آہ ہماری اقدار و روایات
بعض افراد میں بزرگوں کی نصیحتیں اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بالکل نہیں ہوتا
''برائی کو برائی نہ سمجھنا بھی تو برائی ہی ہے۔''
بعض افراد میں بزرگوں کی نصیحتیں اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بالکل نہیں ہوتا، ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ گھر میں کسی ایسے بزرگ کی موجودگی، جس کا دل چھوٹوں کی محبت اور بہتری کے جذبے سے مخمور ہو کسی نعمت سے کم نہیں۔ کم ازکم ہم تو اس نعمت کی قدر کرتے ہیں، تب ہی تو برسوں سے خالہ جی ہمارے ساتھ ہیں۔ خالہ جی پرانے وقتوں کی ذرا صاف گو روایت پسند اور تہذیب و اقدار کی حفاظت کرنے والی خاتون ہیں، جو بات غلط محسوس ہے اس کا برملا اظہار کردیتی ہیں، مگر لوگوں کو ان کی یہ عادت پسند نہیں، حالانکہ ان کی تنقید میں بھی اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
ایک دن سب لوگ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ خالہ جی سروتے سے چھالیہ کاٹنے کے ساتھ ہی ایک آدھ نظر ٹی وی پر ڈال کر پان چبانے میں مصروف ہوگئیں، جیسے ہی ملک کی ایک مشہور فلمی اداکارہ کا انٹرویو شروع ہوا، خالہ جی بڑبڑانے کے انداز میں گویا ہوئیں، ارے! جسے دیکھو انگریزی بول رہا ہے۔
اب ہم جیسوں کی سمجھ میں کیا خاک آئے گا۔ تو ہمارے شوہر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولے ''ارے خالہ جی! چار پانچ جملوں سے زیادہ انگریزی نہیں آتی، ابھی دیکھیے گا سانس اکھڑ جائے گا، ہانپنے لگیں گی، ایک ہچکی آئے گی اور پھر اردو میں شروع ہوجائے گی۔'' اور واقعی تھوڑی ہی دیر میں محترمہ بقیہ انٹرویو اردو میں دینے لگیں۔ خالہ جی بولیں ارے کم بختوں کو ضرورت کیا ہے اپنی زبان خراب کرنے کی، اگر انگریزی نہیں آتی تو سیدھے سیدھے اردو میں بات کریں، کوئی زبردستی تو نہیں ہے ناں!
ویسے تو زبان کوئی بھی بری نہیں، مگر اپنی زبان کے مقابلے میں دوسروں کی زبان پر فخر کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ہمارے شوہر ایک مرتبہ پھر گویا ہوئے۔ ''امریکا پہنچی ہوئی ہیں محترمہ، کتنے حیرت کی بات ہوگی، اگر امریکا پہنچ کر بھی انگریزی نہ بولیں۔'' اسی اثنا میں انٹرویو ختم ہوگیا۔ خالہ جی سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے چلائیں، ہائے ہائے! کتنی پیاری صورت اور ٹانگیں ٹیڑھی بے چاری کی۔ ہم نے جو ٹی وی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو بے اختیار ہنسی نکل گئی۔
خالہ جی ٹانگیں تھوڑی ٹیڑھی ہیں، ایک ٹانگ ذرا اسٹائل سے رکھی ہوئی ہے۔ خالہ جی غصے سے ہماری طرف دیکھ کر بولیں اور ٹانگوں کو تو چھوڑو، یہ پہنا ہوا کیا ہے۔ یہ لڑکیوں کا لباس ہے کیا؟ ہم نے کہا ''خالہ جی یہی فیشن چل رہا ہے آج کل۔'' انھوں نے ہمیں گھورتے ہوئے پوچھا۔ ''میں جب سے یہاں آئی ہوں، تمہیں تو نہیں دیکھا اس قسم کا لباس پہنے۔'' ہم نے تو خاموشی ہی میں عافیت جانی، مگر میاں صاحب ایک بار پھر گویا ہوئے۔ ''خالہ جی! دراصل اب ہمارے ملک کی نشریات دوسرے ملکوں میں بھی دیکھی جاتی ہیں اور کچھ مقابلے کا رجحان بھی بڑھا ہے۔''
خالہ جی نے سروتا ایک طرف رکھا، پاندان دھڑ سے بند کیا اور ہمارے میاں کی طرف رخ کرکے بولیں۔ اے میاں! کیا صرف لباس سے مقابلہ برابر کرنا چاہتے ہو، ضروری تو نہیں جو دوسرے ملکوں میں پہنا جا رہا ہے وہی ہم بھی پہنیں۔ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شلوار قمیض اور دوپٹے کے بجائے پینٹ شرٹ اور گلے میں رومال ڈالنے سے مقابلہ جیت لیا جائے گا۔ اس لباس کے بغیر پہلے بھی تو معیاری پروگرام پیش کیے جاتے تھے، دوسرے ملکوں میں بھی بڑا نام تھا پھر یہ بھی تو ذہن میں رکھو کہ ہم کون ہیں، ہمارا مذہب اور ہماری ثقافت، تہذیب کیا ہے۔
ارے اب شرم و حیا کو بھی موسم اور فیشن کا منہ دیکھنا پڑے گا؟ ہمارے میاں اس مرتبہ کچھ دبی ہوئی آواز میں صفائی پیش کرتے ہوئے بولے۔ خالہ جی! ساری لڑکیاں تھوڑی پہنتی ہیں اس قسم کا لباس۔ یہ تو خاص طبقے کے پہناوے ہیں۔ خالہ جی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھیں۔ فوراً بولیں ''اے میاں! جب چند لوگوں کے چونچلے ہیں تو دنیا کو کیوں غلط بات دکھا رہے ہیں۔ چلو اگر ڈرامے میں کسی کردار کو ضرورت ہے اس قسم کے لباس کی تو وہ پہنے بھی۔'' ہماری بیٹی نے چینل چینج کیا اور کہا ''چلیں خالہ جی! آپ گانا سنیں'' گانا شروع ہوا تو گویا خالہ جی کو ایک اور تنقید کا پہلو نظر آگیا۔ گویا ہوئیں ''ارے یہ کیوں اپنے پیر پٹخ رہے ہیں موئے! گا کیا رہے ہیں۔ اس مرتبہ ہماری بیٹی صاحبہ بولیں ''خالہ جی! انھیں گاتے گاتے جنون چڑھ جاتا ہے۔
اسی وجہ سے سر پٹختے ہیں۔ خالہ جی نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے کہا ''لو بھئی! گانا بھی پینٹ شرٹ پہن کر گا رہی ہے۔ خالہ جی کا جملہ سنتے ہی ہم سب کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔ ہماری صاحب زادی خالہ جی کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے بولیں خالہ جی ! یہ لڑکی نہیں یہ تو لڑکا ہے، ہاں ذرا بال لڑکیوں کی طرح بڑھائے ہوئے ہیں۔ خالہ جی نے افسردگی سے کہا۔ ارے کیا ہوگیا اس ملک کے لوگوں کو، لڑکیاں لڑکے اور لڑکے لڑکیاں بننے کی کوشش میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ کوئی انھیں روکنے والا نہیں ہے کیا۔ کوئی ضرورت نہیں یہ فضول پروگرام دیکھنے کی، جب دیکھنے والے ہی کوئی احتجاج نہیں کریں گے تو پروگرام پیش کرنے والوں پر کیا اثر ہوگا۔''
ہمارے میاں تو چپ چاپ سونے کے لیے چلے گئے اور خالہ جی نے ہمیں کچن سے بلایا اور ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں ،ارے بیٹا برائی کو برا نہ سمجھنا بھی تو برا ہی ہے ناں۔ بڑوں کا نہیں تو اپنے بچوں ہی کا کچھ خیال کرو تم لوگ۔ یہ کہہ کر وہ خود بھی سونے چلی گئیں، لیکن ہمارے لیے سوچ کے کئی نئے دروازے کھول گئیں۔
ایک حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے ''جہاں برائی دیکھو اس کو ہاتھ سے روکو، اگر اس کی ہمت نہ رکھتے ہو تو زبان سے روکو، اگر اس کی بھی ہمت نہ رکھتے ہو تو دل میں بُرا جانو اور یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔''