تبدیلی تو یوں بھی ممکن ہے 

ہمارے شعبوں میں بدنام ترین شعبے سیاست میں ایسا کیا ہے کہ ہر کوئی اسی کو خدمت کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے؟


Muhammad Usman Jami July 26, 2015
لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بدلاؤ کے چھوٹے چھوٹے دیپ روشن کرکے بھی اندھیرے کو پسپائی پر مجبور کرسکتے ہیں۔

ہمیں یہ سعادت حاصل ہے کہ ہمارے ملک میں ہر شخص نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر خدمت خلق یا ملک و قوم کی خدمت میں مگن ہے۔ شعراء اور ادیب ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کیے بغیر اپنے خون جگر سے ادب کی آبیاری کررہے ہیں۔ ڈاکٹر بچپن میں میں فیصلہ سنا چکے تھے کہ "ڈاکٹر بن کر ملک وقوم کی خدمت کروں گا" چناںچہ وہ مسیحا بنے زندگی اور صحت بانٹ رہے ہیں، علمائے دین کے خادم ہیں تو صحافی سچ کا علم اٹھائے کارجہاد میں مصروف، رہے سیاست دان تو ان کے لیے سیاست خدمت اور عبادت کے سوا ہے ہی کیا! مگر خدمت گزاری کی صفت سے مالامال اس قوم پر نحوست کے ایسے سائے ہیں کہ خدمت کا یہ جذبہ اس تک پہنچتے پہنچتے حرص و ہوس کے گِدھوں میں تبدیل ہوجاتا اور بوٹی بوٹی نوچ کھاتا ہے۔

خدمت کا جذبہ جب دل میں روشن ہوتا ہے تو اس اجالے میں برائے خدمت بس سیاست کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ سو ڈاکٹر عبدالقدیرخان قوم کو جوہری بم دینا کافی نہیں سمجھتے اپنے سیاست کے جوہر دکھا کر ہی خدمت کرنے پر مصر ہیں، جمہوریت پر بُری نظر نہ ڈالنے کا احسان کرنے والے، جنرل ضیاءالحق کے جانشین، مرزا اسلم بیگ اپنی نیک نامی کو سیاست کے لیے سرمایہ بناکر سیاسی جماعت تشکیل دیتے ہیں، مولانا عبدالستارایدھی نے بھی سیاست میں آنے کی ٹھانی تھی، لیکن کراچی کے حالات نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی۔ مسرت شاہین فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیتیں تو قوم ان کی احسان مند ہوجاتی، لیکن انھوں نے قومی خدمت کی ٹھانی اور سیاسی جماعت بناڈالی، اور بھی کئی اداکاروں نے سیاست کا رخ کیا، جیسے محمد علی اور سید کمال، مگر وہ اتنے بڑے اداکار نہیں تھے کہ پاکستان کی سیاست میں چل پاتے، ناکام رہے۔ اب سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری بھی سیاست میں آنے کا عندیہ دے چکے ہیں، ظاہر ہے ملک وقوم کی خدمت کے لیے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے شعبوں میں بدنام ترین شعبے سیاست میں ایسا کیا ہے کہ اسی کو خدمت کا ذریعہ بنایا جائے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ عزت، شہرت اور مقبولیت کی دولت کماکر اسے سیاست کے کالے بازار میں ٹھکانے لگانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں اب تک یہ آگاہی نہیں ہوسکی ہے کہ خالصتاً پاکستانی حقائق کے مطابق باعزت، مشہور، مقبول ہونا اور بات ہے اور کام یاب سیاست دان کا تاج سر پر سجانا دوسری بات۔

دراصل یہ طاقت کی کشش ہے جو مختلف شعبوں کی شخصیات کو سیاست کی طرف کھینچتی ہے۔ یہ خواتین و حضرات جو کسی شعبے میں نام اور عزت بناچکے ہوتے ہیں، محض طاقتور ہونے کی لگن میں سیاست کے بازار میں نئی دکان کھولنے کی کوشش کرتے ہوں یا واقعی خلوص نیت سے منتخب اداروں اور حکومتی ایوانوں میں جا کر وطن کا حال اور اہل وطن کی حالت سدھارنے کا جذبہ انھیں سیاست کی راہ دکھاتا ہے۔ شاید ان کے دل و دماغ میں یہ سوچ ہُمک رہی ہوتی ہے کہ سیاست میں کامیابی کے ذریعے ملنے والا اقتدار واختیار جب الہ دین کے چراغ کی طرح ہمارے ہاتھ میں آئے گا تو ہم سارے مسئلے حل کرکے دیوتا یا مسیحا کے بُت میں تبدیل اور امر ہوجائیں گے۔

قصور ان افراد کا نہیں، یہ جس قوم کا حصہ ہیں وہ بھی کرشموں اور کرشماتی شخصیات کے انتظار میں یا ان سے آس لگائے بیٹھی ہے۔ انقلاب، تبدیلی اور فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے کسی بھی نعرے پر یہ بے تابی سے لپکتی ہے اور پھر مایوس پلٹ آتی ہے۔ عوام سے خواص تک سب کے دماغوں میں اس وہم نے جالے بُنے ہوئے ہیں کہ کسی تحریک یا کسی دھرنے سے یکایک انقلاب اور تبدیلی کا شاہ سوار ننگی تلوار لہراتا برآمد ہوگا اور آن کی آن میں سب بدل جائے گا۔

ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہوگا۔ بس یہ پس ماندہ سوچ امیدوں کی روشنی اور ارمانوں کا خون پیتی رہے گی اور مایوسی کی سیاہی بڑھتی رہے گی۔ نظام بدل ڈالنے کا خواب دیکھتے اور دکھاتے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بدلاؤ کے چھوٹے چھوٹے دیپ روشن کرکے بھی وہ اندھیرے کا گھیراؤ اور اسے پسپائی پر مجبور کرسکتے ہیں۔

اس کے لیے اقتدار میں آنے کو بے تاب سیاسی جماعتیں بنانے کے بجائے چھوٹے چھوٹے پریشر گروپ بنانے ہوں گے۔ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق پریشر گروپ، جن کا کام اپنے متعلقہ شعبے میں سدھار لانا اور اس میں جاری بدانتظامی اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنا ہو۔ مثلاً صحت کے شعبے سے متعلق ایسے گروپ بنا کر اسپتالوں کی حالت، ڈاکٹروں اور طبی عملے کی فرائض سے غفلت، ادویہ کی قیمتوں اور دیگر معاملات پر احتجاج کے ذریعے، لوگوں کا شعور اجاگر کرکے اور حقائق سامنے لاکر صحت کے شعبے میں مثبت تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے پریشر گروپ بنائے جاسکتے ہیں۔ پولیس حکام اور اہل کاروں کی لوٹ کھسوٹ اور ماورائے قانون سرگرمیوں کی پردہ کشائی، حکمرانوں اور منتخب نمائندوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے اور ان کے غیرقانونی اقدامات سامنے لانے، میڈیا کے اداروں اور صحافیوں کے اپنے پیشے کی اقدار سے انحراف کی نشاندہی کے لیے بھی پریشر گروپ بنائے جانے چاہییں۔ صارفین کو کمپنیوں کی لالچ اور لوٹ مار سے بچانے کی خاطر بھی پریشر گروپس کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، بلکہ زیادتی ہے، جو ایسے گروپ بنا کر بلیک میلنگ کا دھندا شروع کرسکتے ہیں، اور کسی نہ کسی طور ایسا کر بھی رہے ہیں۔

میں اس تحریر کے ذریعے ایسے لوگوں سے مخاطب ہوں جو حقیقتاً ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، جن کی نیت نیک اور ارادہ پاکیزہ ہے، لیکن اس کے لیے وہ سیاست کی ڈگر چنتے ہیں، جو مایوسی کے اندھیرے جنگل کو جاتی ہے۔

[poll id="559"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں