محاذ آرائی کی سیاست
ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک آگے چلنے کو تیار ہی نہیں۔ الیکشن ہوگئے ایک پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ جیت گئی
عام طور سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد ملکی سیاست میںکچھ تحمل،ِ برداشت اور ٹہراؤ آئے گا اور نفرت ، غیر ضروری اختلاف اور محاذآرائی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ لیکن محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔ ہر روز بیان بازی اور دشنام طرازی کے ذریعے ایک نیا ایشو اُٹھا کرقوم کو بلاوجہ ذہنی ابتلا اور کوفت میں مبتلا رکھا جارہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک آگے چلنے کو تیار ہی نہیں۔ الیکشن ہوگئے ایک پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ جیت گئی ۔ چند ایک تحفّظات کے ساتھ ساری سیاسی جماعتوں نے 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرلیا۔ جمہوری نظام اپنا راستہ خود تلاش کرکے آگے بڑھنے لگا کہ اچانک عمران خان اور طاہرالقادری نے ایک سال بعد نتائج کو مسترد کرتے ہوئے 14اگست2014ء کو ایک ملک گیر لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ قادری صاحب جو ایک بار پہلے بھی اسلام آباد میں تنہا چار روزہ دھرنے کا تجربہ کر چکے تھے ،اس بارخان صاحب کے ساتھ ملکراپنے اس تجربے کو دھرانا چاہتے تھے۔
اطلاعات کے مطابق لندن میں کچھ جماعتوں کے سربراہوں کے بیچ ایک خفیہ سمجھوتہ کیا جاتا ہے جسے ابتدا میں قوم سے چھپایا گیا لیکن بعد میں خود طاہرالقادری کی زبان پھسل جانے کی وجہ سے طشت ازبام ہو گیا اور پھر خان صاحب کو بھی بادلِ ناخواستہ یہ اعتراف کرنا ہی پڑا۔
اِس پلان کے عین مطابق قادری صاحب بظاہر اپنا بوریابستر سمیٹ کر کینیڈا سے پاکستان تشریف لے آتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہ جانے کا اعلان بھی مرحمت فرما دیتے ہیں۔ جون 2014ء میں وہ لاہور کے ائیر پورٹ پر طیارے سے باہر صرف اِس شرط پر آتے ہیں کہ پنجاب کے اُس وقت کے گورنر طیارے میں آکر با نفسِ نفیس خود اپنی خلوت و جلوت میں اُنہیں ماڈل ٹاؤن پہنچائیں۔اِس کے علاوہ اُنہیں 18کروڑ افراد میں سے کسی پر بھی اعتبار نہ تھا۔
ابھی 14اگست میں بہت دن باقی تھے حکومت نے ہر جائز طریقوں سے لانگ مارچ رکوانے کی کوشش کر ڈالی لیکن تمام کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔12ء اگست 2014 ء کو وزیرِ اعظم ریڈیو اور ٹی وی پر اپنے ایک خطاب میں خان صاحب کو اُن کی مرضی کے ججوں پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن بنانے کی پیشکش بھی کر دیتے ہیں لیکن وہ اُسے قبول کرنے پررضامند نہ ہوئے۔
دراصل معاملہ کچھ اور ہی تھا، ارادے کچھ اور ہی تھے۔ جن نادیدہ قوتوں کے اشارے پر یہ سارا پلان ترتیب دیا گیا تھا وہ ابھی تک پسِ پشت نہ صرف پیٹ تھپتھپا رہے بلکہ حوصلہ اور یقین بھی دے رہے تھے ۔خان صاحب کو اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق وزیرِ اعظم بن جانے کی اُمیدیں بر آنے لگی تھیں اور وہ کسی سمجھوتے پر راضی نہ ہوئے۔ بعض سیاستدان ،نواز شریف کی مخالفت میں، جن کے اچھے خاصے مراسم اِن نادیدہ قوتوں کے ساتھ بھی رہے تھے خان صاحب اور قادری صاحب دونوں کے کیمپوں میں جا جا کر اُنہیں ڈٹے رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔
معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا تھا اور ڈراپ سین کسی بھی لمحے ہونے ہی والا تھا کہ اچانک سارا منظر تبدیل ہو گیا ۔ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے کے بعد جسے کچھ لوگ اپنے حق میں ٹرننگ پوائنٹ سمجھ رہے تھے خود حکومت کے حق میںٹرننگ پوائنٹ بن گیا۔ جمہوریت پسند قوتیں متحد اور اکٹھی ہو گئیں ۔ ادھر مخدوم جاوید ہاشمی نے سرِ بازار سارا بھانڈا پھوڑ دیا اورایک بااثر فیصلہ ساز حیثیت کی ذہانت اور برد باری نے گیم کا سارا نقشہ ہی بدل دیا۔ اب واپسی کا عمل شروع ہوگیا۔ حکومت کے خلاف ایمپائر کی انگلی کا انتظار کرنے والوں کے اپنے خلاف اُنگلی اُٹھ گئی ۔رفتہ رفتہ دھرنے کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی۔
کفن پوش لیڈر اورناکامی کی صورت میں شہادت کا رتبہ پانے کے خواہش مند شخص نے اچانک اپنا دھرنا لپیٹ دیا۔ دوسری جانب ہر شام محفل موسیقی منعقد کرنے والے دھرنے کی رونقیں بھی ماند پڑنے لگیں۔ لہذا احتجاج اور دھرنے کے ماسٹر مائنڈ کے مشوروں پر پلان (ب) اورپلان(س) تشکیل دیا گیا اور شہر شہر جلاؤ گھیراؤ، مارو اور مرجاؤ کا مشن امپوسبل شروع کردیا گیا۔
حکومت گرانے کا یہ حربہ بھی دسمبر2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں کے حملے کے سبب ناکام و نامراد ہو گیا۔ اب غیبی سمت سے آنے والے ایک شٹ اپ کال پر یہ بچا کچا دھرنا بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔چار و ناچار جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کے مطالبے کو اپنی رہی سہی ساکھ کا سہارا بنایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔مگر یہاں بھی سبکی اُٹھانا پڑی اور اب مجبوراً فیصلے کوتسلیم تو کرلیا لیکن اپنی انا کو تسکین دینے کی خاطر نزلہ الیکشن کمیشن پر اُتار دیا۔
ججوں کے کام کی تعریف تو کر ڈالی لیکن اُسے ادھورا قرار دیکر اپنی گردن ہنوز اُونچی رکھنے کا اہتمام بھی کرڈالا۔دھرنے کا اہتمام کرنیوالوں نے اب اسمبلیوں میں مثبت اور تعمیری سیاست کرنے کا ارادہ تو ظاہر کیا ہے مگر حکومت گرانے کی غیر جمہوری خواہش کو حقیقت بنانے کی جستجو بھی برقرار ہے۔اگلے تین برس نہ خود آرام سے بیٹھنا ہے نہ میاں صاحب کو کچھ کرنے دینا ہے۔کیونکہ ڈر یہی ہے کہ میاں صاحب کو اگلے تین برس دے دیے گئے تو پھر اُنہیں اگلے الیکشن میں پچھاڑنا مشکل ہوجائے گا۔
ابھی ایسے دوسالہ کٹھن اور مشکل حالات میں کارکردگی کے اعتبار سے میاں صاحب اپنے پیش رؤں سے کئی درجہ بہتر ثابت ہو رہے ہیں تو اگر اُنہیں مزید تین برس مل گئے توشکست دینا نا ممکن ہو جائے گا۔یہی خوف اور پریشانی شیخ صاحب کو بھی چین سے رہنے نہیں دے رہی اور وہ ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن میں جانے کا فیصلہ غلط اور نامناسب تھا۔ اُن کے بقول وہ پہلے ہی اِس کے خلاف تھے۔ میاں صاحب کو اگر شکست دینی ہے تو سڑکوں کی سیاست کے ذریعے ہی دینا ہوگی۔ وہ اِس کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ قسمت شیخ صاحب کوسرخرو کرتی ہے یا میاں صاحب کو۔ نفرت ، اشتعال اور محاذ آرائی کی سیاست کرنے والے ہمارے یہاں اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں ۔
چند ایک رہ گئے ہیں جو ہر تین ماہ بعد حکومت کو جاتا دیکھتے ہیں اور پھر اپنی دی ہوئی تاریخ کو آگے بڑھا دیتے ہیں۔ سابقہ زرداری دور میں بھی وہ مکمل پانچ سال یہی کرتے رہے اب بھی یہی کررہے ہیں۔ پہلے وہ میاں صاحب کو اشتعال دلاکر اور فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیکرکے سڑکوں پر آنے کو کہا کرتے تھے اور اب عمران خان کے کاندھوں پر یہ فریضہ سر انجام دینے کے لیے بے چین و بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔
خود اُن میں اتنی جرات و ہمت نہیں کہ وہ یہ کارنامہ اپنے تئیں انجام دے پائیں ۔ ہمیشہ دوسروں کو اُکسا کر کوششیں کرتے پھرتے ہیں کہ ناکامی کی صورت میں وہ اپنا دامن بچا کر دوسرے کو موردِ الزام دے سکیں۔ یہی وجہ کہ وہ لانگ مارچ اور دھرنوں میں خان صاحب کے شانہ بشانہ تو موجود رہتے تھے لیکن اسمبلیوں سے استعفیٰ کے فیصلے میں خود کو الگ تھلگ ہی رکھا۔اب بھی وہ خان صاحب کی سیاست میں بطور ایک مشیر اور ایک دھواں دار مقرر تو شریک رہتے ہیں لیکن ناکامی میں حصہ دار بننے کو تیار نہیں۔
خان صاحب کو اگر اپنی سیاست کو مزید زک اور ضرر پہنچانے سے بچانا مقصود ہے تو اُنہیںاپنی صفوں سے ایسے مشیروں کو نکال باہر کرنا ہوگا جنھیں وہ کبھی اپنے قریب رکھنا پسند نہیں فرمایاکرتے تھے۔یہ ملک اب مزید محاذآرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں انتخابی اصلاحات کے عمل کو تیز تر کیا جائے اور کسی شارٹ کٹ کی بجائے اپنی صرف اہلیت اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں کامیابی کے امکانات پیدا کیے جائیں۔