گھنٹے کے لیے 'انگار پوٹے' کے باشندوں کے استعمال کے لیے بھی دست یاب ہوتی ہے۔

٭سب سے بڑا بنگلادیشی 'محصورہ'
دھاگرام انگارپوٹے (Dahagram -Angarpota) سب سے بڑا بنگلادیشی انکلیو ہے، جو دراصل سب سے بڑے اور تیسرے بڑے انکیلو کا مجموعہ ہے، یہ بنگلادیش کی مرکزی سرحد سے کم سے کم 200 میٹر دور ہے۔ اس کا رقبہ لگ بھگ 26 کلو میٹر اور آبادی 20 ہزار ہے، یہاں تمام سہولیات کا فقدان ہے۔ بجلی سے محروم واحد اسپتال کو بنگلادیش کو ہندوستان کی جانب سے بجلی مہیا کرنے کی اجازت نہ مل سکی تھی۔

٭ہندوستان کے 106، بنگلادیش کے92 انکلیو
بنگلادیش کے اندر 106 بھارتی انکلیو ہیں، جس میں سے 102 فرسٹ آرڈر انکلیو ہیں۔ بھارت میں 92 بنگلادیشی انکلیو ہیں، جن میں سے 71 فرسٹ آرڈر ہیں۔ سیکنڈ آرڈر انکلیو کی تعداد 24 ہے (21 بنگلا اور 3 بھارتی) ہیں۔ انکلیو کو شناخت کرنے کے لیے مختلف نمبر دیے گئے ہیں، کیوں کہ کئی انکلیو کے نام یک ساں ہیں، دونوں ممالک کی جداگانہ نمبروں کی ترتیب وضع کی گئی ہے۔Chhat Tilai, Baikunthapur Teldhar (#3, #4, #5)) اور ضلع Cooch Behar (مغربی بنگال، بھارت) کے تین جڑواں انکیلو فرسٹ آرڈر ہیں۔ باقی 21 کاؤنٹر انکلیو بنگلادیش کے رنگ پور ڈویژن میں واقع ہیں۔ ہندوستان کے 102 فرسٹ آرڈر انکلیو ہیں۔ جس میں سے چھے جڑواں انکلیو ہیں اور ایک ''کاؤنٹر، کاؤنٹر انکلیو'' ہے، جو رنگ پور بنگلادیش میں واقع ہے۔ تین کاؤنٹر انکلیو Cooch Behar مغربی بنگال میں ہیں۔

٭دنیا کے دیگر 'انکلیو'
٭Kaliningrad Oblast روس سے جدا یورپ میں اس کا حصہ ہے، جو 1945ء سے پہلے تک جرمنی کا حصہ رہا ، پھر روس کا حصہ بن گیا۔ یوں پولینڈ، لتھونیا کی سرحدوں پر بھی روس موجود ہے۔
٭اسی طرح امریکی ریاست الاسکا، جغرافیائی طور پر امریکا سے الگ اور کینیڈا سے جڑی ہوئی ہے۔
٭Llívia اسپین کا ایک ایسا قصبہ ہے جو جغرافیائی لحاظ سے مکمل طور پر فرانس کے اندر واقع ہے۔
٭اٹلی کا علاقہ Campione d'Italia سوئٹزرلینڈ میں واقع ہے۔
٭جرمنی کا قصبہBüsingen am Hochrhein بھی سوئزرلینڈ کے اندر واقع ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں