بھٹو جیسا محبِ وطن نہیں دیکھا
کلدیپ نیئر بھارت کے ایک ذہین اور کہنہ مشق بزرگ صحافی ہیں
کلدیپ نیئر بھارت کے ایک ذہین اور کہنہ مشق بزرگ صحافی ہیں، وہ اپنے ایک مضمون میں 1965ء کی جنگ کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کیے گئے ایک انٹرویو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میرے ایک سوال کے جواب میں بھٹو نے کہا ''وہ وقت تھا جب پاک فوج بڑی پیش قدمی کر سکتی تھی، ہم بھارت سے برتر تھے۔
ہمیں امریکی فوجی مدد بھی حاصل تھی جو بس 1965ء تک ہی جاری رہی، اس وقت تک چونکہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا تھا جب کہ اس کا حل ہونا بہت ضروری تھا مگر پرامن طریقے سے اس کا حل نظر نہیں آ رہا تھا لہٰذا ہماری حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ ہم اس مسئلے کو حل کریں، یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ وعدے کے مطابق بھارت کشمیریوں کو حق خوداختیاری دینے کے لیے تیار نہیں تھا''۔ اپنے اسی مضمون میں کلدیپ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آج بھی دونوں ملکوں میں دشمنی کو بھارت میں ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب کیا جاتا ہے جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔
کلدیپ نیئر کے اس مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے بھارتی حکمران کل بھی نفرت کرتے تھے اور آج بھی نفرت کرتے ہیں مگر صرف اس لیے کہ وہ ایک محب وطن پاکستانی تھے اور اپنے وطن کی خاطر سب کچھ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھٹو جیسے محب وطن کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔
ان کی پوری زندگی اور سیاست وطن کے لیے وقف تھی اور بالآخر انھوں نے وطن کی خاطر ہی اپنی جان سولی پر لٹک کر قربان کر دی تھی، بھٹو کی ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی بھی کسی ذاتی دشمنی یا مزید جاہ و منصب کے لیے نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف کشمیریوں کی آزادی تھی، ایوب خان نے آپ کی صلاحیتوں کی تعریف سن کر ہی آپ کو لندن سے کراچی بلا کر اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا، آپ کی ایوب خان کی حکومت میں شمولیت سے ملک کی قسمت ہی جاگ اٹھی۔ اس دور میں جتنے ترقیاتی اور عوامی فلاح و بہبود کے کام ہوئے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔
بھٹو نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ملک کے شایان شان استوار کی، فوجی قوت کو بڑھانے اور دفاعی لحاظ سے ملک کو خود کفیل بنانے کے لیے ہر قسم کا اسلحہ تیار کرنے کے لیے کئی پروجیکٹس پر کام شروع کیا، پھر اسی دور میں سب سے اہم معرکہ یہ ہوا کہ ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا اور ایک ماڈل ایٹمی بجلی گھر تعمیر کر لیا گیا، بھٹو نے کشمیر کے مسئلے کو زندہ کیا جو اس سے قبل کی حکومتیں پس پشت ڈال چکی تھیں، آپ نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ڈاک کے ٹکٹ جاری کرائے جن میں کشمیر کو ایک متنازعہ خطہ دکھایا گیا جو حقیقتاً ہے بھی متنازعہ، کیونکہ خود سلامتی کونسل نے اسے متنازعہ قرار دے کر بھارت کو کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کا پابند بنایا ہے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مسئلہ الجھ کر رہ گیا ہے۔
بھٹو کے مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے بھارتی حکومت انتہائی خوف زدہ ہو گئی تھی کہ وہ کشمیر پر اپنے قبضے کو زیادہ دیر قائم نہیں رکھ سکے گی۔ بھٹو بھارتی حکومت کو مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کی جانب مائل کرنے لگے۔
مگر بھارتی حکمرانوں کے آگے امن کی باتیں کرنا ''بھینس کے آگے بین بجانے'' والی بات ثابت ہوئی۔ انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں جنگ آزادی کی ہلچل اور پاک فوج کی پیش قدمی دیکھ کر بوکھلاہٹ میں لاہور پر حملہ کر دیا، یہ 6 ستمبر 1965ء کا دن تھا، یہ جنگ پورے گھن گرج کے ساتھ 17 دن تک جاری رہی، جو بالآخر روسی صدر کوسیجن کی مصالحت پر ختم ہو گئی۔
