اب بھنگئی کہلانا باعث فخر ہو گا

انگریز دوا ساز کمپنیوں کے ماہرین اس پودے کا نباتاتی نام Cannabis indica اور Cannabis sativa کے نام سے پکارتے ہیں


Ghulam Mohi Uddin July 26, 2015
برصغیر کے نشہ آورپودے کی دیار غیر میں پذیرائی مستقبل میں کیا رنگ دکھائے گی؟ ۔ فوٹو : فائل

یہ اچھے وقتوں کی بات ہے جب ایک جنگلی پودے کو ہر لحاظ سے برُا سمجھا جاتا تھاکیوں کہ اس پودے کے پتے اور پھول کھانے سے انسان کوایک عجب قسم کا نشہ ہوجایاکرتا تھا، پہلے پہل اس کو جناتی پودا بھی قرار دیا گیا کیوں کہ اس پودے کا نشہ کرنے والوں نے اسے شراب اور افیون سے یک سر مختلف قرار دیا تھا۔

اس پودے سے تیار نشہ آور مشروب کو پاکستان اور بھارتی پنجاب میں عمومی طور پر '' سردائی'' کہا جاتا ہے جب کہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھنگ لسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ پودا برصغیر کی دریافت ہے۔اس لیے اس پودے کو ہندی بھنگ،ہندی سن،قنب ہندی،شاہدانہ اور گانجا کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جب کہ مغرب میں اس کو ''میری جوآنا'' کہا جاتا ہے۔

انگریز دوا ساز کمپنیوں کے ماہرین اس پودے کا نباتاتی نام Cannabis indica اور Cannabis sativa کے نام سے پکارتے ہیں۔ ان میں سے کینے بس انڈیکا، برصغیر پاک و ہند کی مناسبت سے ہے اور کینے بس سیٹائیوا یورپ اور امریکا کی مناسبت سے ہے۔بھارت اور پاکستان میں تو اب بھی یہ مشروب ایک خاص طرح کا روایتی نشہ سمجھا جاتا ہے اور برصغیر کے بہت بڑے حصے میں تو یہ خیال بھی عام ہے کہ اس مشروب کے طبی فوائد بھی ہیں۔

صدیوں سے بھنگ کے مادہ پودے کے پھولوں اور پتوں سے ایک خاص ترکیب کے ساتھ نشہ آور مشروب تیار کیا جاتا ہے، اس مشروب کوپینے والوں کو کبھی ''بھنگئی'' کہا جاتا تھا، جو بعد میں بگڑتے بگڑتے بھنگی کہلایا اور پھر یہ لفظ طبقہ اشرافیہ میں ایک گالی بن گیا۔مگر ٹھہریے!آٓیندہ چند سال بعد یہ گالی ایک معزز خطاب بننے والی ہے کیوں کہ دنیا کے متعدد ترقی یافتہ ممالک نے اس پودے کی کاشت اور استعمال کی قانونی اجازت دے کر اس کے سماجی اور اقتصادی مرتبے میں اضافہ کردیا ہے۔

ابھی اس پودے کی شان میں ملٹی نیشنل ادویات ساز کمپنیوں نے مدح سرائی شروع نہیں کی مگر یہ بھی عن قریب شروع ہونے والی ہے۔ اس کے بعد بھنگ سے بھنگئی تک کی کہانی طبقہ اشرافیہ کے لیے نہ صرف قابل قبول ہو جائے گی بل کہ اب یہ غریب غربا کے بجائے طبقۂ اشرافیہ کا فیشن بھی کہلائے گی۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایک نئے قانون کے تحت چلی نے اپنے ہرشہری کو بھنگ کے زیادہ سے زیادہ چھ پودے لگانے کی اجازت دے دی ہے۔ چلی کی پارلیمان نے ایک بل منظور کیا ہے، جس کے تحت وہاں کے باشندوں کو چھوٹے پیمانے پر بھنگ کی کاشت کی اجازت ہوگی ۔

یہ بل ملک کے ایوان زیریں نے منظور کر لیا ہے ،جس کے تحت طبی، تفریحی یا روحانی استعمال کے لیے چھوٹے پیمانے پر بھنگ کاشت کی جا سکے گی جب کہ اس سے قبل بھنگ کا پودا لگانا، اس کو فروخت کرنا اور اس کے نقل و حمل پر پابندی عائد تھی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ 15 سال تک کی سزا ہو سکتی تھی۔ یہ نیا بل پہلے کمیشن برائے صحت کے پاس جائے گا، پھر سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

دوسری جانب قانون سازوں (اراکین پارلیمان) نے اس نتیجے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے منشیات کے استعمال کو تقویت ملے گی جب کہ ایوان زیریں کے اراکین نے اس بل کو واضح اکثریت 39 کے مقابلے 68 ووٹوں سے منظور کیا ہے۔

چلی کی ایک میونسپلٹی نے اکتوبر2014 میں پہلی بار حکومت کے ایک آزمائشی پروگرام کے تحت طبی استعمال کے لیے بھنگ کے پودے لگائے تھے، اب اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو پھر اس کا تفریحی استعمال مجرمانہ عمل نہیں ہوگا۔ خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں بہت سے ممالک نے طبی یا ذاتی استعمال کے لیے بھنگ کی کاشت میں نرمی کر دی ہے۔

گذشتہ سال امریکی ریاست واشنگٹن اور کولوریڈو میں بھی بھنگ کے ذاتی استعمال کی اجازت مل چکی ہے۔اب امریکا کی کم از کم 20 ریاستوں میں طبی استعمال کے لیے بھنگ کی بعض اقسام اگانے کی اجازت ہے جب کہ کولوریڈو اور واشنگٹن میں ذاتی استعمال کے لیے اس کی اجازت ہے۔

یاد رہے یوروگوئے دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے میری جوانا کا قانونی بازار2013 میں قائم کیا تھا۔ رواں سال کے اوائل میں جمیکا نے اس کے ذاتی استعمال کو غیر مجرمانہ عمل قراردے دیاتھا، اس حوالے سے دو ریاستوں میں اب بھی قانون سازی کی کوشش ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی ریاستیں واشنگٹن اور کولو راڈو اپنے ہاں تفریحی مارکیٹ کے لیے بھنگ کی پیداوار کو قانونی دائرہ کار میں لاچکی ہیں جب امریکا کی ایک ریاست میں بھنگ کی قانونی طور پر فروخت شروع ہوئی تھی توخریداری کے لیے لوگوں کا ایک ہجوم لگ گیا تھا۔

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست واشنگٹن کے کچھ مقامات پر عارضی طور پر بھنگ کی فروخت کے لیے محدود فراہمی شروع ہوئی تھی تو اُس وقت واشنگٹن کے لائسنس یافتہ کاشتکاروں کے پاس فصل تیار کرنے کا وقت نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس کی فروخت کے مراکز پر لوگوں کا جوش و خروش دیکھا گیا۔ واشنگٹن میں دو سال پہلے محدود مقدار میں چرس یا بھنگ رکھنے اور اس کا گھر پر استعمال کرنے کی قانونی اجازت دی گئی کیوں کہ قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں نے بھی بھنگ پر سے پابندی ختم کرنے کی حمایت کی تھی۔

بہت سے خریداروں کا کہنا تھا کہ بغیر لائسنس کی بھنگ یا چرس اب بھی غیرقانونی ہے، ان ریٹیل اسٹوروں کی بہ نسبت یہ چورمارکیٹ سے زیادہ آسانی سے مل جاتی ہے جب کہ مقررہ اسٹوروں سے خریداری پر ریاست کو پچیس فی صد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ یہاں سیکیورٹی کیمرے بھی لگے ہوتے ہیں۔دوسری جانب امریکی تحقیقی مراکز نے بھنگ کو (18 اگست 2014) قانونی حیثیت دینے کے خلاف تنبیہ جاری کی تھی اور کہا تھا کہ مستقبل قریب میں اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اب یہ پودے قانونی طورپر واشنگٹن اور کولاراڈو ریاستوں میں اگائے اور فروخت کیے جا رہے ہیں۔ تفریحی استعمال کے لیے کولاراڈو ریاست میں نجی مقامات پر گانجے کی کاشت، فروخت اور استعمال کی اجازت کے تقریباً سات ماہ بعد،کولاراڈو ریاست کے دارالحکومت ڈینیو کی پولیس نے تنبیہ جاری کی تھی کہ گزشتہ برس کے مقابلہ میں 2014 میں جرائم میں7 فی صد اضافہ ہوا ہے اور تحفظ کے لحاظ سے امریکا کے شہروں میں اس کا شمار دسویں نمبرپر ہے۔

گانجے کی فروخت کے قانون کی منظوری کے بعد ذاتی اشیا کی چوری کی وارداتوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعدادوشمار ان سول سوسائٹی کی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں ،جو بھنگ اور گانجے کے استعمال کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ تفریحی مقاصد کے لیے بھنگ کو قانونی قراردینے سے مسئلہ پہلے سے زیادہ خراب اور پیچیدہ ہوجائے گا۔

اس کے بر عکس اس کی حمایت کرنے والوں کا خیال ہے کہ آج جو غیرقانونی منشیات کے استعمال کی بہتات ہے اس کا سبب اس پر عائد پابندی ہے۔ کئی پر تعیش ہوٹلوں اور دوکانوں نے تو بھنگ اور گانجے کے فروخت کی شاخیں کھول لی ہیں، حتیٰ کہ بعض کمپنیوں نے ان افراد کے لیے سیاحتی دوروں کا انتظام کرنا شروع کردیا ہے۔ معاشی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ وہ ریاستیں جنہوں نے گانجے کی فروخت کی قانونی اجازت دے دی ہے ان کو بہت زیادہ منافع کا امکان ہے۔

اب آیئے جرمنی کی جانب! جس کے ہم سایہ ملک نیدرلینڈ میں پہلے ہی سیکڑوں دکانوں پر بھنگ دست یاب تھی۔ اب جرمنی کے شہر برلن کے کونسلرز نے بھی شہر میں ملک میں پہلی ''بھنگ کافی'' دکان قائم کرنے کی منظوری دی ہے، جہاں بھنگ فروخت کی جا سکے گی۔گو کہ کونسلرز کی منظوری کے بعد بھی اس کیفے کے قیام میں بہت سارے قانونی مسائل حائل ہیں۔کونسل کے زیادہ تر کونسلروں نے کیفے کے حق میں ووٹ دیا ہے تا کہ شہر میں منشیات کی غیر قانونی فروخت کو روکا جا سکے۔

جرمنی کے اخبار Sueddeutsche Zeitung کے مطابق ڈائریکٹر میئر مونیکا ہرمین کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے نافذ امتناعِ منشیات کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور اب ہمیں اس کاغیر روایتی حل سوچنا ہوگا۔ جرمنی میں منشیات کا استعمال غیر قانونی ہے لیکن بعض معاملات، جیسا کہ طب یا عوامی مفادات سے متعلق دیگر مقاصد کے لیے ایسی اشیاء کو استثنیٰ حاصل ہے۔ اخبار نے خبردار کیا ہے کہ اب بھی کئی قانونی پہلو حل طلب ہیں، جن میں اس بات کا تعین کرنا باقی ہے کہ اس کیفے کو چلانے والا کون ہو گا؟ یہاں سے نشہ آور بھنگ کون خرید سکتا ہے؟۔

جرمنی کے ہم سایہ ملک نیدرلینڈز میں کافی کی ایسی سیکڑوں دکانیں کھل چکی ہیں، جہاں سے محدود مقدار میں نشہ آور بھنگ خریدی جا سکتی ہے۔جرمنی میں ایک عدالت نے تو یہ فیصلہ بھی دیا ہے کہ دیرینہ درد کے امراض کے شکار افراد طبی استعمال کے لیے بھنگ اْگا سکتے ہیں۔ عدالت نے یہ فیصلہ پانچ مریضوں کی جانب سے دائر ایک مقدمہ نمٹاتے ہوئے سنایا تھا۔

جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے ادویات وطبی آلات (بی ایف اے آر ایم) نے ان مریضوں کی جانب سے گھروں پر بھنگ کاشت کرنے کی اجازت لینے کے لیے دائر درخواستیں ردّ کر دی تھیں۔ اس کے ردِ عمل میں ان لوگوں نے جرمن شہر کولون کی ایک انتظامی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ بی ایف اے آر ایم کو تین لوگوں کی درخواستوں پر پھر سے غور کرنا ہو گا۔

عدالت نے کہا ہے کہ تین درخواست گزار بھنگ اْگانے کی شرائط پر پورے اترے تھے۔ ان کے اْگائے ہوئے پودوں تک کسی اور کو رسائی نہیں تھی۔ عدالتی ترجمان سٹیفینی زائفیرٹ کا کہنا تھا ''اب تک گھروں پر بھنگ اْگانا غیرقانونی تھا تاہم ان انتہائی بیمار لوگوں کو ایسا کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔'' انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ عدالتی فیصلہ ہر کسی کو بھنگ کی کاشت کی اجازت نہیں دیتا، یہ چھوٹ انتہائی بیمار لوگوں کے لیے ہے جن کے لیے بھنگ آخری علاج ہے۔

عدالت نے پانچ میں سے دو افراد کی درخواستیں ردّ کر دی تھیں، ان میں سے ایک درخواست کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ بھنگ کے پودوں کو عام رسائی سے بچانے کے لیے درخواست گزار عدالت کو مطمئن نہیں کر سکا تھا۔ دوسری درخواست اس لیے ردّ کی گئی کیوںکہ عدالت کے خیال میں مریض کے پاس بھنگ کے علاوہ بھی متعدد آپشنزموجود تھے۔

عدالت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بھنگ اْگانے کی اجازت انفرادی حالات دیکھتے ہوئے ہی دی جا سکتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ مریض بھنگ کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے جب کہ ان کی ہیلتھ انشورنس کمپنیاں بھی اس کے لیے ادائیگی نہیں کرتیں۔

اسی طرح 2013 میں یوراگوئے نے بھنگ کی کاشت اور فروخت کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک بِل منظور کر لیاتھا۔ یوں یوراگوئے اس نشہ آور پودے کے حوالے سے قانون منظور کرنے والا پہلا ملک بنا تھا۔ یوروگوئے کی حکومت اس قانون کی منظوری چاہتی تھی جب کہ پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں نے پہلے ہی اس کی منظوری دے دی تھی۔

بعد ازاں سینیٹ نے بھی اس قانون کی توثیق کر دی تھی۔ سینیٹ میں اس کی حمایت میں16 اور مخالفت میں 13 ووٹ پڑے تھے۔اس قانون کے تحت بالغ افراد کیمیسٹ کی دکان سے ماہانہ 40 گرام بھنگ خرید سکیں گے۔ ایک وقت میں بھنگ کے چھ پودے اگانے کی بھی اجازت ہو گی۔

اس مقصد میں دل چپسی رکھنے والے افراد کو صارفین کے ایک ڈیٹا بیس میں رجسٹریشن کروانی ہو گی۔خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اب بھنگ کے کلبوں کو15 سے 45 ارکان رکھنے کی اجازت ہوگی۔ ہر کلب کو 99 پودے کاشت کرنے کی اجازت ہے ، تاہم غیرملکیوں اور کم عمر افراد کے لیے بھنگ کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

یہ قانون آئندہ برس کے وسط میں لاگو ہو جائے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے تحت بھنگ کی کاشت، درآمد، برآمد، پیداوار، ذخیرہ اندوزی، مارکیٹنگ اور تقسیم حکومتی کنٹرول میں آجائے گی۔ یوروگوئے میں ذاتی استعمال کے لیے بھنگ رکھنے پر پہلے ہی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہالینڈ میں بھی ایسے ہی ضوابط نافذ ہیں جہاں تکنیکی طور پر غیرقانونی ہونے کے باوجود بھنگ کے استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی۔

صدر اوباما بھنگ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
گذشتہ سال امریکی صدر اوباما نے اپنے ایک بیان میں بڑی محتاط رائے دی تھی کہ کہا تھا کہ بھنگ کا نشہ شراب سے کم خطرناک ہے۔ انہوں نے بھنگ پینے والے غریب لڑکوں کے جیل جانے پر بھی گہری تشویش کا اظہارکیا تھا۔ امریکی صدر نے اس امرکا اظہار ایک میگزین میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں کیا تھا۔

امریکی صدر براک اوباما نے بھنگ کے نشے کو شراب اور الکحل کے مقابلے میں نسبتاً کم خطرناک قرار دیتے ہوئے اس امر پر افسوس کیا تھا کہ غریب بچے بھنگ کے استعمال کی وجہ سے جیلوں میں بند ہوجاتے ہیں تاہم انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا میں بھنگ کی تعریف نہیںکر رہا، بھنگ کا استعمال ایک برا خیال ہے اور یہ بات بھی بری ہے کہ امریکا میں بھنگ پینے کے جرم میں امیروں کے مقابلے میںغریب ہی جیل جاتے ہیں۔



ان کے بقول سیاہ فام امریکی بچے اور لاطینی امریکی بچے عام طور پر غریب ہوتے ہیں، اس لیے وہ غیر واجب سزاؤں کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اس بارے میں اوباما نے مزیدکہا کہ معاشرے کی اکثریت ایک مرتبہ یا ایک سے زیادہ باراس قانون شکنی کی مرتکب ہوچکی ہوتی ہے لیکن صرف چند لوگوں کو ہی سزا کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ صدر اوباما نے ان لوگوں کو مبالغے کا شکار قرار دیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ بھنگ کو قانونی جواز دینے سے مسائل حل ہو جائیں گے''۔

امریکی صدر نے مزید کہا''میں بچپن میں تمباکو نوشی کیا کرتا تھا لیکن وہ میری ایک بری عادت اور عیب تھا''۔ تمباکو نوشی، بھنگ اور الکحل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''میں نے اپنی دونوں بیٹیوں ساشا اور مالیا کو بھی یہ ہی بتایا ہے کہ یہ ایک برا خیال ہے۔ اس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور یہ مکمل طور غیرصحت مندانہ سرگرمی ہے''۔

 

تھری ڈی پرنٹر کے ساتھ بھنگ کی کاشت کا تجربہ
ابھی چند دن پہلے اوٹاوا کی ایک کمپنی نے تھری ڈی پرنٹر کے ساتھ بھنگ کی کاشت کا تجربہ کیا۔ اس سے قبل اس کمپنی شہریوں کو تھری ڈی پرنٹ ایبل گارڈننگ ٹول کے ساتھ میری جوانا کاشت کرنے کی اجازت دی تھی۔تھری ڈی پانکس نامی اس کمپنی نے میڈیکل میری جوانا کے لیے ایک پرنٹ ایبل ہائیڈرو پونکس سسٹم تخلیق کیا ہے۔ ٹویڈ میری جوانا کے شریک بانی اور سابق سی ای او اس نئے سسٹم کی افزائش کے لیے مدد دے رہے ہیں۔ کمپنی کے ابتدائی بالکونی ایکو سسٹم کی طرح پرنٹ ایبل ہائیڈرو پانکس سسٹم بھی مفت دے رہی ہے۔

امریکا میں بھنگ سے تیار مٹھائیوں نے دھوم مچا دی
ایک امریکی جریدے ڈینورپوسٹ (Denver Post)نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن اورکولوریڈو میں بھنگ کی فروخت کو قانونی شکل دئیے جانے کے بعد مقامی سوئٹس اور بیکرز کمپنیوں نے ''بھنگ کے شوقین صارفین'' کی تفریح طبع کے لیے بھنگ سے جب مٹھائیاں ، چاکلیٹ ، کیک اور لولی پاپ تیار کرنے شروع کیے تو نشے کے شوقین امریکیوں میں ان مصنوعات کو بے انتہا پذیرائی ملی۔

ڈینور پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقامی دکان داروں ، بیکری مالکان اور سوئیٹ شاپس کے ورکرز نے بتایا کہ ان کی دکانوں پر ''بھنگ کی میٹھی پروڈکٹس '' کے لیے عوام نے یلغار کر دی تھی اور صرف پہلے دن ہی دس لاکھ ڈالر سے زیادہ کی مٹھائیاں ، پیسٹریاں اور لولی پاپ فروخت ہوئے تھے۔ ادھر امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کولوریڈو کے اسکولوں کی انتظامیہ ، ڈاکٹروں اور سول سوسائیٹی نے بھنگ سے تیار مٹھائیوں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے کیوںکہ بھنگ کی مٹھائیوں، ٹافیوں اور کینڈیز کی فروخت سے بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

بھنگ کا استعمال۔۔۔۔۔۔۔
ذہن کے لیے نقصان دہ ہے، طبی تحقیق

طبی ماہرین کے مطابق جتنی زیادہ بھنگ پی جائے گی، ذہانت کے متاثر ہونے کا اتنا ہی خدشہ ہے۔ آئی کیو کے پوائنٹس میں اواوسطاً آٹھ درجے کمی آتی ہے۔نیوزی لینڈ میں کی گئی اس نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بھنگ پینے والے نوجوانوں کی ذہانت میں نمایاں طور پر کمی واقع ہو جاتی ہے۔

محققین کی بین الاقوامی ٹیم کے مطابق جن لوگوں نے اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے بھنگ یا نشہ آور جڑی بوٹی کا استعمال شروع کیا، ان کی ذہانت میں کمی دیکھنے میں آئی اور بعد میں استعمال ترک کرنے پر بھی ذہنی صلاحیت بحال نہیں ہوئی۔ نیوزی لینڈ کے شہر دوندن میں سائنس دانوں نے بیس سال سے زائد عرصے تک ایک ہزار افراد پر مشتمل ایک گروپ کا مشاہدہ کیا۔



سائنس دانوں نے ان افراد کا اس وقت سے مشاہدہ کرنا شروع کیا جب انہوں نے بھنگ کا استعمال شروع نہیں کیا تھا اور اس کے بعد اڑتیس سال کی عمر تک پہنچنے کے دوران ان کے انٹرویوز کیے ۔ اس دوران دیگر عوامل جیسا کہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی یا دیگر منشیات کا استعمال اور تعلیم میں صرف کیے جانے والے عرصے کو بھی مدنظر رکھا گیا، جن لوگوں نے بھنگ کا استعمال شروع کیا، انہیں دہانت میں کمی کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔

ٹیم میں شامل برطانیہ کے ایک ماہر کے مطابق یہ تحقیق اس بات کی وضاحت کر سکے گی کہ جو لوگ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے منشیات کا استعمال شروع کر تے ہیں وہ اکثر زیادہ کام یاب نظر نہیں آتے ۔ کنگز کالج لندن میں نفسیات کے پروفیسر ٹیری موفٹ کے مطابق یہ ایک خاص تحقیق ہے اور میں مکمل اعتماد کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے بھنگ کا استعمال شروع کرنا ذہن کے لیے نقصان دہ ہے لیکن اٹھارہ سال کی عمر کے بعد اس کا استعمال محفوظ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھنگ کے استعمال کا زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوتا ہے، جو نوجوانی میں اس کا استعمال شروع کر دیتے ہیں، مثال کے طور پر محققین کو معلوم ہوا کہ جو لوگ نوجوانی میں اس کا استعمال کرتے ہیں اور پھر مسلسل کئی سال تک جاری رکھتے ہیں، ان کی ذہانت یا آئی کیو کے پوائنٹس میں اوسطاً آٹھ درجے کمی آئی، اس کے بعد بھنگ کے استعمال کو محدود کرنے یا چھوڑنے کی صورت میں بھی ذہنی صلاحیت پوری طرح سے بحال نہ ہوئی۔

محققین کے مطابق مسلسل بیس سال سے بھنگ کے عادی افراد میں نیورو سائیکالوجیکل سطح پر شدید کمی آتی ہے اور بہت زیادہ بھنگ استعمال کرنے والوں میں یہ کمی اور زیادہ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس تحقیق سے بھنگ کے استعمال سے منسلک خطرات کو قابل ذکر حد تک سمجھنے میں مدد ملی۔

اس میں تحقیق میں ایک ہزار لوگوں پر نظر رکھی گئی، جب وہ بچے تھے اور کبھی بھنگ کا استعمال نہیں کرتے تھے ۔ان کی ذہنی صلاحتیوں کا جائزہ لیا اور پچیس سال کے بعد ان کا دوبارہ مشاہدہ کیا گیا اور اس وقت ان میں بعض افراد بھنگ کے شدید عادی ہو چکے تھے، اس میں بھنگ کے عادی افراد میں تعلیم کے میدان، شادی اور پیشہ وارانہ زندگی میں قدرے کم کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

نشے سے پاک۔۔۔
روسی بھنگ کی خوبیاں اور خامیاں

انسداد منشیات سے متعلق روس کے سرکاری ادارے نے تجویز پیش کی ہے کہ روس میں ایسی بھنگ کاشت کی جائے جو نشہ آور نہ ہو۔ اس تجویز پر ماہرین کا متضاد ردعمل سامنے آیا تھا۔کچھ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس سے روسیوں کی بھنگ میں دل چسپی بڑھ جائے گی لیکن یہ بھی کہا گیا کہ کئی صنعتی اداروں کو بھنگ کے بیج اور تیل درکار ہوتے ہیں۔ بھنگ کی کاشت پھر سے شروع کیے جانے کے منصوبے پر دس ارب ڈالر صرف ہوتے ہیں۔



اس پروجیکٹ کے منتظمین کے مطابق اخراجات بہت جلد پورے کر لیے جائیں گے کیوںکہ بھنگ مختلف صنعتوں میں استعمال ہونے لگی ہے۔ بھنگ کے استعمال کی وجہ سے روس میں تقریباً دس لاکھ آسامیاں پیدا ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ بھنگ سے رسے اور سیلولوز بنانے والے کارخانوں اور ان میں کام کرنے والوں کی بھی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ غیرنشہ آور بھنگ کی کاشت کے عالمی اور سوویت تجربے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بہت مفید ہو سکتی ہے۔

انسداد منشیات کے ادارے کے سربراہ ایوانوف وکٹر نے کہا کہ مغربی یورپی ممالک، امریکا، کینیڈا، چین اور برازیل, بھنگ کی کاشت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔کینیڈا کا منصوبہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں بھنگ کی کاشت میں سرمایہ کاری آٹھ گنا تک بڑھائی جائے۔ اب بھی روس میں بھنگ کا زیرکاشت رقبہ ایک ہزار ہیکٹر سے زیادہ نہیں جب کہ 1960 کے عشرے میں یہ رقبہ چھ تا سات لاکھ ہیٹکر ہوا کرتا تھا۔



روسی سائنس دانوں نے نشے سے خالی بھنگ پیدا کر لی تھی، جس سے حاصل ہونے والے تیل کو فالج کی روک تھام کے لیے استعمال کیاجاتا ہے ۔ دراصل بھنگ طبی مقاصد سے وسیع پیمانے پر زیر استعمال ہے۔ روسی کمپنی ''فرم ایکسپرٹ ''کے شعبہ تحقیقات کے سربراہ بسپالوف نکولائی نے کہا ہے کہ ماضی میں بھنگ سے خاص طور پر سرطان کے مرض میں دوائی کاکام لیا گیا تاکہ مریض کے درد کو کم سے کم کیا جا سکے۔

اب ہمیں یقین ہے کہ روس دنیا میں نئی قسم کی بھنگ سے اس طرح کی ادویات کی تیاری میں پہلے نمبر پر آ جائے گا۔دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ بھنگ، ٹیکسٹائل صنعت میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

روس میں صدیوں پہلے جب بھنگ کے نشے کے بارے میں کسی کو علم تک نہ تھا، تب بھی اس پودے سے کپڑا بنانے کی روایت موجود تھی جب کہ آج بھنگ سے بنے روسی لباس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بہر حال ماہرین یاد دہانی کراتے ہیں کہ روس میں جس بھنگ کی کاشت کا منصوبہ زیر غور ہے اس میں کچھ نشیلے مادے کم مقدار میں بہر حال موجود ہیں۔ اس لیے ایسی بھنگ کی کاشت سے کچھ نہ کچھ خطرہ درپیش ہوگا۔



انسانی حقوق کے ماسکو کے مرکز کے سربراہ سالکین میخائل نے کہا ہے کہ منشیات استعمال کرنے والے لوگ اس بھنگ سے نشہ تلاش کرنے کی کوشش تو کریں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بھنگ دوسری قسم کے پودوں سے (ادغام) ملنے کے بعد نئے پودے وجود میں آ جائیں۔

تب یہ سوال پیدا ہوگا کہ ان نئے پودوں کو نشیلہ تسلیم کیا جائے یا نہیں؟ یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روسی پارلیمنٹ کے اراکین بھی بھنگ کی کاشت کے بارے میں مشترکہ رائے نہیں رکھتے البتہ بیش تر اراکین پارلیمنٹ بھنگ کی کاشت کے منصوبے کی حمایت پر آمادہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں