آم کھائے گا آم

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہتے ہیں اور جمہوریت کے دعویداروں کو یہ اعتراض ہے کہ آم کی بادشاہت دراصل آمرانہ بادشاہت ہے۔


اویس حفیظ July 27, 2015
ادب ہو یا سیاست ہمارے یہاں آم کا ذکر تو لازمی ملے گا بلکہ پاکستان تو دنیا بھر میں ’’مینگو ڈپلومیسی‘‘ کا بانی و موجد ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: اگرچہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام، آم کھانے سے کام یا پیڑ گننے سے، آم میں بور آنا وغیرہ آم کے حوالے سے اردو کے چند مشہور محاورے ہیں مگر گزشتہ ایک سال سے اس میں ایک نئے محاورے کا اضافہ ہوگیا ہے اور وہ ہے ''آم کھائے گا؟''۔ یارانِ نکتہ ور تو اس کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ کسی کو گھر بلا کر بے عزت کرنا ہو تو اُس سے ان ڈھکے چھپے لفظوں میں پوچھ لو کہ ''آم کھائے گا'' اگر وہ واقعی خودار ہوا تو غیرت کھا لے گا مگر ایک موٹر سائیکل، عمرے کے ٹکٹ، سونے کے سیٹ کی خاطر کبھی بھی ''اس طرح'' آم نہیں کھائے گا۔



آم کو پھلوں کا بادشاہ کہتے ہیں اور جمہوریت کے دعویداروں کو یہ اعتراض ہے کہ آم کی بادشاہت دراصل آمرانہ بادشاہت ہے۔ صد شکر کہ امریکا کی ابھی تک اس آمریت پر نظر نہیں پڑی وگرنہ عراق کی طرح یہاں بھی جمہوریت نافذ کرنے کے بہانے فوجیں اتاردی جاتیں۔

کسی دور میں ہم نے کہا تھا کہ اگر کبھی ادب کے حوالے سے یہ سوال کیا جائے کہ غالب و اقبال و ''اویس'' کے ہاں کونسی چیز مشترک تھی تو اس کے آسان ترین جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ''آم'' کہ ان سب کو ہی آم بیحد پسند رہے۔ غالب کے بارے میں تویہ بھی کہا جاتا ہے کہ
''غالب آموں کے موسم میں شعر نہیں کہتے تھے بلکہ آم ہی کھاتے تھے''۔

مرزا نوشہ کا یہ قول بھی زبان زدعام ہے کہ
''آم ہوں اور خوب ہوں''

مرزا کو ان کے دوست احباب گرمیوں میں آم بطور تحفہ بجھواتے تھے اور کئی بار تو مرزا خود بھی ان سے فرمائش کرکے آم منگواتے۔ ایک دفعہ آپ گھر کے برآمدے میں بیٹھے آم کھا رہے تھے اور چھلکے باہر گلی میں پھینکتے جا رہے تھے۔ پاس ہی آپ کے دوست حکیم رضی الدین خان بھی تشریف رکھتے تھے۔ انہیں آم بالکل پسند نہ تھے۔ اتنے میں گلی میں سے کچھ گدھے گزرے، ان میں سے ایک گدھے نے آم کے چھلکوں کو سونگھا اور پھر کھائے بغیر آگے بڑھ گیا۔ مرزا بھی یہ منظر ملاحظہ کر رہے تھے۔ حکیم صاحب جو تاک میں بیٹھے تھے، فوراً چلائے دیکھئے مرزا! آم تو ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی کھانا پسند نہیں کرتا۔ مرزا فوراً مسکرا کر بولے ''بلاشبہ گدھا آم نہیں کھاتا''۔ بائیوں، جوا بازی اور مفت کے مے کے بعد مرزا آموں کے ہی شوقین پائے گئے اسی لئے دیوانِ غالب میں بھی ''در صفت انبہ'' کے عنوان سے ایک مثنوی آم کی قصیدہ خوانی کرتی بھی ملتی ہے۔
بارے، آموں کا کچھ بیاں ہوجائے
خامہ نخل رطب فشاں ہوجائے
آم کا کون مردِ میدان ہے
ثمر و شاخ گوئے و چگاں ہے
مجھ سے مت پوچھو تمھیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
نہ گل اس میں، نہ شاخ و برگ نہ بار
جب خزاں ہو تب آئے اس کی بہار

''غالب خستہ کے بغیر'' میں غلام احمد فرقت کاکوری نے مرزا کا جنت سے جو مکتوب شائع کیا ہے وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

شاعر مشرق، حکیم الامت سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بھی آموں کے بہت دلداہ تھے۔ آپ اپنے ایک خط میں آموں سے متعلق لکھتے ہیں کہ ''آموں کی کشش، کششِ علم سے کچھ کم نہیں۔ یہ بات بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے۔ ہاں آموں پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ گزشتہ سال مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا، میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی کہ
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہٰ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا

اسی طرح ایک بار جب علامہ بیمار ہوئے تو اطباء نے آپ کو میٹھا چھوڑ دینے کو کہا یہاں تک کہ آموں کا بھی پرہیز لکھ دیا۔ جب آم بھی کھانے سے منع کردیا گیا تو آپ بہت مضطرب ہوئے اور بولے کہ ''آم نہ کھا کر مرنے سے آم کھا کر مر جانا بہتر ہے''۔ جب آپ کا اصرار زیادہ بڑھ گیا تو حکیم نابینا نے آپ کو روزانہ ایک آم کھانے کی اجازت دے دی۔ آپ علی بخش کو تاکید فرماتے تھے کہ بازار میں جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہی خرید کر لانا۔ مولانا عبدالمجید سالک اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ
''میں ایک دن عیادت کے لئے علامہ صاحب کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے سامنے ایک سیر کا ''بمبئی آم'' رکھا ہے اور آپ اسے کاٹنے کے لئے چھڑی اٹھا رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ آپ نے پھر بد پرہیزی شروع کر دی، فرمانے لگے، حکیم نابینا نے دن میں ایک آم کھانے کی اجازت دے دی ہے اور یہ آم بہرحال ایک ہی تو ہے۔''

ادب سے باہر نکلیں تو سیاست کے میدان میں بھی آموں کا بڑا ذکر ملتا ہے۔ ہمارے یہاں تو آموں کا سیاست سے اتنا تعلق ہے کہ پاکستان ہی دنیا بھر میں ''مینگو ڈپلومیسی'' کا بانی و موجد ہے۔ مقامی سیاست میں جن آموں کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ مرحوم صدر جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں رکھے جانے والے آم تھے، جن کے ساتھ بم فٹ کیا گیا تھا۔ مرحوم صدر کو یہی آم کھانے کا تحفہ لے ڈوبا۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں آم بطور تحفہ دینے کی ریت مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کی شروع کی ہوئی ہے۔ آپ اپنے جاننے والے صحافیوں کو ہر سال گرمیوں میں آم کی پیٹی بطور تحفہ بھجوایا کرتے تھے۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر زرداری نے بھی آم تحفہ دینے میں بہت نام کما رکھا ہے۔ گیلانی صاحب گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی آموں کے ذریعے سفارت کاری میں مشغول ہوجاتے اور اسلام آباد میں موجود تمام سفارت کاروں کو آموں کے دو دو کاٹن بھجواتے۔ اپنے دور صدارت میں سابق صدر زرداری نے اپنی سیاسی مخالفین میاں برادران اور عمران خان سمیت بہت سے صحافیوں، اینکرز، سیاستدانوں اور اہم شخصیات کو آموں کا تحفہ بھجوایا تھا حتیٰ کہ جب جاپان نے پاکستانی آمد کی درآمد پر پابندی عائد کی تو صدر زرداری نے جاپانی وزیر اور جاپان کے شہنشاہ کو بھی آموں کا تحفہ بھیجا جس کے بعد جاپان نے عارضی طور پر پاکستانی آم پر سے پابندی ہٹا لی تھی۔

جولائی 2010ء میں امریکی سیکرٹری اسٹیٹ 'ہیلری کلنٹن' نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو یہاں پر انہیں آم بھی پیش کیے گئے جس کے بعد سے وہ بھی پاکستان کے خوش ذائقہ آم کی معترف ہوگئیں۔ اپنے ایجنڈے سے ہٹ کر انہوں نے پاکستانی آموں کی امریکا کی منڈیوں تک رسائی کے لئے ذاتی کاوشیں پیش کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی اور اس حوالے سے عملی کام بھی کیا۔ جس کے بعد پاکستانی پھلوں کی امریکا و یورپ برآمدگی میں بہت آسانی ہوئی۔

اب وزیراعظم نواز شریف بھی اپنی مینگو ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو رام کرنا چاہ رہے ہیں مگر وہ شاید لا علم ہیں کہ آم کی کل پیداوار کا تقریباً 5.86 فیصد آم پاکستان میں پیدا ہوتا ہے اور آم کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ بھارت دنیا میں آم کی کاشت کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اور وہاں تقریباً سالانہ 2 کروڑ ٹن آم پیدا کیا جاتا ہے۔

بہرحال باتیں تو بہت ہوگئیں مگر یہ حقیقت ہے کہ آم نہ صرف ذائقے بلکہ طبی اعتبار سے بھی نہایت مفید ہے۔ کینسر کے علاج میں بھی اس سے مدد ملتی ہے جبکہ اس کی کونپلوں سے حشرات الارض کے کاٹے کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ آج کل تو اس خوش رنگ پھل کا موسم اپنے عروج پر ہے لہٰذا خود بھی آم کھائیں اور اوروں کو بھی کھلائیں مگر پیار سے، ہاں اگر کبھی آم بچانے ہوں تو ''اُن'' کے انداز میں پوچھئے گا کہ ''آم کھائے گا'' تا کہ اگلا شخص آم کھانے سے خود ہی انکاری ہوجائے۔

[poll id="561"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں