بلوچی و پشتو ادب
دونوں زبانوں میں خودداری، انانیت، قوم پرستی اور عسکریت کے گہرے نقوش ہیں
ROME:
بظاہر کچھ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جیسے پشتو و بلوچ زبانوں میں رزمیہ ادب یا علاقائی پیار و محبت کے قصے ہی موجود ہیں، لیکن دونوں زبان میں دیگر مشرقی اسلامی زبانوں کی طرح دیوان کی روایت، غزلیات، رباعیات، قصائد جیسی جملہ مشہور اصناف بھی موجود ہیں، کچھ غزلوں اور قصائد میں فارسی کا اثر بھی صاف نظر آتا ہے۔
دونوں زبانوں میں خودداری، انانیت، قوم پرستی اور عسکریت کے گہرے نقوش ہیں۔ یوں تو برصغیر میں بولی جانے والی تمام زبانیں اپنی ایک ثقافت رکھتی ہیں لیکن اپنی قومی و علاقائی زبان کو اپنائے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، عصر حاضر میں ایسی بے شمار مثالیں متعدد ممالک کی موجود ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اردو کا نفاذ نہیں کیا گیا، اب جا کر تین ماہ کا نوٹس اعلیٰ عدلیہ سے ملا ہے اور بلوچستان و خیبر پختونخوا کے کردار کو سراہا ہے۔
دوسری صدی عیسوی کی پشتو شاعری کا سراغ ایک قلمی نسخہ ٹپہ خزانہ سے ملتا ہے لیکن پشتو زبان کا قدیم ادب، پشتو لوک گیت ہیں۔ پشتو کی پہلی دریافت شدہ نظم ''امیر کروڑ'' کی تخلیق ہے، جو 756ء میں لکھی گئی، اس اعتبار سے امیر کروڑ کو پشتو شاعری کا ''باوا آدم'' سمجھا جاتا ہے۔ شیخ بیٹن کو پختونوں کا جد امجد کہا جاتا ہے، جب کہ بلوچی شعر و ادب کے آثار 644-1025 میں مل جاتے ہیں لیکن اس کے بعد آثار باقی نہیں رہے، البتہ نویں صدی کے کچھ بلوچ شاعروں کے نام ملتے ہیں۔
مثلاً بشام کرد، رابعہ و فرحی وغیرہ، جب کہ پشتو میں ملک یار غرشین، حماسی شاعری کا شاعر ہے جب کہ شیخ منی کی کتاب خدائے مینہ عارفانہ کلام پر محیط ہے، ملا مست آفندی کی تصنیف سلوک المفدات پشتو قدیم ادب کی مشہور کتاب ہے۔ مرزا خاں انصاری نے سب سے پہلے پشتو نظم کو تصوف کی روشنی سے روشناس کرایا، دوسرے شعرا میں ارزانی، مخلص اور علی محمد ہیں۔ گو پشتو کا نثری سرمایہ شعری سرمایہ کے مقابلے میں کم ہونے کے باوجود قابل قدر ہے جس نے اپنے دور کے تہذیبی اقدار، معاشرتی مزاج اور مذہبی تصورات و معتقدات کو فکر و فن کا موضوع بنایا۔
ابتدائی عہد کے نثر نگاروں میں سلیمان اکو کی کتاب تذکرۃ الاولیا، محمد بن النسبتی کی تاریخ سوری، شیخ کتہ کی ارگونے پختانہ، شیخ ملی کی شیخ ملی دختر، خان جہاں لودھی کی مراۃ الافاغنہ اور مجو خاں رانی زئی کی پشتو قوم کی تاریخ، ابتدائی نثر کا بہترین نمونہ ہیں۔ پیر روخان اس عہد کی سب سے بڑی شخصیت ہے، وہ علمی، ادبی نثر لکھنے والوں کا پیش رو سمجھا جاتا ہے، اس نے پشتو نثر کو ترقی یافتہ بنایا اور ایک نئے طرز فکر کی بنیاد رکھی۔
جب کہ بلوچوں میں مہنا سورہیانی معنوی لحاظ سے صوفیانہ خیالات کا شاعر ہے۔ مرزا خاں انصاری پشتو مکتبہ خیال کا اہم مصنف دیگر نثر نگاروں میں اخوند دور ریزہ، شیخ بستان، اللہ بالکونری اور کریم دار و دیگر شامل ہیں۔ جب کہ بلوچ ادب میں 1488-1550ء اس لیے اہم قرار پاتا ہے کہ اس دور میں کئی رومانی داستانیں مثلاً، حانی اور شہ مرید، دوستیں اور شرین، بیرگ و گراناز اور شہدا دوماہ وجود میں آئیں۔
پشتو ادب کے درمیانی دور 1638-1772ء میں خوشحال خان خٹک کا بڑا اثر ہے جنھیں ''بابائے پشتو'' کہا جاتا ہے۔ خوشحال خان بابا نے پشتو غزل کا مقام بہت بلند کیا، ان کی تصانیف و تالیف کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے، جب کہ ان کا بیٹا عبدالقادر خان خٹک ساٹھ کتابوں کے مصنف و مولف تھے، گلستان سعدی اور یوسف زلیخا کا پشتو ترجمہ بھی انھوں نے کیا جب کہ معروف عاشقانہ داستان آدم خان درخانی کو نظم کا جامہ پہنایا جب کہ خوشحال کے دو اور بیٹوں صدر خان خٹک اور سکند خان خٹک نے بالترتب نظامی جنگوی کی خسرو و شیریں اور محمد بن احمد العطار تبریزی کی کتاب کا ترجمہ مہر و مشتری کے نام سے کیا۔ جب کہ رحمان بابا اپنے دور کا مورخ اور ترجمان تھا اور شعر و فکر کے لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔
پندرہویں صدی سے پہلے کوئی شعر بلوچی میں نہیں ملتا۔ اس عہد کے دیگر پشتو شعرا میں امحزاللہ خان مہمند، کاظم خان شیدا اور علی خان ہیں۔ جب کہ متاخرین کا دور ایک جنگ و جدال کا دور تھا جس کی وجہ سے اس کا اثر شعر و ادب پر بھی پڑا، اور رومانوی شاعری ماند پڑگئی، اس کی جگہ عوامی گیتوں میں آزادی، وطن اور شجاعت کے کارناموں کا اظہار ہو گیا۔
بلوچی، پشتو شاعری میں ایسی نظموں کی تعداد بھی کافی ہے جو بلوچوں کی قبائلی جھڑپوں کی داستانیں ہیں لیکن غزل اپنی ترقی کے مدارج برابر طے کرتی رہی۔ پشتو غزل گو شاعر میں تیمور شاہ جو احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تھا، اردو اور فارسی کے نو دیوان بھی انھوں نے ورثے میں چھوڑے۔ پیر محمد کاکڑ، محمد رفیق، حافظ رحمت اللہ، نواب محبت خان، سعادت یار خان، دوست محمدی صاحبزادہ، قاسم علی آفندی، نواب رحمت خان، بیدل، میاں نعیم، حافظ الپوری، احمد کلاچوری، عب العلی اخوانزہ، نور دین، ملا مقصود اور حافظ عبدالعیم قابل ذکر شاعر و ادیب تھے۔
مولوی احمد نے پشتو نثر کا قافیہ اور سجع وغیرہ سے آزاد کر کے سادہ آسان زبان میں لکھنے کی داغ بیل ڈالی، جب کہ منشی احمد خان نے ہنسہ دغہ اور د قصہ خوانئی کپ لکھ کر پشتو نثر کو جدید سے جدید تر بنا دیا، میاں نعمان الدین نے پشتو زبان کی ترویج و ترقی میں بڑا حصہ لیا، ان کی اہلیہ زینت جہاں اور بھانجے محمد یوسف بھی اچھے ادیب تھے۔ دوسرے نمایاں نثر نگاروں میں غفران الدین، امیر احمد انصاری اور احمد شای رضوانی ہیں۔
جدید دور 1900ء کے بعد سے پشتو و بلوچ ادب اپنے ارتقا کے کئی منازل طے کر چکا تھا، اب نئی سیاسی تحریکوں کے ساتھ علمی و ادبی میدان میں بھی پیش رفت ہوئی، انگریزی زبان اور مغربی ثقافت کے اثرات نے دونوں زبان کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ دور جدید کے شعرا میں غلام محمد پوپائی اور سید راحت خیلی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار مانے جاتے ہیں۔ راحت پہلے شخص ہیں جنھوں نے پشتو تراجم کے ذریعہ اقبال کے افکار کو پشتو بولنے والوں کو متعارف کرایا۔
جب کہ جدید تعلیم یافتہ طبقے نے اعلیٰ پایہ کے اہل قلم اور محقق پیدا کیے۔ پشتو ادب میں صحافت کی ابتدا 1905 کے لگ بھگ ہوئی سب سے پہلے ہفتہ وار ''افغان'' کے نام سے سید مہدی علی شاہ نے پشاور سے جاری کیا جو پشتو اور اردو دونوں زبانوں سے شایع ہوتا تھا، سید راحت زخلی موجودہ دور کے ممتاز صحافی مانے جاتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بلوچوں میں ایک جوش اور ایک نیا جذبہ پیدا ہوا اور قیام پاکستان کے بعد بلوچی زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اس کا اثر یہ ہوا کہ بلوچی ادب تحریر کی شکل میں ظاہر ہونے لگا۔ مقصدیت کو مدنظر رکھا جانے لگا۔ ملا فاضل قدیم بلوچی رزمیہ، رومانی و کلاسیکی شعرا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، گل نصیر خان نے بیک وقت اردو اور بلوچی زبان میں شاعری کی، یہ بلا کا انقلابی شاعر تھا جس نے ہیئت میں کامیاب تجربے کیے، اس کے کلام کے تین مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ مراد ساحر، میر عیسی، نوحی، اسحاق شمیم کے کلام میں وطن سے محبت کا جذبہ ملتا ہے جب کہ بلوچ نثر ادب کی ابتدا قیام پاکستان سے پہلے ہوچکی تھی، جس کے بعد بلوچ نثر، تنقید اور شاعری نے کافی ترقی کی۔
سردار خان محمد گشکوری، شاہ محمد مری، جسٹس (ر) خدا بخش مری، آزاد جمالد دینی، عبداللہ جمالدینی، میر گل خان نصیر، عطا شاد، عبد الصمد امیری، عبد الواحد، جی آر ملا، مبارک قاضی، صبا دشتیاری، غنی پرواز، بشیر بیدار، جان محمد دشتی، ڈاکٹر بدل خان، محمد حسین عنقا، قاضی عبدالرحیم صابر، محمد بیگ بیگل، خیر محمد ندوی اور خاص طور پر سید ظہور شاہ ( سید ہاشمی) نے بلوچ نثر کی بنیاد ڈالی۔ سید ہاشمی ممتاز شاعر اور عظیم ماہر لسانیات تھے، جب کہ بلوچی لغت ''سید گنج'' ان کا سب سے بڑا کریڈٹ ہے۔ موجودہ دور میں نثر نگاروں کی تعداد کافی ہے، جن کی بدولت بلوچی زبان و ادب ترقی کی زبان پر گامزن ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ نئی نسل اسلاف کی راہ پر چلتے ہوئے ادب کو آگے بڑھا رہی ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک مانتے ہیں کہ جو قومیں ادب کو ترقی نہیں دیتیں وہ قومیں اور ان کی زبان فنا ہو جاتی ہیں۔ ادب کے بغیر کوئی قوم اور معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمیں میر عاقل خان مینگل، گل خان نصیر جیسے لوگوں کی بدولت بلوچ زبان کے ادب اور صحافت کو ملنے والے اہم مقام کی قدر کرنی چاہیے اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ قومیں اپنی روایات و ثقافت کی بنا پر ہی زندہ رہتی ہیں۔ مختصر کالم میں تمام تاریخ لکھنا ناممکن ہے، تھوڑے کو بہت جانیں۔