تاشقند میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان کشمیر کے مستقبل پر مذاکرات ہوئے جن کا نتیجہ کشمیریوں کے حق میں نہ نکل سکا، بھٹو معاہدہ تاشقند میں کشمیریوں کی آزادی کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے سخت پریشان ہوئے مگر ایوب خان مطمئن تھے، بھٹو ایوب خان کی اس روش سے سخت نالاں ہوئے اور انھوں نے ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی، پھر پنجاب میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر پیپلزپارٹی کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی مقصد کشمیریوں کو بھارتی غلامی سے نجات دلانا قرار دیا گیا۔ معاہدہ تاشقند میں مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے عام پاکستانی بھی ایوب خان سے سخت ناراض تھے، چنانچہ بس وہیں سے ایوب خان کی حکومت کا زوال اور بھٹو کی پیپلزپارٹی کا عروج شروع ہو گیا۔
اپریل 1969ء میں ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا مگر انھوں نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ یحییٰ خان کو عوام کے پرزور مطالبے پر ملک میں پہلے عام انتخابات منعقد کرانے پڑے، ان میں پیپلزپارٹی نے تاریخی فتح حاصل کر کے مغربی پاکستان کی ساری نشستیں جیت لیں، ادھر مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھری، دو الگ الگ جیتی ہوئی پارٹیوں میں بٹ کر ملک خودبخود دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
مجیب الرحمن پہلے ہی بھارت سے ساز باز کر چکا تھا پھر مشرقی پاکستان کے عوام مجیب کے سحر میں گرفتار ہو کر مغربی پاکستان کے دشمن بن چکے تھے، بھٹو نے اقوام متحدہ میں ملکی سالمیت کا بڑے مدبرانہ طریقے سے دفاع کیا مگر چونکہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنا عالمی طاقتوں کا ایجنڈا بن چکا تھا چنانچہ اس عالمی سازش کے آگے بند باندھنا ناممکن تھا۔ حسینہ واجد حال ہی میں یہ راز کھول چکی ہے کہ مجیب کو مغربی پاکستان سے کوئی دلچسپی نہ تھی، وہ اگرتلا معاہدے کے تحت ہر قیمت پر بنگلہ دیش کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا تھا۔
مگر مغربی پاکستانی سیاسی رہنما مجیب کو بے قصور خیال کرتے رہے اور اس کی دلجوئی کرتے رہے۔ دراصل ہمارے ہاں یہ روایت جڑ پکڑ چکی ہے کہ ہمارے سیاست دان غداروں کی دلجوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے، البتہ جب ملک کا نقصان ہو جائے تو پھر اپنی مفاہمت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ بھٹو پر یہ الزام کہ انھوں نے مجیب کو اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ ڈال کر ملک کو دولخت کرا دیا، سراسر بہتان ہے۔ اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی عالمی حالات دیکھ رہی تھی اور وہ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ مجیب کو اقتدار سونپنے کا مطلب مغربی پاکستان سے بھی ہاتھ دھونے کے مترادف ہو سکتا ہے۔
ملک کے ٹوٹنے کے بعد اقتدار بھٹو کے حوالے کر دیا گیا، چونکہ انتخابات میں پہلے ہی پیپلز پارٹی فتح حاصل کر چکی تھی چنانچہ ملک میں پیپلزپارٹی کا دور شروع ہو گیا، بھٹو نے اپنے دور میں بے مثال کارنامے انجام دیے، لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرا کے تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔
1974ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے کے جواب میں آپ نے قوم سے مخاطب ہو کر کہا تھا ''ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنا کر رہیں گے'' بھٹو صرف زبانی جمع خرچ والے انسان نہیں تھے انھوں نے اپنے بیان کے مطابق ملک میں ایٹم بم کی تیاری کے لیے تیز رفتار کام شروع کروایا جس کی خبر امریکا تک پہنچ گئی، اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا ''ایٹم بم کی تیاری کے کام کو روک دو ورنہ تمہیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا''۔
آپ کے دور میں چین سے پاکستان کی مثالی دوستی قائم ہوئی، روس جو بھارت کے ورغلانے کی وجہ سے پاکستان کا کٹر دشمن بنا ہوا تھا بھٹو کی کامیاب ڈپلومیسی کے نتیجے میں پاکستان کے قریب آ گیا، بھٹو نے نہ صرف روس سے ملکی صنعتی ترقی کے لیے صنعت کاروں کو قرضے دلوائے بلکہ روس کی مدد سے اسٹیل مل جیسا اہم قومی پروجیکٹ مکمل کرا لیا۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ملک کو متفقہ آئین عطا کرنا ہے، آپ نے ہی بھارت کو سلامتی کونسل میں کشمیریوں سے کیے گئے وعدے کو یاد دلانے کے لیے ہر سال 5 فروری کو یوم کشمیر منانے کی رسم ڈالی۔
بھٹو پر تنقید کرنے والوں کی ملک کے اندر بھی کمی نہیں ہے مگر آج تک کوئی شخص یا ادارہ بھٹو کو کسی بھی قسم کی بدعنوانی میں ملوث قرار نہیں دے سکا، آپ کی پاک دامنی اور حب الوطنی ہمارے تمام سیاست دانوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کا تقاضا کرتی ہے۔ آج بھٹو کے دیے ہوئے ایٹم بم کے تحفے سے ملک ناقابل تسخیر بن چکا ہے مگر اسی کی پاداش میں سامراجیوں نے مل کر انھیں تختہ دار تک پہنچادیا تھا۔