سبزہ اور سمندر آخری حصہ

سمندر کی لہریں ساحل سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتیں۔ ہر سمت زندگی رقصاں ہے۔


Shabnam Gul July 30, 2015
[email protected]

سمندر کی لہریں ساحل سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتیں۔ ہر سمت زندگی رقصاں ہے۔ جب بہت سارے لوگ جمع ہوں، ہر طرف سکون و مسرتوں کے پھول مہکتے ہوں تو لمحے بادلوں کی مانند ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں۔ سوچ بند دروازوں سے نکل کر لامحدود فضاؤں کی طرف پرواز کرنے لگتی ہے۔ اس وقت کولمبو کے ساحل سمندر پر رواں دواں زندگی کے رنگ دیکھ کر لمحے بھر کے لیے بھی گماں نہیں ہوتا کہ یہ ملک خانہ جنگی کے عذاب سے گزرتا رہا ہے۔

لوگوں کے چہروں پر حال کے لمحوں میں موجودگی کا ٹھہراؤ اور نیند کا خمار جھلکتا ہے۔ دہشتگردی کے عفریت کو ختم کرنے میں سری لنکا کی حکومت نے سر توڑ کوششیں کیں۔ سری لنکا کے سابقہ صدر مہندا راجا پکسا نے 2009ء میں ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا ''ہم جیت گئے ہیں، ملک میں جمہوریت کا مستقبل محفوظ ہے۔''

''سری لنکا میں کرپشن کے ساتھ اس وقت بہت سے مسائل موجود ہیں مگر حکومت ہمیشہ ریاست کی فلاح کے لیے کام کرتی ہے۔'' ویراج نے کہا۔''یہی وجہ ہے کہ آج آپ کا ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔''

''یہاں تعلیم مفت ہے اور عام آدمی کو صحت کی بنیادی سہولت میسر ہے۔'' ویراج نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔''جی بالکل مفت تعلیم اور صحت کی سہولت بہت سے مسائل سے نجات دلا دیتی ہے۔'' میں نے کہا۔ ویراج ایک بہت پڑھا لکھا شخص تھا، اسے سیاست کے موضوع پر عبور حاصل تھا حتیٰ کہ وہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے واقف تھا۔ اس کی گفتگو اور مزاج میں بلا کا تحمل تھا۔ اس کی سوچ غیرجانبدار تھی۔ سری لنکا کے لوگ احتیاط سے گفتگو کرتے ہیں۔

فقط کام کی بات کرتے ہیں وہ بھی دھیمے لہجے میں۔ اور نہ ہی انھیں ہماری طرح بولنے اور گپیں مارنے کا شوق ہے کیونکہ اس خبط میں وقت کا بڑا زیاں ہوتا ہے۔ شام کے حسین رنگ ساحل سمندر پر اتر آئے تھے۔ بے تحاشا خوبصورتی اداسی کی آمیزش لیے ہوئے تھی۔ سورج ڈوبنے کا منظر اچھوتا اور خواب آگیں تھا۔ماحولیاتی آلودگی سے پاک فضا کے رنگ نرالے تھے۔

سمندر بھی شفاف تھا لہٰذا آسمان کے ہر پل بدلتے رنگوں نے لہروں میں جذب ہو کے انوکھا سماں باندھ دیا تھا۔ ایک جگہ پورا خاندان جمع تھا۔ وہ لوگ گا بجا رہے تھے۔ یہاں خاندانی نظام مربوط دکھائی دیتا ہے۔اسی دوران ویراج سے مختلف موضوعات پر باتیں بھی ہوتی رہیں۔ سیاست، بدھ ازم، عورت کے مسائل، سماجی نفسیات سے لے کر سری لنکا کی اکانومی اور ٹؤرازم کے حوالے سے میری معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔

ویراج کے جانے کے بعد میں سوچنے لگی کہ یہ شخص دیکھنے میں کس قدر سادہ تھا۔ اسے اپنی علمیت اور معلومات پر ذرہ برابر بھی غرور نہیں تھا اور نہ ہی بحث میں سبقت لے جانے کی دھن۔ یہ مزاج کے خلاف بات سننے کی اہلیت رکھتا تھا۔ یہ اپنے ملک کا بہترین شہری اور نمایندہ تھا۔ کولمبو شہر سولہویں صدی میں پورچوگیز (پرتگالیوں) کے آنے کے بعد مصروف ترین تجارتی بندرگاہ بنا۔ یہ شہر ڈچ اور برطانوی اثر کے تحت پھلتا پھولتا رہا۔ مدغم ثقافت کا رنگ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مساجد ہوں یا ڈچ اور انجلیکن گرجا گھر قدیم حسن لیے ہوئے ہیں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ عمارت سازی میں ڈچ تعمیراتی اثر آج بھی موجود ہے۔ کولمبو کے وسط میں بیرا لیک خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔ ڈچ ہاسٹل کی قدیم عمارت ماضی میں لے جاتی ہے جو اب تفریحی مرکز ہے، جہاں شاپنگ کی جا سکتی ہے۔

اس شہر کے مزاج میں متانت، سادگی اور وقار ہے۔ ٹریفک کے قوانین کی بالادستی تھی لہٰذا نہ گاڑیوں کا دھواں تھا اور نہ ہی بغیر سائلنسر کے گاڑیوں کا بے ہنگم شور! سب سے بڑی بات چائلڈ لیبر نظر نہیں آتی۔بھکاریوںسے سڑکیں خالی نظر آئیں۔ عزت نفس کی پاسداری اور خود انحصاری یہ مثبت رویے خوشحالی کے راستے کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے کاموں کو برا نہیں سمجھتے۔ ایک جگہ جھیل سے گزر کر دارچینی کا باغ دیکھنے گئے، تو واپسی میں جھیل کے وسط میں، چھوٹے سے ہٹ کے اندر پڑھے لکھے میاں بیوی کوکونٹ فروٹ لیے نظر آئے۔

ان کے ساتھ دو چھوٹے بچے بھی تھے۔ لباس اور چہرے مہرے سے متوسط طبقے کے دکھائی دیے۔ سری لنکا میں پام کے درخت جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ ہر سال ایک ملین ناریل باہر بھیجے جاتے ہیں جن سے سو ملین کے لگ بھگ زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ مشرق وسطی میں اس پھل کی بہت مانگ ہے۔ اس کا پانی کئی بیماریوں میں شفا دیتا ہے۔ اس میں کاربوہائیڈریڈ، وٹامن ای، آئرن، کیلشیم اور فاسفورس وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انناس بھی وافر مقدار میں نظر آیا۔ ناریل اور انناس اینٹی انفلیمیٹری پھل ہیں۔ راستے میں جا بجا فروٹ کے ٹھیلوں پر انناس، ریمبوٹان (لچی) کنگ کوکونٹ، ریڈ بنانا، تربوز، پیشن فروٹ، اسپوڈیلا، جیمبو، جیک فروٹ و انگور دکھائی دیے۔ گاڑی روکتے اور کوئی نہ کوئی فروٹ لے کر مزے سے کھاتے جاتے۔

سبزے پر مدھر سُروں میں پڑتی بارش میں ذائقے دار میوے نے ہر بار موسم کا مزہ دوبالا کر دیا، جگہ جگہ ٹوئرسٹ کنگ کوکونٹ پیتے نظر آئے۔ صحت بخش پھل، سبزیاں و سمندری غذا کی فراوانی کی وجہ سے یہ لوگ دبلے پتلے اور ہمہ وقت چست اور فعال دکھائی دیتے ہیں۔ ماش کی دال ناریل کے پانی میں پکائی جاتی ہے۔ اکثر سبزیوں میں فروٹ کی چاشنی بھی شامل ہوتی تھی۔ لوبیا سے بنی مزیدار ڈش اور کٹھی مچھلی و ابلے چاول کے بغیر ان کا دستر خوان ادھورا ہوتا ہے۔ روٹی کی جگہ ابلے چاول، ہوپرز (پھیکی سویاں) اور ناریل کے آٹے کی بنی چھوٹی چپاتیاں دستر خوان کی زینت بنتی ہیں۔

دراصل گندم کا مسلسل استعمال صحت کے لیے مضر ہے۔ اس آٹے سے وزن الگ بڑھتا ہے حالانکہ ہمارے پاس بھی آٹے کی کئی قسمیں موجود ہیں مگر ہم جن کی افادیت سے بے خبر ہیں۔ سری لنکا کے مختلف شہروں کی طرف جاتے ہوئے، راستے میں چائے کے کئی باغات دیکھے۔ چائے کا پودا 1824ء میں چائنا سے یہاں لایا گیا۔ اس زمانے میں سری لنکا پر برطانیہ قابض تھا یہی وجہ ہے کہ 1801ء میں سری لنکا سیلون کے نام سے مشہور تھا۔ یہ پودا کینڈی شہر کے رائل باٹنیکل گارڈن میں لگایا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تامل عورتیں انڈیا سے لے کر آئی تھی، جو چائے کے باغات میں کام کرتی تھیں۔

یہی تامل آگے چل کر سری لنکا میں خانہ جنگی کا باعث بنے۔ 1890ء میں تھامس لپٹن نے چائے کے باغات خریدے اور چائے بڑے پیمانے پر لندن ایکسپورٹ کی جانے لگی۔ سیلون، برطانوی تسلط سے 1948ء میں آزاد ہوا مگر چائے کی انڈسٹری ان کے قبضے میں رہی۔ ورلڈ ٹی کاؤنسل کے مطابق 2012ء میں سری لنکا نے 340 ملین کلوگرام چائے برآمد کی۔ کینیا اور چائنا کے بعد سری لنکا دنیا کو چائے برآمد کرنیوالا تیسرا ملک ہے۔ 2009ء میں سری لنکا میں خانہ جنگی کے اختتام کے بعد ٹورازم کے شعبے کو فروغ ملا۔ اب دنیا بھر سے لوگ چائے کے باغات اور چائے بننے کا طریقہ کار دیکھنے آتے ہیں۔

چائے بنانے کی اس فیکٹری کے باہر ایک خوبصورت جملہ لکھا تھا ''جس نے چائے کا ذائقہ نہیں چکھا وہ سچائی اور خوبصورتی کو بھی محسوس نہیں کر سکتا۔'' فیکٹری کے ساتھ ریسٹورنٹ تھا، اس سے ملحقہ ایک اسٹور جس میں گرین ٹی، بلیک ٹی، ہربل ٹی و مختلف ذائقے دستیاب تھے۔ ٹوئرسٹ گائیڈ لڑکیاں فیکٹری میں چائے بننے کا طریقہ کار دکھا کے ہمیں ریسٹورنٹ میں لے کر آئیں۔ ''یہ ہربل چائے ہماری طرف سے ہے۔'' یہ کہہ کر خوشدلی سے انھوں نے چائے پیش کی۔ رم جھم برستی بارش میں موسم ٹھنڈا ہو چلا تھا لہٰذا چائے نے غنودگی سے بوجھل ذہن کو طراوت بخش دی۔ کینڈی اور نوارا ایلیا جیسی حسین ہل اسٹیشنز سے ہوتے نگمبو پہنچے جہاں پاکستانی لڑکے سلیم سے ملاقات ہوئی جو ہوٹل میں ملازم تھا، جس نے سری لنکا میں سیاسی پناہ لے رکھی تھی۔ پاکستان کے ذکر پر اس کے چہرے پر تاریک سائے لہرانے لگے۔

''وہاں میرے خالو اور چچا کو مار دیا گیا لہٰذا میں نے ہمیشہ کے لیے پاکستان کو خیرآباد کہہ دیا'' حالانکہ اس کے والدین فیصل آباد میں مقیم ہیں۔ ''میں نے کیس جیت لیا ہے۔ اب میں چند مہینوں میں کینیڈا چلا جاؤں گا۔'' اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر جلا وطنی کا کرب۔نگمبو میں عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ ہوٹل کا ریسپشنسٹ لڑکا مسلمان تھا۔ اس شہر میں ہندو اور بدھسٹ بھی ہیں جو مل جل کر رہتے ہیں۔ سنہالی اور تامل فسادات میں بھی یہ یکجہتی قائم رہی۔ بچے اسکول و کالج جاتے رہے۔ علم حاصل کرنے کا جنون کم نہ ہوا۔ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اگر چند اچھے اصول اپنا لیے جائیں تو معاملات سلجھ سکتے ہیں۔نگمبو سے واپس کولمبو پہنچے۔ یہ کولمبو میں ہمارا آخری دن تھا۔ ساحل سمندر پر وقت گزار کے ایک نئے دیس کے لیے روانہ ہونا تھا۔ سری لنکا چھوڑنے کا دکھ تھا۔ یہ سبزہ، سمندر اور سادہ دل لوگ کس قدر یاد آئیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں