اندھی دشمنی
دراصل بھارتی حکمرانوں کی یہ عادت سی بن گئی ہے کہ جب وہ اپنوں کی دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں
LONDON:
ابھی ممبئی حملے کے الزام کا زخم مندمل نہیں ہوا ہے کہ بھارت سرکار نے گورداسپور دہشت گردی کے حوالے سے ایک نیا الزام پاکستان پر جڑ دیا ہے۔
دراصل بھارتی حکمرانوں کی یہ عادت سی بن گئی ہے کہ جب وہ اپنوں کی دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور ان کو اپنی نااہلی صاف جھلکنے لگتی ہے تو وہ اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے الزام پاکستان کے سر منڈھ دیتے ہیں پھر اس میں انھیں بھرپور کامیابی بھی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ انھوں نے اپنے دیش میں پاکستان کے خلاف اس قدر زہریلا پروپیگنڈہ کر رکھا ہے کہ بھارتی عوام پاکستان کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
ادھر دینانگر تھانے پر حملہ ہوا اور ادھر بھارتی میڈیا نے فوراً الزام پاکستان پر دھر دیا اور ساتھ ہی دہشت گردوں کی فوٹیج بھی دکھانا شروع کر دی مگر آدھی آدھی یعنی کہ دہشت گردوں کی صرف کمر سے پیر تک کی تصویریں۔ ان کے سر کیوں نہیں دکھائے کہ پھر تو بھید ہی نہ کھل جاتا کہ سر پر بندھی پگڑیاں خود ہی بتا دیتیں کہ وہ پاکستانی تھے یا سکھ ملی ٹینٹس۔ واہ ری کاریگری۔ یہ کاریگری ہمارے میڈیا کو بھی نہیں آئی اور نہ ہی وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ چلتا کبھی نظر آیا۔
ممبئی حملے کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ ادھر ابھی حملہ جاری تھا کہ بھارتی سرکار کی ہدایت کے مطابق تمام بھارتی ٹی وی چینلز پاکستان کو حملے کا ذمے دار قرار دے رہے تھے اور یہی گورداسپور میں ہوا۔ اسے کہتے ہیں وطن پرستی اور دیش بھگتی دراصل بھارتیوں میں نیشنل اسپرٹ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جب کہ ہمارے ہاں یہ کب کی ہوا میں تحلیل ہو چکی ہے۔
بھارتی میڈیا کی طرح بھارتی وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ نے بھی گورداسپور واقعے کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا بلکہ میڈیا سے ایک ہاتھ آگے بڑھ کر انھوں نے یہ راز بھی فاش کر دیا کہ حملہ آور دریائے راوی کو پار کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے افسوس کہ انھوں نے ذرا نہ سوچا کہ اس وقت دریائے راوی میں سخت سیلاب ہے اور بھلا کون شخص اس وقت اسے پار کرنے کی حماقت کر سکتا ہے۔ بہرحال پاکستان دشمنی میں سب کچھ جائز ہے۔
ادھر ''را'' کے چیف نے اپنے وزیر داخلہ کے بیان کی لاج رکھنے کے بجائے بیان دیا کہ حملہ آور نارووال سے خشکی کے راستے آئے تھے۔ بہرحال چاہے حملہ آور راوی پار کر کے آئے یا سرحد پار کر کے انھیں روکنا بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں کی ذمے داری تھی۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے درست ہی کہا ہے کہ جب دہشت گردوں کے سرحد پار سے آنے کی پہلے سے اطلاع تھی تو پھر انھیں روکنے کے لیے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟
دراصل بھارت سرکار حقیقت کو چھپا کر اپنا ہی نقصان کر رہی ہے، اندرونی دہشتگردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی وجہ سے بھارت کے اندر دہشتگرد روز بروز تقویت پکڑتے جا رہے ہیں۔ بھارت میں اس وقت تقریباً پندرہ ریاستوں میں آزادی کی تحاریک چل رہی ہیں جن میں آسام، ناگا لینڈ، تری پورہ، میگھالیہ، جھاڑکھنڈ، چھتیس گڑھ، پنجاب اور کشمیر میں چلنے والی تحاریک کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔
ان تحاریک سے جڑے ملی ٹینٹس سے بھارت کو ہر وقت خطرہ لاحق ہے مگر اسے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ بھارتی حکمران ان تحریکوں کو طشت ازبام کر کے بھارت کے بڑے پن کے امیج کو خراب کرنا نہیں چاہتے وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ امن پسند، ترقی پسند اور سارے بھارتیوں کی پسند سمجھا جائے جب کہ ہر گز ایسا نہیں ہے دراصل بھارت کے امن کو تباہ کرنے کے ذمے دار خود اس کے اپنے رہنما ہیں جو زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر کے پاکستان پر جھوٹے الزامات کی بارش کرتے رہتے ہیں۔
بھارت کے اپنے لوگ بھارتی حکمرانوں کے اس رویے سے سخت نالاں ہیں اخبارات بھی اصلاح احوال کے لیے تجاویز دیتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ بھارتی حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کانگریس پارٹی کے ایک رکن لوک سبھا روینت سنگھ بتوجن کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ گورداسپور واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ''ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں دونوں اس بات سے نہ جانے کیوں چشم پوشی کر رہی ہیں کہ پنجاب میں خالصتان تحریک پھر زور پکڑ رہی ہے۔ اس تحریک کو نہ روکا گیا تو یہ 1980ء سے 2000ء تک چلنے والی تحریک سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ گرداس پور واقعے سے صرف ایک دن پہلے پنجاب کے چیف منسٹر مسٹر پرکاش سنگھ بادل کے گھر کے سامنے خالصتان تحریک کے حق میں زبردست مظاہرہ ہو چکا ہے۔ حکومت پنجاب نے دراصل ایک سکھ مذہبی رہنما سوت سنگھ کے مطالبے پر خالصتان تحریک کے قیدیوں کو جیل سے رہا کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔
اس سے لازمی طور پر صوبے میں دہشت گردی بڑھے گی انھوں نے مودی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گورداسپور حملے کا الزام پاکستان پر لگانے کے بجائے اپنے گھر کی خبر لیں۔ ادھر بھارت کے نامور اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنی 27 جولائی کی اشاعت میں اپنے اداریے میں لکھا ''پنجاب حکومت کی کرپشن اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے صوبے میں پھر سے آزاد خالصتان کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ کیا بھارتی حکومت کو خبر نہیں ہے کہ سکھوں نے پوری دنیا میں خالصتان تحریک کے دفاتر قائم کر لیے ہیں وہ سکھ نوجوانوں کو بھاری اجرت پر بھرتی کر کے نیز انھیں وہاں باقاعدہ ٹریننگ دے کر بھارت بھیج رہے ہیں۔
اس وقت بھارتی پنجاب حکومت دیوالیہ ہو چکی ہے اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ پولیس اہلکاروں کو تنخواہیں دے سکے۔ پولیس کے پاس نہ جدید ہتھیار ہیں اور نہ ہی انھیں دہشت گردوں سے نمٹنے کی تربیت دی گئی ہے۔ دراصل بھارت سرکار کی صرف کشمیر کو بچانے کی پالیسی نے سب کچھ تباہ و برباد کر دیا ہے۔ان تمام مشوروں کے باوجود بھی مودی سرکار پاکستان کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہوئی ہے۔
مگر اس سے پہلے کانگریسی حکومت کا بھی یہی وتیرہ تھا کانگریس حکومت نے تو بلوچستان فاٹا اور کراچی میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا تھا کراچی میں ایک گروپ کے بارے میں اب انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ وہ باقاعدہ پیسہ لے کر ''را'' کے اشارے پر کراچی کا مسلسل امن تباہ کرتا رہا ہے۔
ملک دشمنی کی اس روش نے کراچی کے عوام کو سخت صدمہ پہنچایا ہے۔کشمیریوں کی تحریک کی طرح سکھوں کی خالصتان تحریک بھی ایک حقیقت ہے۔ اس کا براہ راست تعلق تقسیم ہند سے ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کی طرح سکھوں نے بھی انگریزوں سے اپنے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا مگر چونکہ یہ ایک چھوٹی اقلیت میں تھے چنانچہ انگریزوں نے انھیں آپشن دیا تھا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ اتحاد کر لیں گو کہ پاکستان ان کے لیے بہترین آپشن تھا کیونکہ ان کے اکثر مذہبی مقامات پاکستان میں ہیں مگر گاندھی اور پٹیل نے انھیں ایک علیحدہ وطن کا سبز باغ دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا حالانکہ قائد اعظم نے بھی انھیں ایسی ہی آفر دی تھی۔
آج سکھ افسوس کرتے ہیں کہ کاش انھوں نے جناح جیسے قول و فعل کے سچے لیڈر کی بات مان لی ہوتی تو وہ آج بے وطن نہ ہوتے۔ سکھ برسوں خالصتان کے قیام کا انتظار کرتے رہے بالآخر انھوں نے 1980ء سے خالصتان کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ اس تحریک میں جرنیل سنگھ بھنڈرا والا نے نئی روح پھونک دی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والی اندرا گاندھی نے سکھوں کے جائز مطالبے پر غور کرنے کے بجائے ان کے امرتسر میں واقع مقدس گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کر کے نہ صرف ٹیمپل کو تباہ کر دیا بلکہ جرنیل سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو آزادی مانگنے کی پاداش میں ہلاک کر دیا۔
جرنیل سنگھ کی موت سے برہم ہو کر اندرا گاندھی کے دو سکھ باڈی گارڈز نے انھیں ہلاک کر دیا جس کی پاداش میں پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔ سکھ قوم کشمیریوں کی طرح آج بھی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے بھارتی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ کشمیریوں کی طرح سکھوں سے کیے گئے وعدے کو پورا کریں ورنہ بھارت کبھی بھی تخریب کاری سے نجات حاصل نہیں کر سکے گا۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت دراصل گورداسپور حملے کا پاکستان پر جھوٹا الزام لگا کر پاکستان میں جاری اپنی دہشت گردی اور پاکستان کی جانب سے اس کے تباہ کیے گئے ڈرون کے بھارت سے پاکستان میں داخل ہونے کے ثبوت پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے کیونکہ پاکستانی وزارت خارجہ واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ وہ بھارت کی دہشت گردی کے تمام ثبوت اقوام متحدہ کے آیندہ سربراہی اجلاس میں پیش کرنے والی ہے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے چنانچہ ہمارے قائدین کو بھارت کے ساتھ معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے اس کی اندھی دشمنی کا خاطر خواہ جواب دینے کے لیے تیار رہنا ہو گا ساتھ ہی بھارت کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو روکنا ہو گا۔