شاہ جی کی خواہش اور ہمارا خواب
شاہ جی مجموعی طور پر ایک فیاض آدمی تھے مگر تعریف کے معاملے میں خاصے کنجوس بھی تھے
ہمارے مرحوم و مغفور دوست عباس اطہر کا شمار ہمارے ان اساتذہ کرام میں ہوتا ہے جن سے ہم نے سیکھا تو خیر کچھ بھی نہیں البتہ انھیں استاد کہہ کر خوش ضرور ہو لیتے ہیں۔
پہلے ہم نوائے وقت میں اکٹھے تھے پھر خبریں میں۔ شاہ جی مجموعی طور پر ایک فیاض آدمی تھے مگر تعریف کے معاملے میں خاصے کنجوس بھی تھے تاہم ہماری تحریر و تقریر کو سراہتے ہوئے آپ ہمیشہ مبالغے کی حدوں کو چھوا کرتے تھے۔
آپ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ہو کر یہاں آ گئے مگر محبتوں کا سلسلہ جوں کا توں رہا۔ آپکی شدید خواہش تھی کہ ہم اپنا کالم لے کر ایکسپریس آ جائیںاور اس سلسلے میں آپ نے سنہ 2007 میں ایک بھرپور کوشش بھی کی مگر بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر ہم نوائے وقت نہ چھوڑ سکے۔
پھر اگلے چند برسوں تک وہ گلہ ہی کرتے رہے کہ ہم نے انکی خواہش کا احترام نہیں کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ہم تو خود دل و جان سے ایکسپریس کو اپنانا چاہتے تھے مگر ہمارے ستاروں کے بیچ ابھی فاصلہ حائل تھا۔ اسی دوران ہم نے دنیا ٹی وی سے حسب حال شروع کیا پھر ڈھائی برس بعد اسے خیرباد کہہ کر خبرناک کرنے جیو چلے گئے۔ سوا پانچ سال یہاں بسر کر ڈالے۔ اس عرصے میں شاہ جی ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کیلیے چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے اور ہماری بدنصیبی کہ ہم انکی خواہش انکی زندگی میں پوری نہ کر سکے۔
انجیل مقدس کی ایک دلفریب آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے ہر چیز کا ایک وقت رب کائنات نے معین کر رکھا ہے اور کوئی چیز وقت سے پہلے رونما نہیں ہو سکتی۔ بالکل اسی طرح ایکسپریس میں آنے کیلیے ہماری ٹائم لائن بھی وضع ہو چکی تھی مگر اس وقت عباس اطہر کو ہم سے بچھڑے دو سال سے کچھ زیادہ ہی ہو چکا ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے آج ہمارا پہلا کالم روزنامہ ایکسپریس کے صفحہ3پراپنی جگہ بنا چکا ہے تو انشا اللہ چند ہفتوں تک ہمارا نیا ٹی وی شو ''خبردار'' بھی رونما ہو جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری تخلیقی اصلاح اور ارتقاکا سلسلہ بدستور جاری و ساری رہے گا اور ہمارے دیکھنے والے اور پڑھنے والوں کو پہلے سے بہتر چیز ملے گی اور اگر ایسا نہ بھی ہوا، تب بھی کوئی قیامت نہیں آئے گی کہ خواب دیکھنے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے ناں۔
خوابوں کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے مگر بھارتی صدر عبدالکلام کی ایک بات بہت یاد آتی ہے۔ آپ تھے تو سائنسدان مگر شاید اتنے ہی بڑے ادیب اور نثر نگار بھی تھے۔
کہتے ہیں، ''خواب وہ نہیں ہوتا، جو انسان سوتے میں دیکھتا ہے بلکہ خواب تو وہ ہوتا ہے جو انسان کو سونے ہی نہ دے''۔ اپنے ٹی وی پروگرام بارے ہمارا خواب محض یہی نہیں کہ جس میں ہم خود ہوں وہ پذیرائی کے اعتبار سے نمبر ون ہو بلکہ ہمارا حقیقی خواب تو یہ ہے کہ دنیا ٹی وی کا ''حسب حال''، جیو کا ''خبرناک''، 92کا ''حماقتیں'' اور ایکسپریس کا ''خبردار'' اور ''سیاسی تھیٹر'' بھی یونہی جاری و ساری رہیں۔ سیاسی طنز و مزاح کے گلشن میں چلنے والی تروتازہ ہوا کا ہر جھونکا انہی کو چھو کر گزرے کہ یہ سارے بوٹے ہمارے ہی ہاتھوں کے لگائے ہوئے ہیں۔ البتہ ان تمام پروگراموں میں ایک صحتمند مسابقت چلتی رہنی چاہیے کہ یہ انکی بقا کیلیے ازحد ضروری ہے۔
''آفتابیاں'' اور ''خبردار'' دو انتہائی شریر بچے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی رائے ہمیشہ ملی جلی ہی رہے گی۔ ان دونوں کے ''الامے' اور شکایتیں آتی رہیں گی، خدا ہمارے افسران بالا کو وہ تمام صدمات جھیلنے کا حوصلہ عطا کرے جو ہماری شرارتوں کے نتیجے میں انہیں عنقریب ملنے والے ہیں۔ آمین ثم آمین۔
ایکسپریس گروپ کے ساتھ باقاعدہ منسلک تو ہم آج سے ہو رہے ہیں مگر شکر الحمدللہ کہ یہاں پر اجنبیت کا احساس ایک لمحے کیلیے بھی نہیں ہوا۔ یہاں پراعجاز الحق صاحب جیسے انتہائی نفیس دوست پہلے سے ہی موجود تھے۔ آپ کی نفاست دیکھ کر بعض اوقات حیرت ہونے لگتی ہے کہ آخر آپ شعبہ صحافت کے ساتھ کیسے منسلک ہوگئے؟
پھر حضرت علامہ کامران وجیہ مدظلہ بھی یہیں تشریف فرما ہیں اورایکسپریس نیوز کے ایک اہم حصے کو آپ نے بھی اپنے خوشگوار سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔ ایاز خان ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ہیں۔ انتہائی وضع دار اور معقول آدمی ہیں مگر پھر بھی ہمارے دوست ہیں۔ زاہد گوگی اور عامر الیاس رانا بھی اسی میڈیا گروپ کے چشم و چراغ ہیں اور ہمارا ان سے یارانہ کافی پرانا ہے۔
غریدہ فاروقی ہماری پرانی ہم رکاب ہیں آج کل ایکسپریس نیوز پر ایک دلچسپ پروگرام کر رہی ہیں۔ وصی شاہ ہمارا جگری دوست ہے اور ہمارے ہی وضع کردہ سیاسی تھیٹر کا ہوسٹ ہے۔ ڈارلنگ والے خالد عباس ڈار کے ساتھ دوستی بھی آج کی نہیں کئی برس پرانی ہے۔
الغرض یہ سب کے سب گلستان ایکسپریس میں چہچہاتے پائے جاتے ہیں لیکن اگرکوئی نہیں ہے تو وہ عباس اطہر ہے جسے جانے کی جلدی کچھ زیادہ ہی تھی۔ آج خوشی کا دن ہے مگر شاہ جی کی یاد ایک کسک کی مانند ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ ان کے ایک اور دوست جناب ظفر اقبال کا ایک شعر شاہ جی کی نذرہے
ہمارے حال پہ فضلِ خدا بہت کچھ ہے
ہجومِ ہجر میں تیرے سوابہت کچھ ہے!