نفاذِ اردو اور نظام تعلیم

قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کو چھوڑ کر جہاں ہم نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ترقی کی راہ کبھی ہموار نہیں کی،


نجمہ عالم August 07, 2015
[email protected]

سالِ رواں چھ جولائی کو وزیراعظم نے باقاعدہ ایک حکمنامے اردو کے تمام سرکاری اداروں میں نفاذ کے بارے میں جاری کردیا۔ اس حکمنامے کی رو سے اب ملک کے سربراہ، حکمراں اور وزرا کے علاوہ تمام سرکاری نمایندے ملک اور بیرون ملک اردو میں اپنے خیالات پیش کریں گے، تمام سرکاری و نیم سرکاری ادارے تین ماہ کے اندر قوانین اور کارروائیاں اردو میں اپنے خیالات پیش کریں گے، اگر واقعی اس حکم نامے پر عمل در آمد ہوجاتا ہے تو گویا یہ نفاذ وترویج اردو میں ایک اہم قدم قرار دیا جائے گا۔

یوں تو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی اردوکو بطور قومی و سرکاری زبان رائج ہوجانا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کام میں لیت ولعل سے کام لیا جاتا رہا اور یہ کوشش ہنوز جاری ہے۔ قائد اعظمؒ کے واضح فرمان کے باوجود ان کے بعد انگریزوں کے کاسہ لیس اپنی من مانی کرتے رہے اور نفاذ اردو کی مدت میں اضافہ کرتے کرتے 67 برس گزار دیے۔ اب جب کہ اردو کے نفاذ کے لیے تین ماہ کی مدت حتمی طور پر مقرر کردی گئی ہے تو دعا یہی ہے کہ یہ تین ماہ تین سال یا تین دہائیاں (خدانخواستہ) نہ بن جائیں، حقیقت یہ ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی ہی زبان کو سرکاری زبان ہی نہیں بلکہ ذریعہ تعلیم بنانے کے باعث آج ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی زبان (انگریزی) کی اپنی اہمیت ہے مگر میرا بطور شاگرد اور اب بطور استاد یہ مشاہدہ ہے کہ جب ( ہمارے بڑے بہن بھائیوں کے دور میں) انگریزی زبان پانچویں جماعت کے بعد شامل نصاب ہوتی تھی تو اس دور کے تعلیم یافتہ افراد کی انگریزی آج جب کہ گھر پر ہی بچے سے انگریزی میں گفتگو کا آغاز ہوجاتا ہے اور وہ ساری تعلیم انگریزی میں حاصل کرتا ہے ان طلبہ کی انگریزی ماضی کے پڑھے لکھے لوگوں سے اچھی نہیں ہے اور اردو کا تو ذکر ہی کیا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے طلبہ کی نہ ہی اردو درست ہے اور نہ انگریزی، اے لیول میں آج بھی اچھے سے اچھے اداروں میں انگریزی جرنل پیپر (GP) جو لازمی ہے اس میں تمام A لیول کے طلبہ شامل ہوتے ہیں اور بمشکل چار پانچ Aگریڈ آتے ہیں۔

B گریڈ بھی کچھ زیادہ نہیں، طلبہ اس پرچے میں ای ڈی تک گریڈ میں پاس ہوتے ہیں، جب کہ اردو میں اگر دس بچے امتحان دیتے ہیں تو پانچ اے اسٹار اور پانچ اے گریڈ میں عموماً پاس ہوتے ہیں جب کہ سوائے اردو کے وہ تمام مضامین انگریزی میں پڑھتے ہیں کہنے کا مطلب یہ ہے 67 برس کی کوشش اور بلا سرکاری سرپرستی کے اردو آج بھی کسی بھی دوسری زبان سے زیادہ مقبول اور عام بول چال کی زبان ہے۔ بہر حال اگر دیے گئے دورانیہ میں (تین ماہ) واقعی اردو رائج ہوجاتی ہے تو ہم شاید کچھ ہی عرصے میں بکھری اور غیر منظم قوم میں اتحاد اور نظم و ضبط پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیوں کہ اردو ہی وہ واحد زبان ہے جو ملک کے گوشے گوشے میں رابطے کی زبان ہے۔

قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کو چھوڑ کر جہاں ہم نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ترقی کی راہ کبھی ہموار نہیں کی، وہاں تعلیم کے شعبے اور قومی زبان کے سلسلے میں بھی نہ صرف غفلت برتی بلکہ ان کی راہ میں طرح طرح کے روڑے بھی اٹکائے، قومی یکجہتی نہ ہونے کے سبب ہم نے کتنے زخم کھائے اور کتنا نقصان برداشت کیا؟ قائد اعظمؒ نے بلا خوف اور کسی بھی مصلحت کو جواز بنائے بغیر اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان ڈھاکہ میں کیا تھا۔ بنگالی کو اکثریت کی زبان کا شوشہ چھوڑ کر ایک غلط فہمی کو پروان چڑھایا گیا (مگر بنگالیوں کو اکثریت کے باوجود حکومت نہ دے کر ملک کو تقسیم کردیاگیا) بے شک بنگالی اکثریت کی زبان تھی مگر مشرقی پاکستان میں نچلی سطح سے یونیورسٹی تک اردو پڑھی اور بولی جارہی تھی جب کہ متحدہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں کوئی بھی بنگالی بولتا تھا نہ سمجھ سکتا تھا۔

اردو پاکستان کے دونوں حصوں کو متحد رکھنے کی واحد زبان تھی۔ مگر جو پاکستان کو متحد دیکھنا ہی نہ چاہتے ہوں انھوں نے یہ قضیہ اٹھایا اور پڑھایا۔ بہر حال یہ سب تو اب ماضی کی باتیں ہیں جو ہوچکا وہ ہوچکا ماضی کو دہرایا نہیں جاسکتا مگر آگے کی فکر کرنا زندہ و با شعور قوم کی پہچان ہے۔ ماضی کی اغلاط سے اگر سبق حاصل کرلیا جائے تو پھر وہ غلطی بھی پس منظر میں چلی جاتی ہے۔

اب جب کہ وزیراعظم کے نفاذ اردو کے بارے میں حکمنامہ جاری ہوئے ایک ماہ سے اوپر ہوچکا ہے اور حتمی مدت میں دو ماہ باقی رہ گئے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ حکمرانوں اور وزرا کی اردو میں تقاریر، تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں یا ہر قسم کے فارم انگریزی اور اردو میں جاری ہونے سے کیا واقعی ہم وہ نتائج حاصل کرسکیں گے جو کہ قومی زبان کے نفاذ کا تقاضا ہیں؟ میرا خیال ہے کہ جب تک پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم اور ایک ہی نصاب ہر سطح پر (ہر قسم کے علاقائی و صوبائی تعصب سے پاک) رائج نہ ہوجائے اس وقت تک ممکنہ نتائج حاصل کرنے میں یا تو کامیاب نہیں ہوسکتے یا پھر مقصد کے حصول میں توقع سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔

ہمارے انگریزی زدہ افراد اعتراض کرتے ہیں کہ سائنس کے مضامین میں اردو میں اول تو پڑھانا ممکن ہی نہیں اور اگر ممکن ہے بھی تو مشکل ضرور ہے کیوں کہ اردو میں سائنسی اصلاحات نہیں ہیں جب کہ آج سے سو برس سے زائد عرصہ قبل جامعہ عثمانیہ حیدر آباد (دکن) میں تمام فنی تعلیم اردو میں دینے کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے، اس جامعہ کے فارغ التحصیل افراد نے دنیا بھر میں نام پیدا کیا، ماہرین تعلیم بھی کہتے ہیں کہ بچے کو اگر ابتدائی تعلیم اس کی اپنی زبان میں دی جائے تو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا ہے اور پھر دنیا کی کسی بھی زبان میں دی گئی تعلیم اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہتی، جب کہ ہم اپنے طلبہ کے کئی برس محض انگریزی سکھانے میں ہی صرف کردیتے ہیں اور ہمارے نظام تعلیم نے ہمارے طلبہ کو غور و فکر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم کردیا ہے۔

آج تعلیم نصابی کتابیں اٹھانے کا نام رہ گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ نفاذ اردو اور نظام تعلیم کی بہتری کے لیے آخر کیا کیا جائے؟ تو اس سلسلے میں چند تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے مطلوبہ نتائج کم وقت میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ آج کل ذرایع ابلاغ بطور خاص برقی ذرایع معاشرے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ (مثبت یا منفی) اگر اس ذریعے کو حصولِ علم کے لیے ترجیحی بنیادوں پر استعمال کیا جائے تو بہتر نتائج کم وقت میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ماضی میں جب چینلز کا اتوار بازار نہ لگا تھا اور صرف پی ٹی وی ہوتا تھا تو اس پر ذہنی آزمائش کے کتنے دلچسپ و موثر پروگرام ہوتے تھے، فروزاں، جواں فکر، کسوٹی وغیرہ جس کے باعث لوگوں میں مطالعے اور معلومات عامہ میں اضافے کا رجحان عام ہوا۔ آج کوئی ایک بھی چینل استطاعت اور تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے اور بڑھانے کا پروگرام پیش نہیں کرتا۔ اب اس اہم ذریعہ کو بطور خاص تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، پھر طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کو ایک بار پھر شروع کیا جائے۔

مقابلے کا رجحان ہی طلبہ کو پڑھے، معلومات میں اضافے کے علاوہ ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار پر راغب کرتا ہے آج تعلیمی اداروں میں محض رقص و موسیقی گالا جیسے غیر تخلیقی اورکوئی بھی صلاحیت پیدا کرنیوالی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اگر ہر تعلیمی ادارہ ایک بار پھر سے ہفتہ طلبہ کا انعقاد کرنے لگے تو مذکورہ مباحثہ (اردو انگریزی) معلومات عامہ، شعر و ادب میں طلبہ کی دلچسپی واپس آسکتی ہے۔

ایسے مقابلوں میں شرکت کے باعث طلبہ میں مطالعے کا رجحان نہ صرف پیدا ہوگا بلکہ حقیقی معنوں میں مہذب، باوقار و با اصول شہری سامنے آئیں گے، تعلیمی ادارے محض نصاب اٹھانے کے مراکز کے بجائے اچھے شہری مستقبل کے قائد، سائنسدان، مہذب سیاستدان، کھلاڑی، ادیب و شاعر اور فلاسفر پیدا کرنے لگیں گے اور یوں نفاذ اردو کے مقاصد بہت کم مدت میں حاصل ہو جائیں گے اور تعلیمی ادارے صحیح معنوں میں تعلیمی ادارے بن کر ماضی کی طرح نوجوانوں کو ملک کی ذمے داریاں سنبھالنے کی تربیت فراہم کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں