جب میں نے اقبال بانو کو روبرو سنا
میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ استاد امراؤ بندو خان نے ان سے میرا تعارف کرا دیا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اورہندوستان میں اگر میڈم نورجہاں کے گیتوں کی دھوم تھی، تو گلوکارہ اقبال بانو کے گیت بھی پاکستان اور ہندوستان کے ریڈیواسٹیشنوں سے بار بار نشر ہوتے تھے مگر میڈم نورجہاں کو ایک کامیاب گلوکارہ کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکارہ کا بھی اعزاز حاصل تھا، میڈم نور جہاں کی پاکستان میں بنائی گئی فلموں میں دوپٹہ، کوئل اور انتظار ایسی فلمیں ہیں کہ جن میں نور جہاں کے گائے ہوئے گیت امر ہیں تو ان کی اداکاری بھی لاجواب ہے جو کبھی بھلائی نہیں جاسکتی لیکن نورجہاں کے عروج کے زمانے میں کسی گلوکارہ کو اگر شہرت اور کمال حاصل تھا تو وہ گلوکارہ اقبال بانو تھیں جن کی گائیکی کا بڑا جداگانہ اور دل موہ لینے والا انداز تھا اور ان کا گایا ہوا ایک گیت:
تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
ایک ایسا سدا بہار گیت ہے، جسے ہر دور میں پذیرائی حاصل رہی ہے اور ریڈیو سیلون سے یہ نشر ہونے والا گیت ان چند گیتوں میں شامل ہے جسے لاتعداد بار نشرکیا گیا ہے میں اپنی نوعمری کے زمانے سے نورجہاں کے بعد اقبال بانو کی آواز کا شیدائی رہا ہوں۔ ان دنوں میں ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے گیت لکھتا تھا، ایک دن ریڈیو کینٹین میں جب میں داخل ہوا تو اچانک میری نظر گلوکارہ اقبال بانو پر پڑی، میں چند لمحوں کے لیے ساکت ہوگیا، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں گلوکارہ اقبال بانو کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں۔
اقبال بانو صاحبہ کینٹین میں مشہور کلاسیکل سنگر استاد امراؤ بندوخان، موسیقار نہال عبداللہ اورگلوکار مہدی حسن کے درمیان بیٹھی تھیں ۔ میں استاد امراؤ بندوخان کے بھانجے امیر احمد خان کا دوست تھا۔ استاد نے بڑی محبت سے مجھے بلایا اور بیٹھنے کے لیے کہا۔پھر انھوں نے اقبال بانو صاحبہ سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ بھئی! یہ کراچی کے نوجوان شاعر یونس ہمدم ہیں۔ ریڈیو کے لیے لکھتے بھی ہیں، میرے بھانجے امیر احمد خان کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ استاد امراؤ بندو خان نے ان سے میرا تعارف کرا دیا تھا۔ میں نے اقبال بانو سے کہا تھا کہ آپ ایک منفرد آواز کی مالک ہیں، لتا منگیشکر اور میڈم نورجہاں کی موجودگی میں آپ نے اپنی آوازکے جادو کو منوایا ہے، لاکھوں پرستاروں کی طرح میں بھی آپ کی آواز کا شیدائی ہوں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ اچھا بولتے ہو تو یقیناً اچھا لکھتے بھی ہوگے۔ یہ چند جملے میری زندگی کا حاصل تھے اور آج تک بھی یہ جملے میرے دل کے دریچوں میں خوش رنگ پھولوں کی طرح مہکتے ہیں۔
گلوکارہ اقبال بانو لاہور سے چند دنوں کے لیے کراچی آئی ہوئی تھیں اور اس دن کراچی ریڈیو کے لیے ان کی چند غزلیں ریکارڈ ہونی تھیں۔ دوسرے دن کالج میں امیر احمد خان نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ یار! اس ہفتے کی شب استاد امراؤ بندوخان نے گلوکارہ اقبال بانو کو اپنے گھر مدعو کیا ہے۔ اقبال بانو دہلی گھرانے کی شاگرد ہیں اور ہمارے گھرانے کا بڑا احترام کرتی ہیں۔ یہ استاد کے گھر کی ماہانہ موسیقی محفل ہے اس میں استاد کے شاگرد بھی شرکت کریں گے۔ اور اقبال بانو بھی اپنی گائیکی سے نوازیں گی۔
یہ خبر سن کر میری تو خوشی سے راتوں کی نیند اڑ گئی تھی، میں بڑی مشکل سے دن گن گن کر ہفتے کا انتظار کر رہا تھا۔ آخر کار وہ ہفتے کی شب بھی آگئی۔ میں امیر احمد خان کے ساتھ سر شام ہی ان کے ماموں استاد امراؤ بندو خان کے سولجر بازار والے گھر پہنچ گیا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے آج وقت بہت دھیمی دھیمی رفتار سے گزر رہا ہے۔ آہستہ آہستہ استاد کے شاگردوں نے آنا شروع کیا۔ ان میں مرد حضرات بھی تھے اور خواتین بھی تھیں۔
کچھ دیر کے بعد گلوکار حبیب ولی محمد بھی آگئے۔ اب اقبال بانو کا انتظار تھا۔ جیسے ہی اقبال بانو کی آمد ہوئی تو ساری محفل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ آتے ہی اس طرح سب سے گھل مل گئیں کہ جیسے سب سے ان کی پرانی شناسائی ہے۔ کچھ دیر بعد پرتکلف کھانے سے سب محظوظ ہوئے اور پھر کھانے کے بعد محفل موسیقی کا آغاز ہوگیا۔ ابتدا میں استاد کی چند شاگردوں نے گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ ان میں نعت خواں منیبہ شیخ کو میں نے پہلی بار لتا منگیشکر کا گیت اور ایک غزل گاتے ہوئے سنا۔ منیبہ شیخ ان دنوں ریڈیو سے نعتیں پڑھتی تھی اور اس کی کافی شہرت ہوچکی تھی۔
اس محفل میں، میں نے پہلی بار منیبہ شیخ کو فلمی گیت گاتے ہوئے سنا تھا۔ منیبہ شیخ کے بعد استاد کے ایک اور نامورشاگرد حبیب ولی محمد نے اپنی گائیکی کا آغاز کیا۔ حبیب ولی محمد ایک مشہور صنعت کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے غزل گائیک بھی تھے۔ یہ بھی ریڈیو سے غزلیں گاتے تھے۔ بعد میں فلم ''بادل اور بجلی'' میں ان کی گائی ہوئی ایک غزل نے بڑی دھوم مچائی تھی، جس کے بول تھے:''آج جانے کی ضد نہ کرو'' جس کی موسیقی سہیل رعنا نے دی تھی۔ اس محفل میں حبیب ولی محمد نے بہادر شاہ ظفر کی درد انگیز غزل سے اپنی گائیکی کا آغاز کیا جس کے اشعار تھے،
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
حبیب ولی محمد کی آواز نے ایک سماں باندھ دیا تھا پھر انھوں نے یکے بعد دیگرے بہادر شاہ ظفر اور قمر جلالوی کی غزلیں اپنی گمبھیر آواز میں سنا کر ساری محفل پر ایک سحر طاری کردیا تھا۔ ان کے بعد استاد امراؤ بندو خان نے یہ کہہ کر آج کی مہمان خصوصی گلوکارہ اقبال بانو ہیں وہ سب سے آخر میں غزل سرا ہوں گی وہ ہمارے گھرانے کی شاگرد ہیں ہمارے لیے یہ بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ اس لیے ان سے پہلے میں اپنے بھانجے امیر احمد خان کے ساتھ چند منٹ کی پرفارمنس دوں گا جو جگل بندی کے انداز میں ہوگی، اس موقعے پر اقبال بانو نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مجھ سے پہلے استاد گائیں شاگرد کو یہ زیب نہیں دیتا تو استاد نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ یہ استاد ہی کا حکم اور خواہش ہے۔
پھر استاد امراؤ بندو خان نے امیر احمد خان کی سنگت میں ایک راگ پیش کیا جس میں دونوں کی جگل بندی بڑی زبردست تھی۔ جسے ساری محفل نے بہت پسند کیا اور پھر استاد کے اصرار پر اقبال بانو نے اپنے استاد کی اجازت سے اپنی گائیکی کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ میں کافی دنوں کے بعد اپنا وہ فن اپنے استاد گھرانے کے سامنے پیش کر رہی ہوں جو مجھے اسی دہلی گھرانے کے طفیل حاصل ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اقبال بانو دہلی میں پیدا ہوئی تھیں اور انھوں نے دہلی گھرانے کے استاد چاندخاں سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اقبال بانو نے استاد کی اجازت سے پہلے سیماب اکبر آبادی کی ایک غزل پیش کی پھر محفل کے اصرار پر انھوں نے اپنے چند مشہور فلمی گیت سنائے جنھیں مقبولیت کی سند حاصل رہی ہے اور اپنے دور میں جو فلموں کی کامیابی کی ضمانت بھی رہے ہیں۔ جن میں خاص طور پر:
تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
...
الفت کی نئی منزل کو چلا تُو بانہیں ڈال کے بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
...
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
سکوت مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
پھر آخر میں مرزا غالب کی مشہور :
دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
پیش کی اقبال بانو یہ منفرد غزل بڑے جداگانہ انداز سے گا رہی تھیں۔ سُر چھلک رہے تھے اور سامعین ساکت بیٹھے سن رہے تھے اور اقبال بانو کی آوازکا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ غزل کا اختتام ہوا مگر سریلی آواز کا رس کانوں میں گھلتا چلا جا رہا تھا کسی کو بھی احساس نہیں ہوا کہ کب غزل ختم ہوئی ایک خاموشی ہر طرف چھائی رہی۔
پھر یہ سحر ٹوٹا تو محفل میں تالیاں ہی تالیاں گونج رہی تھیں۔ یہ ایک ایسی محفل تھی جو موسیقی کی ہزاروں محفلوں کو اپنے دامن میں سمیٹ چکی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں کوئی حسین خواب دیکھ رہا ہوں مگر یہ خواب نہیں تھا ایک سُریلی حقیقت تھی۔