تم بادشاہ ہم نہ بولیں

پاکستان کو جمہوریت سے محروم رکھنے کا الزام لگانے میں ہم نے خاصا وقت لگا دیا



پاکستان کے بہت سے مسائل کی وجہ پاکستان کے لوگ ہیں! چونک گئے نا آپ! اچھی بات ہے ہر ایسی بات پر ہم اگر صرف چونک کر دوبارہ کسی خوش خرام جانور کی طرح سونے کی عادت بدل دیں تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔

ایک عجیب بات ہے کہ پاکستان کو جمہوریت سے محروم رکھنے کا الزام لگانے میں ہم نے خاصا وقت لگا دیا اور اب بھی ہم اس پٹی پٹائی لکیرکو مزید پیٹتے ہوئے گزشتہ سات سال سے دیکھ سن رہے ہیں! مگر اس سات سال میں جمہوریت نے کیا کیا۔ پانچ سال مکمل جمہوریت کے اور اب بھی جمہوریت، یہ الگ بات کہ اب جمہوریت کی نئی نئی تعریفیں سننے میں آنے لگی ہیں مولانا (کوئی ایک مخصوص نہیں) کی جمہوریت کچھ اور ہے۔ اسٹیبلشی سیاستدانوں کی جمہوریت کا ''چوکھا'' کچھ اور دکھا رہا ہے۔

قوم پرستوں اور دوسرے ''پرستوں'' کی دکان پر جمہوریت کا دوسرے ڈیزائن کا لباس ہے۔ کبھی اس ملک کو مکمل اسلامی ملک کے سلوگن کے تحت پانچ سات سال دھکیلا جاتا ہے۔ اگلے پانچ سال ترقی پسند اسلام کا نعرہ رہتا ہے یا کہہ لیجیے رہے گا، ہم زندہ رہے تو یہ بھی دیکھ لیں گے۔ اور کہیں ''موروثی جمہوریت'' یا ''مزار پرست جمہوریت'' کا تڑکا لگا نظر آتا ہے۔

سوئی تو اب تک ہم باہر سے منگوا رہے ہیں شاید! مگر جمہوریت کے نعرے اور اس کی ''یونیفارم'' ہم سے زیادہ کوئی تیار نہیں کرتا۔ ہر اگلے پانچ سال کا کورس الگ اور یونیفارم الگ اور نام ''جمہوریت'' اس ملک کے ساتھ ایک مذاق یہ ہو رہا ہے کہ عوام کے دیے ہوئے ٹیکس سے ادارے، ان بچوں کے نام منسوب کیے جارہے ہیں جو سیاست کی نرسری سے بھی ابھی باہر نہیں نکلے۔

شاہ جہاں کا بیٹا جہانگیر ہے تو وہی بادشاہ ہوگا یہ ہے پاکستان کی سیاست کا اصول اور اب تو ان دھڑوں نے اتحاد کرلیا ہے تم بادشاہ ہم نہ بولیں، ہم بادشاہ تم نہ بولو۔افسوس اس بات کا ہے کہ جس نے ابھی سیاست کے میدان میں ایک ڈرامے کے کردارکے بول بولے ہیں فقط ان کے نام پر ادارہ۔ ادارے حکومت کے ہوتے ہیں اور ان کے Ultimate مالک عوام۔ عوام کا ٹیکس اس لیے نہیں ہوتا کہ بادشاہ سلامت، یا سابقہ بادشاہ سلامت اور ان کی اولاد کے نام پر عمارتیں، ادارے، سڑکیں منسوب کی جائیں۔

یہ ادارے اگر افراد سے ہی منسوب کرنے ہیں تو پھر ان قومی ہیروزکے نام کریں جنھوں نے کہیں نہ کہیں جان دے کر ملک و قوم کا نام روشن کیا، کہیں جیت کر ملک کا پرچم بلند کیا۔ یہ خوب ہے کہ درد سہیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں۔ ابھی انھوں نے قدم رنجہ نہیں فرمایا اور ملک کا ادارہ ان کے نام کیوں؟

یہ High Class عوام کے غم بانٹنے کا طریقہ ہے۔ جن کے چراغ بجھ گئے ان کے لیے چراغ جلانے سے کیا فائدہ کیا وہ لوٹ آئیں گے؟

رابرٹ موگابے کا ایک قول کمال کا ہے اور وہ استعماری قوت کی طرف ایک اشارہ ہے کہ ''میں سفید فام پر اسی وقت بھروسہ کرسکتا ہوں جب وہ مردہ ہو۔'' ہمارے لیے اس میں سبق ہے ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے، ہمارے مسائل اور ان کے پیدا کرنے والے ہمارے لیے ''سفید فام'' ہیں اور ہم ان پر اس وقت ہی بھروسہ کرسکتے ہیں جب کہ وہ اپنے اس مذموم کردار کی حد تک مردہ ہوں اور ملک میں واقعی عوام کی حکومت ہو۔ عوامی خاندان کی حکومت نہ ہو جو مودی سے مسکرا کر ہاتھ ملائے اور بنگلہ دیش میں جو مودی نے کہا اور کیا تھا وہ بھول جائے۔ یہ مفادات کی بادشاہی ختم ہونی چاہیے اور جمہور کی حکومت قائم ہونی چاہیے۔

یہ الیکشن کا سال ہے یہ ''لولی پاپ'' اب چلنے والا نہیں ''زر کے مالک'' تو کھلے عام اب کپتان کو سرنڈر کرنے کا بہترین موقعہ اور مشورہ دے چکے جو وہ نہیں مانیں گے اور پانچ سال گزر جائیں گے۔ غریبوں کو منافعے کی ادائیگی 14 سے سات فیصد پر آگئی ہے۔ ملک کے حالات کا بہانہ گزشتہ پچاس سال سے چل رہا ہے، ملک بھی چل رہا ہے، آدھا بھی چل رہا ہے، اللہ رحم کرے، ہمارے منہ میں خاک، ہم کچھ نہیں کہیں گے مگر بلوچستان، وزیرستان کے آتش فشاں کسی وقت بھی بھڑک سکتے ہیں۔ چنگاریاں تو وہ گھر بیٹھے آپ کو Supply کر رہے ہیں اور آپ صرف صبر کر رہے ہیں۔

شمعیں جلا رہے ہیں، دکھ بھرے بیانات دے رہے ہیں، ہم ساتھ ہیں، کہاں ساتھ ہیں ایک بے چارے گیلانی کا بچہ پھنس گیا ہے۔ اب قرآن کا وہ دور تو نہیں ہے کہ جس میں کتاب مقدس نے ایک پیغمبر کے دور میں گائے کے گوشت کا ٹکڑا لاش سے ''مس'' کرنے پر لاش اٹھ بیٹھی اور اس نے گواہی دی کہ مجھے فلاں شخص نے قتل کیا ہے، اب ہم یہ انتظار کر رہے ہیں کہ قرآن کے مطابق وہی دور آئے گا اور لاشیں گواہی دیں گی۔ کچھ ایسا نہیں ہونے والا، دین آج مکمل ہوگیا۔اب عمل کی باری ہے کورس آچکا ہے۔ قوانین طے شدہ ہیں، ہر انحراف کی سزا ملے گی انھیں بھی جو انحراف کرتے ہیں۔

منظورکرواتے ہیں اور انھیں بھی جو انحراف کو سند دلواتے ہیں۔ نقارے پر چوٹ پڑچکی ہے۔ سعودیہ کے حالات دیکھ لیجیے۔ اب قاتل Sponsor کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں کہ اگر حکومت کرنی ہے اور اس کے لیے ہمیں محنت کرنی ہے کہ ''ان کی'' حکومت رہے تو ''اپنی'' حکومت ہی کیوں نہ ہو ہم نے اگر اس قضیے میں اپنے ''پیر پھنسائے'' تو سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ نہ اصل رہے گا نہ منافع۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس قضیے کے فریقوں کے ہمدردوں کو یہاں تلاش کیا جائے (جو سامنے ہیں) اور سختی سے اس سلسلے کو یہاں پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی جائے۔

اس قصے کا پاکستان میں جو ''سائیں'' ہے لوگ کہتے ہیں کہ وہ کسی رنگ کی مسجد سے وابستہ ہے جو اسلام آباد میں ہے۔ دروغ بر گردنِ راوی۔ مگر ایسا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ جلوس نکل چکے ہیں وہاں سے حمایت کے، کچھ ہوا، کچھ نہیں ہوا خاموش معاہدہ لگتا ہے۔ جس کے تحت انھوں نے فی الحال معذرت کر رکھی ہے۔

وقت کا انتظار ہے شاید خدا کرے کہ وہ وقت کبھی نہ آئے اور اس سے پہلے ملک کے دشمنوں کو موت آئے۔ آمین! I am Karachi سے آگے بڑھیے، یہاں سے کام نہیں چلے گا۔ ایک ملک گیر تحریک کی ضرورت ہے I am Pakistan اور جب یہ کہا جائے تو اس زور سے کہا جائے کہ ملک دشمنوں اور ملک دشمن ملکوں کے ہم دردوں کے دل دہل جائیں۔ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم۔ اور پھر اس کے برعکس دوسرا مصرعہ، ہم صرف پاکستان کے فوجیوں کو مومن بننے کو نہ چھوڑ دیں۔ خود بھی سب مومن بنیں۔ اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو پاک کریں۔

بھیڑوں میں چھپے بھیڑیوں کی نشاندہی کریں۔ خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں نہ غلط حکومت کے اقدامات سے نہ پاکستان کے دشمنوں سے۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ پانی گیا، بجلی گئی، گیس گئی، اب صرف تم بچے ہو اور اگر اب بھی بیدار نہ ہوئے میرے پاکستانیو! تو پھر ایک کسی پریس کلب کے باہر تمہاری اور میری یاد میں بھی لوگ موم بتیاں روشن کر رہے ہوں گے:

''قومِ فروختند چہ ارزاں فروختند''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں