جب ندیم نے شرمیلی کے لیے ہاں کہی
ایک ہفتے بعد ایک ہوٹل میں کمرہ بک کر کے وہاں جلیل افغانی اور میری بیٹھک کا آغاز ہو گیا۔
ISLAMABAD:
جب ندیم نے فلم ''شرمیلی'' میں کام کرنے کے لیے حامی بھر لی تو ایک پہاڑ سا مسئلہ حل ہو گیا۔ اب میں سیدھا اداکار ناظم کی طرف گیا اسے یہ خوشی کی خبر سنائی پھر ہم دونوں مٹھائی لے کر فلمساز زیڈ چوہدری کے گھر گئے۔ اور جب ہم نے اسے یہ کہہ کر مٹھائی کھلائی کہ ندیم نے ہاں کر دی ہے، تو پروڈیوسر کی خوشی دیدنی تھی۔
پھر یہ طے ہوا کہ ہم کچھ دنوں اس بات کا تذکرہ کسی سے نہیں کریں گے پہلے فلم کا اسکرپٹ مکمل کریں گے پھر فلم کے تمام گانے ریکارڈ کرائیں گے اور ایک بار پھر یونس ہمدم اپنے انداز سے ندیم کو ایک دن کے لیے شوٹنگ کے لیے راضی کر لے گا اور اس طرح فلم کا فوٹو سیٹ بھی سینماؤں کی زینت بننے کے لیے تیار ہو جائے گا، ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ میں نے درمیان میں لقمہ دیتے ہوئے کہا اختر بھائی! موسیقار کے لیے اب آپ کو ڈھاکہ کے مشہور موسیقار کریم شہاب الدین لینا ہو گا جو ان دنوں لاہور آیا ہوا ہے۔ میری اس سے ملاقات ہو چکی ہے اسے جلد ہی ہدایت کار خالد خورشید بھی اپنی ایک فلم میں لے رہے ہیں۔
یہ سن کر اقبال اختر بولے ارے بھئی! میری اب تک لاہور میں جتنی بھی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں ان سب کی موسیقی ایم۔ اشرف نے ہی دی ہے۔ وہ میرا پسندیدہ موسیقار ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا رائٹر جلیل افغانی بولے اقبال اختر صاحب! فلم کے آپ ہدایت کار ہیں لاہور میں آپ کا نام مشہور ہے آپ کسی بھی موسیقار کو لے سکتے ہیں پھر فلم کا ہیرو ندیم ہے جس کے نام پر فلم شروع ہونے سے پہلے ہی بک جاتی ہے اگر اس فلم میں موسیقار کریم شہاب الدین ہو گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
آپ کی وجہ سے ایک باصلاحیت موسیقار کو لاہور میں اپنے قدم جمانے کا موقع مل جائے گا اب میں نے بیچ میں لقمہ دیتے ہوئے کہا۔ ہاں اختر بھائی! کریم ڈھاکہ میں کئی کامیاب فلمیں دے چکا ہے۔ اور خاص طور پر کریم نے اپنی فلموں ''کیسے کہوں'' اور ''بیگانہ'' میں ندیم کو اس وقت گوایا تھا جب وہ گلوکار نذیر بیگ کی حیثیت سے نیا نیا ڈھاکہ آیا تھا۔ اور پھر میں نے ترپ کا پتہ پھینکتے ہوئے کہا کہ میں نے جب ندیم سے ''شرمیلی'' سائن کرنے کی بات کی تھی تو ندیم کو یہ بھی کہا تھا کہ ''شرمیلی'' میں ڈھاکہ والا آپ کا دوست موسیقار کریم شہاب الدین موسیقی دے گا۔ یہ سن کر ندیم نے کہا یار ہمدم! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
اس کی ڈھاکہ کی فلم ''چاند چاندنی'' میں کیا زبردست میوزک تھی اور میں اس فلم کا ہیرو تھا اور یہ کہہ کر ندیم نے ''شرمیلی'' کے لیے ہاں کہہ دی تھی۔ پھر اقبال اختر نے بھی یہ باتیں سن کر اپنا فیصلہ کریم شہاب الدین کے حق میں کر دیا اور اس طرح میرے سر سے ایک بڑا بوجھ بھی اتر گیا اور کریم شہاب الدین کو ''شرمیلی'' کا متفقہ موسیقار منتخب کر لیا گیا۔
میں دوسرے دن صبح جلدی اٹھا اور سیدھا کریم شہاب الدین کے گھر سمن آباد پہنچ کر دروازے کی بیل بجائی تو کریم شہاب الدین آنکھیں ملتا ہوا پریشان انداز میں دروازے پر آیا مجھے دیکھ کر اور پریشان ہو گیا۔ کہنے لگا ارے بابا! اتنا ارلی مورننگ (Early Morning) کوئی لفڑا، کوئی پرابلم؟ میں نے کہا بات کچھ ایسی ہے اندر چل کر کرتے ہیں، ہم دونوں اندر گئے کریم کی بیگم بھی مجھے دیکھ کر گھبرا گئی۔ پھر میں نے کریم سے کہا یار! میں ساری رات سو نہ سکا اور تمہیں خوش خبری سنانے صبح ہی تمہارے گھر آنا پڑا۔ کریم بولا ارے بابا! پھر جلدی بولو نا میرے کو تو ٹینشن ہونے لگا ہے۔
پھر میں نے کریم کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ دادا! (بنگالی میں بڑا بھائی) تم خوش ہو جاؤ تم کو لاہور میں ہدایت کار اقبال اختر کی فلم ''شرمیلی'' کے لیے موسیقار منتخب کر لیا گیا ہے۔ اور پھر میں نے ندیم والا قصہ اور اقبال اختر کے گھر کی کہانی بھی مختصر انداز میں سنائی تو کریم شہاب الدین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ کہنے لگا آج تم نے ایک اچھی خبر سنا کر مجھ کو مقروض کر دیا ہے۔ دو دن پہلے مجھے کراچی والے انکل نورالدین کیسٹ نے ایک بری خبر سنائی تھی کہ ہدایت کار خالد خورشید نے انکل کو مجھے موسیقار لینے کے لیے منع کر دیا ہے اور بولا ہے کہ میرا موسیقار صرف ایم۔ اشرف ہی ہوتا ہے۔
میں تو ہمدم! یہ خبر سنتے ہی ایک دم اپ سیٹ ہو گیا تھا، اور لاہور سے بد دل ہو کر کراچی واپس جانے کے لیے اپنا بوریا بستر سمیٹ رہا تھا۔ میں نے کریم کو ڈھارس دیتے ہوئے کہا۔ میرے یار! جب کوئی کسی کے لیے ایک دروازہ بند کرتا ہے تو اوپر والا اس کے لیے کئی دوسرے دروازے کھول دیتا ہے۔ دادا! اب تم لاہور سے واپس نہیں جائے گا۔ فلم ''شرمیلی'' میں لکھ رہا ہوں۔ اور میری ساری ٹیم تمہارے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اب فلم ''شرمیلی'' کی موسیقی تم دو گے آج سے فکر فنش۔ میری بات سن کر اب کریم شہاب الدین کو سولہ آنے یقین آ گیا کہ وہ فلم ''شرمیلی'' کی موسیقی دے رہا ہے۔
ایک ہفتے بعد ایک ہوٹل میں کمرہ بک کر کے وہاں جلیل افغانی اور میری بیٹھک کا آغاز ہو گیا۔ جلیل افغانی روزانہ دس بارہ سین لکھ کر دیتے اور میں ان کے مکالمے لکھتا رہتا رات کو ہدایت کار اقبال اختر کبھی کبھی چکر لگا لیتے اور وہ مکالموں یا کسی منظر میں کوئی مناسب سی تبدیلی محسوس کرتے تو بتا دیتے اور پھر یہ سلسلہ ڈیڑھ ماہ تک چلتا رہا۔ اسکرپٹ کی تیاری کے دوران فلم کے تمام گانوں کی سچویشن بھی نکال لی گئی تھیں۔ ہدایت کار اقبال اختر نے جب فلم کا اسکرپٹ او۔کے کر دیا تو موسیقار کریم شہاب الدین کے ساتھ گیت کی تیاری شروع کر دی گئی۔
فیصلہ یہ کیا گیا کہ ایک سولو گیت جو فلم میں ندیم پر فلمایا جائے گا پہلے وہ ریکارڈ کیا جائے اور پھر اسی گیت کی ریکارڈنگ سے فلم کی مہورت کی رسم ادا کی جائے، گیت کی جو سچویشن ہم نے منتخب کی تھی وہ ایک سیڈ (sad ) سانگ تھا کریم شہاب الدین ان دنوں، لاہور ٹی وی کے لیے موسیقی کے پروگرام کرتا تھا۔
اسی دوران اسے ایک نیا گلوکار ٹکرایا تھا۔ اس کی آواز کشور کمار سے ملتی تھی۔ اس نے جو ایک گیت اس کی آواز میں ریکارڈ کیا تھا وہ مجھے، ناظم اور فلمساز زیڈ چوہدری کو سنایا وہ بڑی فریش آواز تھی، وہ آواز ہم سب کو پسند آئی وہ گلوکار اے۔نیر تھا۔ پھر میں نے کریم کے ساتھ بیٹھ کر ایک المیہ گیت اس کی دھن پر لکھا میں اور کریم شہاب الدین چاہتے تھے کہ ہدایت کار اقبال اختر کو ابھی کچھ نہ بتایا جائے ورنہ وہ یہاں بھی یہ کہنے سے نہیں چوکیں گے کہ ان کی فلم میں احمد رشدی ہی گائے گا۔ کیونکہ انھوں نے اب تک اپنی تمام فلموں میں احمد رشدی ہی کو گوایا تھا۔
یہاں میں نے پھر ایک ترکیب لڑائی، کریم شہاب الدین سے کہا کہ ہم پہلے دو گیت تیار کرتے ہیں۔ ایک احمد رشدی کے حساب سے اور ایک نئے گلوکار اے۔نیر (آرتھر نیر) کو گوانے کے لیے۔ احمد رشدی کا پیانو کے ساتھ ایک گیت میں نے کریم کی دھن پر لکھا جس کے بول تھے:
تُو سامنے ہے میرے
تجھ سے ہی زندگی ہے
چہرہ وہی آنکھیں وہی
چاہا تھا دل نے جسے
منزل وہی مل گئی
گیت کی بہت ہی خوبصورت میلوڈی تھی، پھر دوسرا گیت آؤٹ ڈور کے حساب سے ایک سیڈ سانگ تھا جو ندیم پر عکس بند ہونا تھا، وہ بھی دھن ہی پر لکھا گیا تھا جس کے بول تھے:
جی رہے ہیں ہم تنہا اور تیرا غم تنہا
کیسے ہم اٹھائیں گے تیرا ہر ستم تنہا
اس گیت کی دھن بھی بڑی پراثر اور مسحور کن بنائی تھی پس منظر میں کوائرس کے دلکش arrangements نے گیت کو اور اٹھا دیا تھا۔ پھر جب اے۔ نیر نے اس گیت کی ریہرسل کر کے سنایا تو گیت کا حسن دوبالا ہو گیا تھا۔ اب یہ دو گیت تیار کر کے میں اور کریم فلمساز کے ساتھ اقبال اختر کو سنانے گئے۔
اقبال اختر صاحب نے دونوں گیتوں کی دھن کئی بار بڑی توجہ سے سنی پھر پروگرام کے مطابق نئے گلوکار اے۔ نیر کو بھی بلوا لیا تھا، جب اے۔ نیر نے اپنی آواز میں یہ گیت گا کر سنایا تو سارا ماحول ہی بدل گیا تھا۔ اے۔ نیر کی خوبصورت اور فریش آواز کی فلمساز، زیڈ چوہدری، ناظم، میں نے بھی تعریف کی اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ہدایت کار اقبال اختر نے کہا۔ کریم! مجھے دونوں گیت بہت اچھے لگے اور میں چاہتا ہوں کہ نئے گلوکار اے۔ نیر کے گیت سے فلم کی مہورت کی رسم ادا کی جائے۔
(باقی آیندہ ہفتے)