صرف بیماریاں نہیں دوائیں بھی جانیں لے رہی ہیں

ہمیں دیانت دار ادارے تو کجا ایسے محققین بھی میسر نہیں جو ان کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے کرتوت سامنے لاسکیں۔


Muhammad Usman Jami July 31, 2015
مغرب میں بھی ادویہ ساز اداروں اور ڈاکٹروں کے مفادات کا اشتراک مریضوں کی زندگیاں چاٹ رہا ہے۔

وہ زمانے گئے جب شاعر نے شکوہ کیا تھا، "تم کیسے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے"، آج کے طبیب وہ دوا بھی دے دیتے ہیں جس کی مریض کو ضرورت ہوتی ہے نہ مرض سے اس کا کوئی تعلق۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکیموں کی طرح ڈاکٹروں کو معجون اور کشتے بنانے کے کشٹ نہیں اٹھانا پڑتے، بس کاغذ پر کچھ کیڑے مکوڑے بنانے ہوتے ہیں، جن سے فارمسٹ دوا کا نام ڈی کوڈ کرلیتا ہے۔

ڈاکٹروں کے بارے میں اس بدگمانی میں مت رہیے گا کہ وہ جو سینکڑوں ہزاروں روپے فیس وصول کرتے ہیں اس کا ادویہ تجویز کرنے سے کوئی تعلق ہے، یہ سروس تو مفت ہے جناب! جس کے عوض فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے وصولی کی جاتی ہے اور یہ ادویہ ساز کمپنیوں کی حرص ہے جو ترغیب بن کر سفید کوٹوں کے پیچھے چھپے دلوں کو لالچ کی سیاہی سے بھردیتی ہے۔ پھر یہ سیاہی مریضوں کے لیے غیر ضروری ادویہ کے ناموں کی صورت میں نسخوں پر ابھرتی ہے اور بیماروں کے جسموں میں اکثر زہر بن کر اتر جاتی ہے۔ دوا سازوں کی مارکیٹنگ حکمت عملی کے نتیجے میں غیرمتعلقہ دوائیں دینے کا چلن ساری دنیا کے مریضوں کے لیے روگ جاں بنا ہوا ہے۔ ترقی یافتہ، ترقی پذیر، سیکولر، مذہبی، جمہوری اور آمرانہ کی تخصیص اور تقسیم دیگر کمپنیوں کے کاروباری مفادات کی طرح فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے فوائد کے آڑے بھی نہیں آتی۔ مغرب، جہاں انسانی زندگی کی قدروقیمت ہمارے جیسے دیسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، وہاں بھی ادویہ ساز اداروں اور ڈاکٹروں کے مفادات کا اشتراک مریضوں کی زندگیاں چاٹ رہا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق مغربی ممالک میں ہر سال 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے پانچ لاکھ کے قریب افراد نفسیاتی امراض کے لیے تیار کردہ ادویات (psychiatric drugs) استعمال کرنے کے باعث جان سے گزر جاتے ہیں۔ اس معاملے کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ یہ دوائیں ان کی ذہنی بیماری کے خاتمے اور ڈیپریشن کے سدباب میں کسی طور مددگار نہیں ہوتیں۔ ڈنمارک کے Nordic Cochrane Centre کے محقق پروفیسر Peter Gotzsche نے یہ چشم کشا انکشاف کیا ہے کہ نفسیاتی امراض کی دواﺅں کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ محقق کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہ دوائیں استعمال کر رہے ہیں "ان کے لیے زیادہ بہتر ہے کہ وہ خود کو کسی گڑھے میں پھینک دیں ''۔

برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والے اپنے اس تحقیقی مقالے میں پروفیسر پیٹر انکشاف کرتے ہیں کہ زیادہ تر سکون آور ادویہ (antidepressants) اور ڈیمنشیا ڈرگز dementia drugs (بھولنے کی بیماری کے خاتمے کے لیے بنائی جانے والی دوائیں) کارآمد نہیں اور یہ دوائیں ٹھوس بنیادوں پر اور دیرپا علاج میں ناکام رہتی ہیں۔ اس کے بجائے شفا کے نام پر دی جانے والی یہ دوائیں برعکس اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس طرح کے اثرات جن کی متحمل ایک اوسط درجے کی صحت رکھنے والا فرد بھی نہیں ہوسکتا۔ اس ناکامی اور بے کاری کے باوجود ڈاکٹروں کے قلم ان ادویہ کو تعویذ کی طرح عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر نسخوں کی زینت بنائے جارہے ہیں۔ فائدے سے محروم مگر نقصان پہنچانے کی سکت رکھنے والی ان دواوؤں کی بابت پروفیسر پیٹر اپنے تحقیقی مقالے میں کہتے ہیں کہ ذہنی امراض کے لیے تیار اور تجویز کردہ مذکورہ نوعیت کی ادویات کا استعمال ترک کردینے سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

مغربی ممالک میں کسی نئی دوا یا طبی آلے کے سامنے آنے پر مارکیٹ میں آمد سے پہلے اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، جس میں سائنسی بنیاد پر یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ یہ دوا یا آلہ صحت کے تحفظ کے حوالے سے کیسے اثرات رکھتا ہے۔ پروفیسر پیٹر اپنی تحقیق میں بتاتے ہیں کہ یہ کمپنیاں جانچ پڑتال کرنے والے اداروں کی بڑی تعداد کو مال دے کر رام کرلیتی ہیں۔ ریگولیٹرز کو فریب دینے کے لیے اس موقع پر دواﺅں کی آزمائش میں شرکت کے لیے ان کے سامنے ایسے مریض پیش کیے جاتے ہیں جو پہلے سے کچھ دوائیں لیتے رہے ہوں اور جس کی وجہ سے ان کے مرض میں عارضی طور پر کمی ہوگئی ہو۔ انھیں جانچ پڑتال کی لیے پیش کی جانے والی نئی دوا کا استعمال کنندہ ظاہر کرکے اس دوا کی افادیت کی سند حاصل کرلی جاتی ہے۔

فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے کلینکس تک پھیلے اس جان لیوا دھندے کو بے نقاب کرتا یہ محقق کہتا ہے کہ جانوروں پر کیے جانے والے تجربات بتاتے ہیں کہ نفسیاتی امراض کے لیے دی جانے والی مذکورہ نوع کی تقریباً تمام ادویہ دماغ کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ پروفیسر پیٹر کے مطابق یہ دوائیں صرف ڈنمارک میں ہر سال 4 ہزار افراد کی جان لے لیتی ہیں اور اس سے کہیں زیادہ افراد کو امریکا میں نشانہ بناتی ہیں۔

ادویہ ساز اداروں کی انسانیت دشمن کاروباری سرگرمیاں اور طبی شعبے میں ہونے والے یہ جرائم پروفیسر پیٹر کا خاص موضوع ہیں۔ پروفیسر پیٹر اس موضوع پر ایک کتاب بھی تصنیف کرچکے ہیں۔ 2013 میں شائع ہونے والی اس کتاب کا عنوان تھا "Deadly Medicine and Organised Crime" یہ کتاب اپنے قارئین کو بتاتی ہے کہ کس طرح بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیاں طب کے شعبے کو بدعنوانی کی دلدل میں اتار چکی ہیں اور فریب کاری کے ذریعے مہلک دوائیں لوگوں کو شفا کے نام پر دی جارہی ہیں۔ اس کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ دواساز ادارے، دوائیں نہیں بیچ رہے، بلکہ جھوٹ فروخت کر رہے ہیں۔ مریض یہ نہیں جانتا کہ اسے جو دوا دی جارہی ہے، وہ کن اثرات کی حامل ہے، اکثر ڈاکٹر بھی دوا کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے۔ بیمار کو تو بس طبیب پر اعتبار ہوتا ہے، سو جو دوا وہ لکھتا ہے، مریض پورے اعتماد کے ساتھ خرید کر استعمال کرنا شروع کردیتا ہے اور ڈاکٹر ادویہ ساز کمپنیوں کی مراعات میں سر سے پیر تک ڈوبے ان کی دوائیں مریضوں کے جسم میں اتارتے رہتے ہیں۔

یہ تحقیق مغرب میں کی گئی، اس کے انکشافات وہیں سے متعلق ہیں۔ اب سوچیے! مغربی ممالک کے یہ ادویہ ساز ادارے اور ہماری ملکی فارماسیوٹیکل کمپنیاں ڈاکٹروں اور صحت کے متعلقہ اداروں کے تعاون سے ہمارے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہوں گی؟ ہم بدنصیبوں کو دیانت دار ادارے تو کجا ایسے محققین بھی میسر نہیں جو ان کمپنیوں اور ان کے احسانات تلے دبے ڈاکٹروں کے کرتوت ہمارے سامنے لاسکیں۔

[poll id="570"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں