ہم ہوئے مسافر

عوام عید کی طویل چھٹیاں گزار کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوچکے ہوں گے


فاطمہ نقوی July 28, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: عوام عید کی طویل چھٹیاں گزار کر اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوچکے ہوں گے، سنا تھا کہ جب گیدڑکی شامت آتی ہے تو وہ شہرکا رخ کرتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ہم نے بغیرکچھ سوچے سمجھے حیدرآباد کا رخ کرلیا۔

عید کا چوتھا دن جب سب لوگ اپنے گھروں کو واپسی کی تیاری میں مشغول اور ہم تھے کہ الٹا بانس بریلی دوسرے شہر چل دیے، جلدی میں پروگرام بنا مگر ہم اور ہماری بہن کے ساتھ گھر کے باقی بچے بھی چلنے کو تیار ہوگئے اب جن بچوں نے ریل کا سفر نہیں کیا تھا ان کی خواہش تھی کہ ریل میں ہی سفر کیا جائے۔ بہت سمجھایا کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں مگر انھوں نے پہلے کب ہماری کوئی بات سنی تھی جو اب سن لیتے۔

خیر بھاگم بھاگ اسٹیشن کا رخ کیا جلدی اتنی تھی کہ جس طرح آخرت کے سامان کی کچھ تیاری نہیں اسی طرح اس سفر کا توشہ بھی خالی تھا، خیر لشتم پشتم اسٹیشن پہنچے پاکستان کوچ تیار کھڑی تھی کہ چلے تو چلے۔ لگتا تھا صرف ہمارا ہی انتظار ہورہا تھا قلی کی گٹھ جوڑ سے حیدرآباد والے رونق افروز ہوئے اور بچوں کی طرف دیکھا، بچے محو حیرت تھے کہ یہ بالکل ٹھیک ٹائم پر کیسے چل پڑی مگر ہم نے بتایاکہ یہ سارا کارنامہ ہمارے آنے کی بدولت ہے یہ سن کر کچھ ہنس دیے، کچھ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کیے مگر ہماری بات پر یقین کسی نے نہ کیا، خیر ہم نے بھی زیادہ اصرار سے پرہیز ہی کیا کیونکہ منظور تھا، پردہ اپنا۔ اب جناب ٹرین چلی تو لگ رہا تھا کہ دوڑ رہی ہے ہم خوش، ہمارا خدا خوش، چلو سفر خراماں خراماں نہیں برق رفتاری سے طے ہوگا۔

بعض اوقات تو ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ اس کا پیچھا کوئی کر رہا ہے ورنہ یہ تیزی تو ممکن نہ تھی ابھی ہم نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا، اتنے میں لانڈھی اسٹیشن پر ایک فیملی سوار ہوئی، کچھ خواتین تھیں کچھ حضرات مگر جگہ بالکل نہیں تھی، سب نے ہماری طرف دیکھنا شروع کیا، حضرات کی نظروں کو تو ہم نے نظر انداز کیا مگر اپنی صنف کو نہ کرسکے اور ان کو آفر کی کہ ہمارے ساتھ تشریف فرما ہوجائیں مگر یہ کیا سب کے سب ہنسنے لگے۔ پتہ چلا کہ جن کو ہم نے خاتون سمجھ کر دعوت دی وہ بھائی صاحب نکلے اور جن کو صنف کرخت سمجھ کر نظر انداز کیا تھا وہ بہن صاحبہ نکلیں۔

خیر قصور ہمارا بھی اتنا نہیں تھا مگر جناب! بچوں نے تو ہمارا وہ حال کیا کہ وہ اﷲ جانے یا ہم جانیں مگر آس پاس والے بھی سب جان گئے، ہم اپنی جھینپ مٹانے کوکھڑکی سے باہر دیکھنے لگے مگر بے آب و گیاہ ویرانے نے اندر ہی دلچسپی لینے پر مجبور کردیا۔ اتنے میں ایک پولیس والے بھائی تشریف لے آئے اور لگے مک مکا کرنے، کیوں کہ ان لوگوں کی ملی بھگت کی وجہ سے اسٹیشن پر ٹکٹ فراہم نہیں کیے جاتے اور مسافروں سے یہ لوگ پیسے لیتے ہیں، خیر فی کس 150 دے کر اپنی جان بخشوائی وہ بھی خوش ہم بھی خوش اس کے بعد کسی ٹی ٹی یا ان کے پیٹی بند بھائی نے ہماری طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھا مگر ہمیں لگا کہ ایسا کرنا سب غلط ہے اسی طرح ریلوے جو پہلے ہی اپنوں کے ہاتھوں رسوا ہورہی ہے، جب تک حکمرانوں کی آنکھیں بند رہیں گی مک مکا چلتا رہے گا بھاڑ میں جائے جنتا، فائدہ اپنا ہونا چاہیے۔

اسی اثنا میں بچوں نے بھی اپنی تیزی دکھائی اور خیر سے کوئی چیز والا خالی نہ گیا چیزیں کھانے میں سارے ریکارڈ توڑ دیے اور قومی خزانے کی طرح ہمارے بیگ کو خالی کرکے بھی چین نہ آیا خیر کوٹری قریب آنے لگا، چلتے چلتے ٹرین رک گئی، اب جس سے پوچھو ہوا کیا، آخر وہ ہی لاعلم، سوچا کہ خود ہی جاکر ڈرائیور سے پوچھے مگر ہماری یہ کوشش کو سب نے ناکام بنادیا، آخر ہم بھیسیاستدانوں کی طرح اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوگئے، اﷲ اﷲ کرکے ایک گھنٹہ تاخیر کے بعد ٹرین آمادہ سفر ہوئی اور ہم نے سکون کا سانس لیا پندرہ منٹ کے بعد ہم حیدرآباد میں موجود تھے۔

حیدرآباد کا اپنا ایک حسن ہے گرم ہواؤں نے ہمارا استقبال زور شور سے کیا۔ اسٹیشن سے نکل کر قدم مولا علی کا رخ کیا کہ وہاں جاکر پہلے حاضری دی جائے۔ ہمارا قافلہ محو سفر تھا اور لوگ دیکھ دیکھ کر حیران تھے، اکثر مقامات پر تو ہم نے دانستہ ایسا ظاہر کیا کہ ہم ان سے الگ ہیں۔ کراچی آنے والے بھی اتنی حیرت کا مظاہرہ نہ کرتے ہوں گے جتنا ہمارے ساتھ والے چیزوں کو دیکھ دیکھ کر ہمارا خون جلارہے تھے۔ قدم مولا علی پر حاضری دی، تبرکات دیکھے اور اسلامی جذبے سے سرشار ہوئے، وہاں سے نانی کے گھر کا رخ کیا اب جو رکشہ ہم روکیں وہ ہماری تعداد دیکھ کر جوکہ زیادہ نہ تھی (صرف 9 لوگ تھے) ہمیں بٹھانے سے انکار کردے، کئی تو فراٹے سے جھوٹ بول دیتے کہ فضل گراؤنڈ (ہماری نانی کے گھر کا علاقے ) کو ہم نہیں جانتے کہ کہاں ہے، کئی نے تو باقاعدہ قسم کھاکر جان چھڑائی، آخر ایک ستم رسیدہ ہمارے جال میں آہی گئے اور ہم جانب منزل روانہ ہوئے، راستے میں قلعہ آیا ہم نے معلومات کا دریا بہانا شروع ہی کیا تھا کہ ہمارے بھانجے بولے خالہ یہ کچا قلعہ کیوں ہے اسے پکایا کیوں نہیں اب تک۔ یہ گرا کیوں نہیں اگر یہ گرے گا تو لوگوں کو چوٹ تو نہیں آئے گی۔ ایسے بے ہودہ سوالات کا کیا جواب دیتے اور خاموش ہوگئے، نانی کا گھر آہی گیا، تو ہماری جان چھوٹی وہاں پہنچ کر جو کچھ ہوا وہ الگ داستان ہے۔ اب ہم نے رولا ڈالا کہ جلدی واپسی ہو تاکہ آسانی سے گھر پہنچ سکیں۔ اس لیے جلد نانی کو الوداع کہہ کر بدین اسٹاپ پہنچے تو لگ رہا تھا کہ حشرکا میدان ایسا ہی ہوگا گاڑیاں ناپید اور ہزاروں افراد ادھر ادھر مارے مارے پھررہے ہیں مگر جگہ مل رہی دگنا تگنا کرایہ دے کر بھی جگہ نہیں۔

ایک گھنٹہ خوار ہوکر فیصلہ کیا کہ ٹرین سے ہی چلتے ہیں۔ اسٹیشن پہنچے پتہ چلا ہزارہ ایکسپریس 5گھنٹے لیٹ ہے۔ 9:30 بجے آئے گی یہاں بھی کم و بیش بس اسٹاپ والا حال۔ اژدھام تھا ٹکٹ گھر کا رخ کیا تو پتہ چلا کہ وہ ہی حال ہے جو کراچی میں تھا کہ پولیس والے سے مک مکا کرنا پڑے گا ایک پولیس اہلکار نے ہمارا حال دیکھ کر خود ہی ماجرا دریافت کیا اور داد رسی فرمائی کہ وہ ہمیں جگہ دلوادیں گے مگر ٹکٹ نہیں دیں گے۔ انھوں نے کمال مہربانی سے 200 روپے فی کس لے کر اطمینان دلایا کہ وہ ہمیں جگہ دلوا دیں گے، زندگی میں کسی نے اپنے محبوب کے آنے کی اتنی دعائیں نہ کی ہوں گی جتنی ہم نے ہزارہ ایکسپریس آنے کی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ ہمارے پاس ٹکٹ تو تھے نہیں صرف پیسے دے کر اندھا اعتماد کیا تھا ۔

اسی لیے بچوں کی ڈیوٹی لگائی کہ پولیس والے انکل کو نظر میں رکھیں تاکہ وہ گم نہ ہوجائیں اب بچے شرلاک ہومز کو مات دینے پر تل گئے، کوئی آکر خبر دیتا کہ انکل چائے پی رہے کوئی کہتا انکل فلاں سے پیسے لے رہے ہیں تو کوئی کہتا انکل بھاگ گئے یہ سن کر تو ہماری جان ہی نکل گئی کہ اب کیا ہوگا۔ آخر کار 11بجے ٹرین کی آمد کا مژدہ سنا ہم نے سامان اکھٹا کیا بچے گئے سب کو پورا پایا تو خوشی ہوئی اب گاڑی آگئی۔

ٹرین میں سوار ہو ہی گئے مگر یہ کیا کہ تمام سیٹ فل، لوگ کھڑے ہیں ہم بھی کھڑے ہوگئے، منتظر نگاہوں سے لوگوں کی طرف دیکھا کہ کاش کوئی نظر کرم ہم پر بھی مگر سب ہماری طرف سے رخ موڑ کر ایسے بیٹھ گئے جیسے حکمرانوں نے عوام سے ، اتنی دیر میں ٹی ٹی تشریف لے آئے اور ٹکٹ کا مطالبہ کردیا ہم نے لاکھ کہا کہ ہم نے اسٹیشن پر ٹکٹ مانگے تھے مگر انھوں نے پولیس والوں تک ہماری رہنمائی کی تھی مگر وہ کچھ سننے کے لیے تیار نہیں تھے، کہنے لگے یہ پرائیویٹ ٹرین ہے نکالیں آپ پر جرمانہ بھی ہوگا ہمارے پاس بچا ہی کیا تھا وہ پولیس والے انکل سب لے گئے ہیں۔

اب ٹکٹ تو ٹکٹ جرمانہ بھی دیا ہم نے لاکھ سمجھایا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا اگر مسافر زیادہ ہیں تو آپ نے ٹرین میں لکھ کر کیوں نہ لگایا کہ ٹرین فل ہے گیٹ بند کیوں نہ کیے کھڑے ہوکر سفر بھی کیا ٹکٹ اور جرمانہ بھی دیا آخر ایک صاحب کو ہماری بھولی سی صورت پر کچھ ترس آیا اور انھوں نے اپنی جگہ ہمیں پیش کی جو ہم نے بغیر کسی پس وپیش کے قبول فرمائی تو کچھ سکون ملا ، خدا خدا کرکے رات 4بجے کراچی میں داخل ہوکر سکون کا سانس لیا کہ خیر سے بدھوگھر لوٹ آئے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں