بہادری اور ذہانت
اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت بہادری بھی ہے کچھ لوگ پیدائشی بہادر ہوتے ہیں
اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت بہادری بھی ہے کچھ لوگ پیدائشی بہادر ہوتے ہیں اور کچھ پر بہادری کے جوہر تعلیم و تربیت کے دوران کھلتے ہیں اور اگر بہادری کے ساتھ ساتھ ذہانت کی نعمت بھی مل جائے تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوتی ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بہادری اور ذہانت اگر صحیح سمت کی طرف چلتی ہے تو بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیتی ہے اور اگر منفی سمت کی طرف چلتی ہے تو بڑے بڑے ظلم کی داستانیں بن جاتی ہیں۔
جو لوگ سازشی ہوتے ہیں وہ اندر سے بزدل بھی ہوتے ہیں اور اگر ذہن سازشی ہے تو بھی وہ سازشیں تو ذہانت کے ساتھ تیار کرے گا مگر اندر سے خوف زدہ بھی ہوگا۔ بہرحال ہماری تاریخ سازشی لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ اور مسلمانوں کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ سازشیں بہت گہری نظر آتی ہے۔ جنھوں نے بگاڑ اور افراتفری پھیلائی، اقتدار کی مسند پر اگر بہادری اور دیانت ہوتی تو چاروں طرف گہری سازشوں کا جال بھی۔
ان ہی سازشوں اور جال میں ایک شخصیت ذوالفقار علی بھٹو بھی رہے ہیں۔ ایک قابل، بہادر، ذہانت سے بھرپور شخصیت! ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ایجنڈا تھا روٹی، کپڑا اور مکان، تمام عوام کے لیے۔UC Berkeley اور Oxford کے تعلیم یافتہ، لندن سے بیرسٹر کی ڈگری۔ پاکستان کے نویں وزیر اعظم جن کا دور حکومت بہتر نظر آتا ہے۔
بھٹو نے اپنی پارٹی، پیپلز پارٹی بنائی اور اسے متحرک رکھا، عوام کے قریب تر رہنے والی شخصیت، جدت پسند، ترقی کی راہوں پر تیزی سے سفر کرنا اور عوام کو ساتھ لے کر چلنا، سیاست ہر دور میں قیامت خیز رہی ہے وہ ہماری تاریخ کا پچھلا دور ہو یا موجودہ۔ وزیر اعظم بھٹو رہے ہوں یا موجودہ نواز شریف۔ ہاں طرز حکمرانی سب کا الگ رہا مگر قیامت خیزی کبھی کم نہ ہوئی، اور ان سب کا خمیازہ بھگت رہی ہے عوام۔
کل بھی روٹی، کپڑا اور مکان کے متلاشی اور آج 2015 میں بھی یہی تلاش، بلکہ اب اس کی حدت اور زیادہ ہے اور پھیلاؤ بھی زیادہ ہے۔بھٹو نے بڑی بڑی سپر پاورز کے سامنے اپنی ذہانت سے اور سیاسی سمجھ بوجھ سے پاکستان کا قد بڑا ہی کیا، ملک کو آئین دیا اور بے خوفی کے ساتھ تخت دار پر بھی چڑھ گئے حالانکہ اپنے آپ کو بچا سکتے تھے مگر ایک ذہین شخص گہری سازشوں کا حصہ بنا۔
پیپلز پارٹی کی باگ ڈور بے نظیر بھٹو نے سنبھال لی اور ایک خاتون ہوتے ہوئے بھی اپنی شہادت تک سازشوں کا مقابلہ کرتی رہیں۔دو دفعہ وزیر اعظم پاکستان بنیں، اپنے گھر میں بڑے غم بھی برداشت کیے اور اندرونی اور بیرونی سازشوں سے لڑتی بھی رہیں، یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ وہ ایک بہادر اور ذہین خاتون تھیں۔
اپنی وفات سے قبل کی تقاریر میں وہ ایک منجھی ہوئی عالمی سیاستدان نظر آتی ہیں، ان کا سیاسی قد بہت اونچا نظر آتا ہے، ان کی سیاسی سوجھ بوجھ بلند قامت نظر آتی ہے، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور وہ بھی بھٹو خاندان کی شہادتوں میں ایک اضافہ بن گئیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پارٹی جو ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے اور پورے ملک میں اپنی جڑیں رکھتی ہے آہستہ آہستہ تنزلی کا شکار نظر آتی ہے۔
وہ قیادت وہ سوچ جو پیپلز پارٹی کا ورثہ تھی وہ ناپید نظر آتی ہے گوکہ 3 جواں سال اولادیں بے نظیر بھٹو کی موجود ہیں جوکہ ان ہی کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے اور اپنی تاریخ سے علم بھی رکھتی ہیں مگر وہ جذبہ، وہ جنون کچھ کرنے کی لگن شاید missing نظر آتا ہے۔نواز شریف کا طرز حکمرانی الگ رہا ہے گوکہ وہ بھی اپنی پارٹی کو عوام کی امنگوں کی پارٹی کہتے ہیں، بھٹو خاندان کی طرح نواز شریف کا خاندان بھی سیاست میں موجود ہے اور یقینا سازشیں ان کے اردگرد بھی ہیں۔ مگر کئی سالوں پر محیط بلکہ کئی دوروں پر محیط ان کے اقتدار میں بھی عوام کا ایک عام شہری کا معیار زندگی کتنا بلند ہوا؟
پیپلز پارٹی ایک نظریے کے ساتھ عوام کی جڑوں میں رچی بسی پارٹی تھی، تھی اس لیے کہ اب کی موجودہ پیپلز پارٹی شاید بے نظیر یا بھٹو کی پارٹی نہیں رہی۔ پارٹی کے سیاسی نظریے کے ساتھ اب موجودہ پارٹی کا نظریہ الگ نظر آتا ہے۔ اندرون سندھ کے عوام بھی پارٹی سے خفا خفا نظر آتے ہیں وجہ یہی کہ پارٹی شاید ڈلیور نہ کرسکی جو اس کو کرنا چاہیے تھا، 2015 میں بھی اگر عوام سیاسی قائدین کی بھرمار ہونے کے ساتھ، اپنی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو، پینے کا صاف پانی نہ ہو، بچے بھوک سے مر جائیں، بوڑھے اور خواتین خاص طور پر اسپتالوں کے علاج و معالجہ نہ کرواسکیں، غربت و افلاس، جعلی دوائیں، حد سے بڑھ کر کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ، گندگی غلاظت پھیلتا ہی جائے تو یہ کیا بہادر اور ذہین سیاسی قائدین ہیں؟
تمام ممبران اسمبلی بڑے بڑے تاجر بن جائیں، ان سب کے ماضی دیکھیے اور ان کے حال دیکھیے، اگر صرف فائدے چند خاندانوں تک منجمد ہوجائیں اور بڑے بڑے دعوے صرف دعوے ہی رہ جائیں تو ایسی سیاسی قیادتوں کو ہم اور آپ کیا کہیں گے؟ بھٹو صاحب منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے تھے ان کا Vision اپنے خاندان تک نہیں تھا بلکہ وہ عوام کی بات کرتے تھے وہ پاکستان کی بات کرتے تھے۔
اب جب کہ ہماری سویلین قیادت ایک خاص سوچ کے ساتھ موجود ہے تو عوام کا اور ان کا رشتہ بھی اتنا مضبوط نہیں رہا جوکہ ہمیں اپنے پیچھے کہیں نظر آتا ہے، کیونکہ مخلص قیادت کو عوام کم ازکم اب جاننے پہچاننے لگے ہیں کہ ہم 1947 سے اب تک 2015 تک اگر اب بھی ان کا نصیب روٹی، کپڑا اور مکان سے آگے نہیں بڑھ سکا تو کس طرح وہ ترقی یافتہ ملکوں سے اپنا موازنہ کرسکیں گے۔
اپنے اپنے مفادات کے لیے اگر قومی مفادات کو پیچھے چھوڑ دیا جائے گا تو کیسے ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ عوام سے دوری کی سیاست زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ اختلافات اپنی جگہ، مگر قومی مفادات اور عوام کی فلاح و بہبود پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا۔دنیا کے دوسرے ممالک تیزی سے ترقی کرتے نظر آتے ہیں، تمام تر نعمتوں سے اللہ کی طرف سے نوازی ہوئی یہ سرزمین صرف چند بہادر، ذہین اور مخلص لوگوں سے خالی نظر آتی ہے۔جمہوریہ پاکستان میں جمہوری حکومتیں سازشوں کے جال میں نظر آتی ہیں، کوئی انہونی بات نہیں ایسا ہی ہوتا رہا ہے مگر جو ایک عوام سے کمٹمنٹ ہوتا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتا، آلو، پیاز اگر سستے ہوجائیں تو یہ کوئی کمال ہے۔
یوٹیلیٹی اسٹورز پر اگر تیل اور گھی سستا ہے تو اس کی کوالٹی کہ اللہ کی پناہ۔ ٹیلی ویژن پہ پروگرام چلتے ہیں کہ خدا کے واسطے ان کا استعمال خطرناک ہے صحت کے لیے۔ تو کیا یہ کمال ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر قدیر خان، ڈاکٹر محبوب الحق، بے نظیر بھٹو یہ سب ہمارے ہی لوگ ہیں جن کو دنیا مانتی ہے۔ ایک ایٹمی ملک پاکستان جو سوئی تک نہیں بناتا کمال ہے کہ نہیں؟