تنازعہ چھٹیوں کا

تعلیمی اداروں کو بند کرکے اور سیلابی صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنیکا مقصد زیادہ سے زیادہ فنڈزکا حصول بھی ہوسکتا ہے۔


محمد نعیم August 03, 2015
ایک اعلان کے بعد بچوں کے چہروں پر خوشی اور اگلے اعلان کی خبر کے ساتھ ہی بچوں کے افسردہ چہرے دیکھے ہیں۔

KARACHI: اسکول کھولیں نہ کھولیں کی ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے تمام فریق بالآخر ایک بات پر متفق ہوگئے اور 11 اگست کو اسکول کھولنے کا فیصلہ طے پایا، اور سندھ میں زیرِ تعلیم لاکھوں بچے اور تعلیمی اداروں سے وابستہ تدریسی وغیر تدریسی عملہ اس شش وپنج کی سولی سے اتر گیا۔

گزشتہ تین چار روز میں جو کچھ ہوا اُس کا تو سب کو علم ہوچکا ہوگا کہ سندھ حکومت اور سیکرٹری تعلیم اور پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن میں کس قدر اتفاق واتحاد ہے! میرے خیال میں اس پر مزید بات کرکے اپنا اور دوسروں کا خون جلانا کوئی عقل کی بات نہیں ہوگی۔

سندھ کا محکمہ تعلیم اپنے نئے وزیر میر ہزار خان بجارانی کے عہدہ سنبھالنے کی راہیں تک رہا ہے۔ ناجانے وہ کون سی باہمی چپقلش ہے، جس نے وزیر موصوف کو تاحال عہدے کا چارج سنبھالنے نہیں دیا۔ یہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات بات نہیں رہی ۔

پھر دو قابل ذکر باتیں رہ گئی ہیں۔ ایک تو اس اسرار کی کھوج، جو وزیراعلیٰ سندھ کو گرمی کی تعطیلات میں توسیع کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر مجبور کر رہی ہے۔ جبکہ زمینی حقائق کہتے ہیں کہ سندھ کے کچھ مخصوص علاقوں کے علاوہ سب جگہ امن شانتی ہے۔ تاحال مون سون نے کوئی ایسی صورتحال پیدا نہیں کی کہ تعلیم اداروں کو بند رکھا جائے۔

سید قائم علی شاہ کے متعلق اچھا گمان نہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کو بند کرکے اور سیلابی صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد متاثرین کے نام پر زیادہ سے زیادہ فنڈز کا حصول بھی ہوسکتا ہے۔ صحیح بات کیا ہے؟ اور چھٹیوں کے پس پردہ کیا راز پوشیدہ ہیں یہ تو سائیں قائم علی شاہ ہی بتاسکتے ہیں۔

دوسری بات 3 اگست اور 11 اگست کو اسکول کھلنے کے نوٹیفکیشنر کی آنکھ مچولی نے سب سے زیادہ بچوں، والدین، اساتذہ سمیت دیگر غیر تدریسی عملے کو متاثر کیا ہے۔ متضاد حکومتی بیانات سے عوام کو کس قدر پریشانی ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے ثانوی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین اور ماہر تعلیم پروفیسر انوار احمد زئی سے میں نے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ فریقین چھٹیوں کی ایک تاریخ پر متفق ہوگئے ہیں۔ تاہم ہر روز تاریخ بدلتے اعلانات نے بچوں اور ان کے والدین کے اعصاب پر بہت زیادہ بوجھ ڈالا ہے۔

میں نے خود ایک اعلان کے بعد بچوں کے چہروں پر خوشی اور اگلے اعلان کی خبر کے ساتھ ہی بچوں کے افسردہ چہرے دیکھے ہیں۔ والدین کو بار بار وین سروس والوں سے پوچھتے ہوئے سنا ہے کہ بھائی بچوں کو کب لینے آو گے؟ اسکول کب سے جانا ہے؟

نجی اسکولز کی انتظامیہ بھی گومگو کیفیت کا شکار رہی ہے کہ زیرِ تعلیم بچوں کو اسکول کھلنے کی اطلاع دیں یا بند رکھنے کی!

سب سے زیادہ مشکل اور افراتفری کا شکار وہ لوگ ہوئے ہیں جو چھٹیوں میں توسیع کی خبر سنتے ہی سیر تفریح کے لیے دیگر شہروں کی طرف چلے گئے تھے۔

سندھ میں تعلیم کی صورتحال پہلے ہی ابتر ہے۔ اس پر طلبا کے مفاد میں ایسی تعلیم دوست پالیسیاں اور فیصلے کیا رنگ لائیں گے؟ ان کو جاننے کے لیے حکومت سندھ کی موجودہ کارکردگی کی مثال ہی کافی ہے۔

[poll id="580"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں