جی رہے ہیں ہم تنہا
فلم ’’شرمیلی‘‘ کی مہورت کی تقریب کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔
فلم ''شرمیلی'' کی مہورت کی تقریب کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ ہدایتکار اقبال اختر نے نئے گلوکار اے نیر کے گیت کی ریکارڈنگ سے فلم کے آغاز کا عندیہ بھی دے دیا تھا۔
اسی دوران ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ میں نے فلمساز زیڈ چوہدری اورکو پروڈیوسر اداکار ناظم کے ساتھ ندیم سے ملاقات کر کے فلم کی مہورت میں شرکت کی رضامندی حاصل کرلی اور ندیم کو اے۔ نیر کی آواز میں ریکارڈ کیے جانے والے گیت کے بارے میں بھی بتا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ فلم کی تمام کاسٹ بھی اب مکمل ہوچکی ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران سائیڈ ہیرو غلام محی الدین بطور ولن ساجن، قوی، طلعت صدیقی اور مزاحیہ آرٹسٹ جمشید انصاری کو بھی سائن کرلیا تھا۔ جمشید انصاری کو ان دنوں فلمساز وہدایتکار شباب کیرانوی کی فلم میں کام کرنے کے لیے ان کی دعوت پر کراچی سے لاہور بلایا گیا تھا اور اس نے لاہور میں کئی دیگر فلمیں بھی سائن کرلی تھیں پھر چند روز کے بعد ایورنیو اسٹوڈیو میں فلم کی مہورت بڑی دھوم دھام سے ادا کی گئی جس میں فلم کے دیگر آرٹسٹوں کے علاوہ ہیرو ندیم نے خاص طور پر شرکت کی۔ فلم کی ہیروئن ممتاز اپنی ایک فلم کی مری میں آؤٹ ڈور شوٹنگ کی وجہ سے شرکت نہ کرسکی تھی۔
جس ہفتے فلم کی مہورت ہوئی اس کے دوسرے ہفتے ہی لاہور کے ایک تقسیم کار ادارے نے فلم کے حقوق خرید لیے تھے اور اس طرح ندیم اور ہدایتکار اقبال اختر کے ناموں کی وجہ سے فلم اچھے داموں بک گئی تھی فلمساز کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے اورکریم شہاب الدین کے لیے بھی بڑی خوشی کی بات تھی۔
اے نیر کی آواز میں ''جی رہے ہیں ہم تنہا'' گیت اپنی ریکارڈنگ کے بعد ہی سے فلم انڈسٹری میں مشہور ہوگیا تھا اور گلوکار اے نیر سے کئی مشہور موسیقاروں نے رابطے کرنے شروع کردیے تھے اور پھر ایک دو ماہ کے دوران ہی اے نیر موسیقار ایم اشرف، نذیر علی اور موسیقار کمال احمد کی فلموں کے لیے بحیثیت گلوکار بک ہوچکا تھا اور اس طرح موسیقار کریم شہاب الدین کے ایک ہی گیت نے گلوکار اے نیر کو لاہور ریڈیو اور ٹیلی وژن کے بعد فلموں سے وابستہ کردیا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے اے نیر اتنے گیت گا چکا تھا کہ یہ گلوکار احمد رشدی کے بعد دوسرا معروف گلوکار ہوگیا تھا اور لاہور کے موسیقار مشہور انڈین گلوکار کشور کمار کی جھلک رکھنے والے گلوکار کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے۔
اے نیر کو اس کے ایک ہی سولوگیت نے فلم' شرمیلی' کی نمائش سے پہلے ہی شہرت کے راستے کا ہمسفر بنا دیا تھا۔ اب تک مذکورہ فلم کے تمام گیت ریکارڈ کیے جاچکے تھے جنھیں احمد رشدی، مہ ناز، مالا، ناہید اختر اور اے نیر کی آوازوں سے سجایا گیا تھا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا مگر ندیم سے کسی طرح بھی فلم کے لیے شوٹنگ کی تاریخیں لینا ہنوز دلی دور است کے مصداق تھا پھر ہدایت کار اقبال اختر نے شوٹنگ کا ایک ایسا شیڈول بنایا جس میں فلم کے دیگر تمام آرٹسٹوں کا وہ کام عکس بند کیا جائے گا جس میں ندیم کی ضرورت نہیں ہے پھر ممتاز، غلام محی الدین، قوی، ساجن کو لے کر فلم کی ایک تہائی سے زیادہ شوٹنگ مکمل کرلی گئی تو ہدایت کاراقبال اختر نے مجھے کہا۔
یار ہمدم! اب تم کسی طرح ندیم کو دو تین دن کی شوٹنگ کے لیے رضامند کرلو، ہم ایسے خاص چند سین فلم بند کرلیں گے جن میں ندیم اور ممتاز کا کافی کام شوٹ ہوجائے گا اس طرح تقسیم کار کو پوری کاسٹ پر مشتمل فوٹو سیٹ بھی مل جائے گا اور وہ فوٹو سیٹ تمام سینما گھروں کی زینت بنا دیا جائے گا۔ ایک دن ہدایتکار نذر الاسلام کی ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران، میں ان کی فلم کے سیٹ پر گیا جہاں ندیم اور شبنم شوٹنگ میں مصروف تھے۔ میں اکثر فلموں کے سیٹ پر روزانہ ہی آتا جاتا رہا تھا۔
ندیم نے مجھے دیکھ کر میری خیریت پوچھی میں نے ان کا حال دریافت کیا تو بیگ صاحب بولے بس یار! بڑے مصروف دن چل رہے ہیں۔ شوٹنگ اور شوٹنگ بس اب تو رات خواب میں بھی کسی فلم کی شوٹنگ کا منظر چل رہا ہوتا ہے۔ بیگ صاحب کا موڈ کافی اچھا تھا۔ میں نے اپنی بات چھیڑتے ہوئے کہا، بیگ صاحب! مجھے آنے والے ایک دو ہفتوں میں آپ سے صرف ایک دن درکار ہے تاکہ دو چار اہم منظر ممتازکے ساتھ شوٹ کرلیے جائیں اور فوٹو سیٹ میں آپ کے چند سین بھی آجائیں تاکہ وہ فوٹو سیٹ سینما ہاؤسز میں آویزاں کردیے جائیں اور بیگ صاحب! یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہمارے تقسیم کار نے ہم سے اپنی ایک چھوٹی ڈیمانڈ کی ہے۔
ندیم نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے پتہ تھا تم لوگ زیادہ عرصے تک انتظار نہیں کر سکو گے خود بھی پریشانی اٹھاؤ گے اور مجھے بھی پریشانی میں مبتلا کرو گے پھر ندیم نے خود ہی کہا چلو میں ایسا کروں گا۔ تم اسی اسٹوڈیو میں جو بھی اپنا سیٹ لگانا چاہتے ہو لگا لو۔ میں شام چھ بجے اپنی شوٹنگ پیک اپ کر کے اسی اسٹوڈیو میں تمہاری فلم کے لیے ایک دو دن تک تین تین گھنٹے دے دوں گا، یہ بات سن کر میری تو طبیعت باغ باغ ہوگئی۔
میں نے کہا ٹھیک ہے بیگ صاحب! میں اقبال اختر صاحب سے کہتا ہوں وہ تیاری رکھتے ہیں۔ اسی اسٹوڈیو میں شوٹنگ کرنے سے آپ کو بھی آسانی ہو جائے گی اس خوشگوار گفتگو کے بعد میں خوشی خوشی اسٹوڈیو کے فلور سے نکلا سیدھا اقبال اختر صاحب کی طرف گیا۔ وہیں ناظم اور فلمساز زیڈ چوہدری بھی آگئے۔ شوٹنگ کی خبر سن کر، ہر دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پھر چند ایسے اہم سین نکالے گئے جن میں ممتاز، ندیم، طلعت صدیقی اور ساجن شامل تھے۔ دوسرے ہفتے ایورنیو اسٹوڈیو ہی میں فلم ''شرمیلی'' کا ایک سیٹ لگایا گیا۔
ندیم نے چھ بجے کے بعد ''شرمیلی'' کے سیٹ پر رات گیارہ بجے تک کام کیا۔ چند سین بچ گئے تھے وہ دوسرے دن پھر 'ٹیڈی شفٹ' میں رات کو شوٹ کیے گئے۔ یہ ندیم کی شفقت اور خلوص تھا کہ اس نے رات میں بھی شوٹنگ کا وقت دیا جب کہ ندیم کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ اپنی ہر فلم کی شوٹنگ کا آغاز دس بجے سے کرتا ہے اور شام 6 بجے پیک اپ کر کے فلور سے چلا جاتا ہے۔
دو دن کی شوٹنگ میں ندیم اور ممتاز کے کافی اہم سین شوٹ کر لیے گئے تھے اور ایک خوبصورت فوٹو سیٹ تیار کرکے تقسیم کار ادارے کو دے دیے گئے تھے کیونکہ فلم بکنے کے بعد ہر تقسیم کار ہر شہر میں فوٹو سیٹ بھجوا کر مقامی سینماؤں اور دیگر شہروں کے سینماؤں سے بھی بکنگ کے بعد قسطیں وصول کرتا ہے اور پھر وہی قسطیں تقسیم کار فلمساز کو پہنچاتا رہتا ہے اور یہی سلسلہ فلم کی آخری شوٹنگ تک باقاعدگی سے چلتا رہتا ہے۔
اب فلم ''شرمیلی'' کو 3سال ہو چکے تھے پھر ندیم نے ایک مہربانی یہ بھی کی جب بھی کسی ہیروئن کی وجہ سے ندیم کی کئی فلمیں شوٹنگ کی وجہ سے آگے پیچھے ہوتی تھیں تو ندیم چند دن فلم ''شرمیلی'' کے لیے دے دیتا تھا اور یہ سلسلہ آگے بھی یوں ہی چلتا رہا اور 3سال کے دوران ہی فلم ''شرمیلی'' تکمیل کے آخری مراحل تک پہنچ گئی تھی پھر کچھ وقت ایڈیٹنگ کے مراحل میں رہنے کے بعد فلم کو پنجاب اور سندھ میں ایک ساتھ نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ مذکورہ فلم ایک دلچسپ کہانی پر مبنی تھی۔
فلم کی میوزک بہت اچھی تھی پھر ہدایتکار اقبال اختر نے فلم کے تمام گیت بہت ہی خوبصورت پکچرائز کیے تھے اور خاص طور پر پیانو پر احمد رشدی کا گیت ندیم، ممتاز پر بہت ہی شاندار طریقے سے عکس بند کیا گیا پھر اداکار ندیم پر فلم کا اے نیر والا سیڈ سانگ مری میں ''جی رہے ہیں ہم تنہا'' فلم کی ہائی لائٹ بن گیا تھا۔ ریلیز سے پہلے ہی بیرونی ملک کے ڈسٹری بیوٹر محمد ادریس نے فلم ''شرمیلی'' کے اورسیز کے حقوق بھی حاصل کرلیے تھے۔ فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی اور اس نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی چنانچہ مجھے بھی اس فلم کی کامیابی سے لاہور میں اچھی طرح قدم جمانے میں آسانی ہوگئی تھی۔