کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری
وطن عزیز میں موسم برسات و سیاست دونوں ہی ان دنوں عروج پر ہیں۔
وطن عزیز میں موسم برسات و سیاست دونوں ہی ان دنوں عروج پر ہیں۔ بظاہر تو سیاست کا برسات سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر بغور دیکھا جائے تو یہ تعلق صاف نظر آئے گا۔ ارباب اختیار، وزرا اور مشیران باصفا کے بیانات کا موسم ایسے ہی موقعے پر تو عروج پر ہوتا ہے۔ آخر بیان جاری کرنے میں کیا خرچ ہوتا ہے البتہ اپنی موجودگی اور ناکارکردگی کا چرچا تو ہو ہی جاتا ہے کہ ہم نے بارش و سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کے مکمل انتظامات کرلیے ہیں۔
ان دعوؤں کا پول پہلی بارش پر کھل جاتا ہے۔ ایک تعلق سیاست کا برسات سے یہ بھی ہے کہ جیسے غریب عوام ملک کی ترقی و خوشحالی امن و امان کے لیے گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں اسی طرح سیاست دان خصوصاً ارباب اقتدار برسات کی دعائیں مانگتے ہیں تاکہ طوفانی بارشوں میں گھرے ڈوبتے تباہ حال لوگوں کی بھرپور مدد کرتے ان کو نقصان پر تسلی دیتے ان کی تصاویر ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں اور تباہ کاری کا شور مچا کر عالمی اداروں سے زرکثیر بطور امداد حاصل کیا جاسکے تاکہ اپنے ذاتی خزانے میں اضافہ کا گراف مزید بڑھایا جائے۔
رمضان المبارک کا پہلا ہفتہ ہمارے اونگھتے حکمرانوں کی اعلیٰ کارکردگی کا اعلیٰ ترین ثبوت ہے کہ وہ شاید اس بات سے بے خبر تھے کہ اس سال گرمی شدید ہوگی اور اگر باخبر تھے تو کیا انتظامات کیے تھے؟ کہ گرمی تو پڑے گی مگر اس کا تدارک یا اس سے بچاؤ کے لیے بھی کچھ کیا جاسکتا ہے کہ نہیں۔ جب پندرہ سو افراد اس قیامت خیز گرمی کے اثرات سے جان بحق ہوچکے تو ذمے داران کی جانب سے اخبارات میں ایک اشتہار شایع ہوا جس میں گرمی کی شدت سے بچاؤ کی معلومات عوام کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ احتیاط برتنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی، ان میں یہ ایک بھی تھی کہ گرمی سے متاثرہ افراد کو ٹھنڈے مشروبات زیادہ دیے جائیں اور اگر حالت زیادہ بگڑ جائے تو متاثرہ شخص کو شاور کے نیچے کھڑا کردیا جائے۔ مشورہ تو بڑا صائب اور آسان تھا۔
مگر جب بجلی اور پانی دونوں ہی کئی گھنٹے نہیں کئی دن سے غائب ہوں تو ٹھنڈے مشروب تو کیا ٹھنڈا پانی بھی دستیاب ہونا مشکل اور شاور سے پانی کے بجائے گرم ہوا برآمد ہو رہی ہو تو اس کے نیچے کھڑا کرنے کا فائدہ؟ بلکہ شدید نقصان کا اندیشہ۔ مگر پانی و بجلی کی فراہمی اشتہار شایع کرانے والوں کی ذمے داریوں میں تو شامل نہ تھی۔ چلیے یہ تو ہوا قصۂ پارینہ اب موجودہ موسم کی طرف توجہ فرمائیں گزشتہ دنوں کے اخبارات (بلکہ تمام ذرائع ابلاغ) گواہ ہیں کہ تمام متعلقہ ذمے داران بار بار عوام کو مطمئن فرما رہے تھے کہ بارشوں کی شدت سے نمٹنے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔
پانی کی گزرگاہوں اور نالوں کی صفائی کی جا رہی ہے، جگہ جگہ ہنگامی مراکز قائم کردیے گئے ہیں، مگر عام اور معمولی سی بارش میں شہر ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگا، جگہ جگہ جو غلاظت کے ڈھیر عرصے سے لگے ہوئے تھے وہ پانی کے ساتھ بہہ کر گلی کوچوں میں آگئے۔ کچی بستیوں اور غریب آبادیوں کا تو جو حال ہو سو ہو، کراچی میں گلشن اقبال کے وی آئی پی بلاک، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں ڈاکٹر محمد حسین روڈ کے اختتام پر پارک کے بعد جو جگہ خالی پڑی ہے اس پر ہمیشہ ہی اس قدر کچرے کا انبار لگا رہتا ہے، بارش کے بعد جس میں تعفن اپنے عروج پر ہے۔
گلشن اقبال میں لبِ سڑک تعمیر فلیٹوں کی چہار دیواری مسجدوں کے عقب میں کچرے کے جو ڈھیر لگے تھے ان سب میں بارش کے بعد اتنا تعفن پیدا ہوچکا ہے کہ مکینوں کا سانس لینا مشکل ہوگیا۔ پیشگی انتظامات کے بارے میں بیانات پڑھ کر سوچتے تھے کہ چلو صاحبان اقتدار اور ارباب اختیار کو کچھ ہوش تو آیا کہ وہ کچھ کرنے پر آمادہ ہوئے، مگر ہر روز اخبارات میں کچرے سے بھرے نالوں کی تصاویر بھی نظر آئیں، وہیں دعویٰ تو یہ کہ نالے صاف کردیے گئے مگر خبر معہ تصویر یہ کچھ بھی ابھی تک نہیں ہوا ''شاید ہوجائے'' جن شدید بارشوں کی پیشگوئی کی جا رہی تھی(شکر ہے کہ ان کا خطرہ تو ٹل گیا) اس کے بعد شہر کا کیا حال ہوتا؟
ہماری ساس اماں مرحومہ کاہل اور سستی کا شکار افراد کے لیے اکثر یہ محاورہ استعمال کرتی تھیں ''ہاتھ پاؤں کی کاہلی منہ میں مونچھیں جائیں'' یہ محاورہ ہمارے اربابِ اختیار پر صد فی صد صادق آتا ہے۔ اگر واقعی ہاتھ پاؤں ہلاکر کچھ تھوڑا بہت بھی انتظام اس مسئلے سے نمٹنے کا کرلیا جاتا تو نہ صرف گرمی کے ستائے لوگ موسم برسات کی رومانیت سے لطف اندوز ہوسکتے تھے بلکہ کچھ نہ کرنے کے نتیجے میں جو مزید کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور آگے چل کر ہوں گے ان سب سے باآسانی نجات حاصل کی جاسکتی تھی۔
یعنی غلاظت کا راستوں، گلیوں میں بہہ کر آجانا، نالوں اور کچرا کنڈیوں میں تعفن کے باعث مچھر مکھیوں کی افزائش اور وبائی امراض کے پھیلنے کا خوف جیسے مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں، ایسے میں ایک کے بجائے مزید دس کام کرنے کو نکل آئے، تو جب ایک کام یعنی پیشگی حفاظتی انتظام ہی پوری طرح نہ کیا گیا تو اب ان حالات پر قابو پانے کے لیے کوئی کیا کرے گا؟ یہ ساری مصیبتیں غریبوں کے لیے ہی ہیں جو رہتے ہی کچرے کے ڈھیر اور ندی نالوں کے کنارے کچے مکان اور جھونپڑیاں ڈال کر ہیں، وہی سب سے پہلے ان مضر اثرات کا شکار ہوں گے۔
صاف اور تازہ کھانا تو کھانے کو انھیں ملتا نہیں علاج کیا کرائیں گے؟ مگر ہم شاید بھول جاتے ہیں کہ جب کوئی وبا پھیلتی ہے تو پھر وہ بے قابو ہوکر پوش علاقوں اور اعلیٰ بستیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ لہٰذا بڑے بڑے صاف گھروں، بنگلوں اور کوٹھیوں کے رہنے والے کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بچ جائیں گے۔
پورا ملک برسات اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہے، کتنے علاقے زیر آب آچکے ہیں، کتنی قیمتی جانیں نذرِ سیلاب ہوچکیں، فصلیں تباہ لوگ بے گھر ہوچکے۔ وزیراعظم کی جانب سے امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کے علاوہ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ متاثرین کو نئے گھر بنا کر دیں گے۔
یہ سب تو بعد کی بات ہے سوال یہ ہے کہ سیلاب یا برسات کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے انتظامات پہلے ہی کیوں نہیں کیے جاتے؟ جو جانی و مالی نقصان ہوتا ہے اس کا ازالہ تو ہو نہیں سکتا، کروڑوں کا نقصان فصلوں کی تباہی کے باعث بعد میں مہنگائی اور اشیائے صرف و اناج کی قلت الگ، پھر متاثرین کی بحالی کے لیے مزید اربوں روپے کی ضرورت اگر ملکی ترقی و خوشحالی کا خیال موجودہ یا کسی گزشتہ حکومت کو ہوتا تو وہ اس ساری رقم سے کم میں چھوٹے چھوٹے ڈیم جگہ جگہ بناکر ندی نالوں بلکہ دریاؤں کی بھی صفائی کروا کر انھیں مزید گہرا کرکے پہلے ہی اس نقصان سے بچاؤ کا انتظام کرسکتی تھی اور پھر پانی ضایع ہونے سے بچا کر پانی و بجلی کی کمی پر بھی قابو پاسکتی تھی۔
ملک گزشتہ کئی برس سے سیلاب کا شکار ہو رہا ہے اور آنے والے برسوں میں بارشوں میں شدت کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے مگر اس صورتحال سے بچنے کا کوئی معقول بندوبست ہوتا کہیں نظر نہیں آرہا۔ امدادی کام کی نگرانی کرنے، متاثرین سے اظہار ہمدردی کرتے ارباب اختیار کے فوٹو اور چینلز پر فلم تو دکھائی جاتی ہے مگر ٹھوس انتظامات کا کوئی منصوبہ دور دور زیر غور نہیں۔ کیا اظہار ہمدردی مسئلے کا حل ہے؟ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری۔ حالانکہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے اگر بروقت کام کرلیا جائے تو لاگت بھی کم آتی ہے اور نقصان سے بھی بچا جاسکتا ہے۔
غریب ملک بھلا کب تک متاثرین کی بحالی کے اخراجات برداشت کرتا رہے گا اور اگر کر بھی لے تو یہ مسئلہ مستقل اور پائیدار حل تو نہ ہوا۔ 67 برس سے کوئی تعمیری منصوبہ اور ہوش مندانہ فیصلہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا ہی نہیں گیا، جو برسر اقتدار آتا ہے وہ عوام کو سبز باغ دکھا کر بے وقوف بنا کر اپنی جھولی بھر کر روانہ ہوجاتا ہے، بعد میں آنے والے گزشتہ حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور اپنے مفادات کے حصول میں لگے رہتے ہیں۔ مختصراً یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک سے کسی کو ہمدردی ہے نہ اس کی فکر۔ یہ ملک خداداد ہے اور خدا ہی اس کو چلا رہا ہے کہ ''جو اس ملک کو چلا رہا ہے وہی خدا ہے۔''