دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

مودی سرکار پاکستان کو کبھی گجرات سمجھ لیتے ہیں تو کبھی میانمار سمجھ کر سفارتی آداب بھول جاتے ہیں۔


قادر خان August 09, 2015
[email protected]

PESHAWAR: مودی سرکار پاکستان کو کبھی گجرات سمجھ لیتے ہیں تو کبھی میانمار سمجھ کر سفارتی آداب بھول جاتے ہیں۔ بھارت کی اصل حقیقت کو تو افغانستان سے آنے والے صرف چند بہادر افغانوں نے تخت دہلی پر بیٹھ کر ثابت کردیا تھا ہندوستانی طاقت کتنی ہے۔ پاکستان کے پاس ہتھیار، میزائل اور بم بھی ان ھی غیور افغانوں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں، جنھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔

گورداسپور واقعے میں بھارتی میڈیا نے غیر مبہم تصاویر اور پھر عثمان خان نامی کسی نوجوان کو فیصل آباد کا رہائشی قرار دے کر سرینگر میں بھارتی فورسز پر حملے کے الزام کی بنیاد پر بنا تصدیق و ٹھوس شواہد کے ایک بار پھر پاکستان پر الزام عائد کردیا اور مودی حکومت نے اپنی سابقہ روش برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو برقرار رکھا۔ حالانکہ بھارت کی ایک علیحدگی پسند تنظیم نے گورداسپور واقعے کی ذمے دار قبول کرلی اور عثمان خان کا تعلق پاکستان سے ثابت نہ ہوسکا، لیکن جہاں بھارت کی اپنی زبان ان کے منہ میں سنبھالی نہیں جاتی تو دوسری جانب مشرقی سرحدوں پر بنا اشتعال فائرنگ اور مارٹر گولوں سے پاکستانی علاقوں میں بے گناہ افراد کو شہید اور ان کے گھر تباہ کردیتے ہیں۔

اس بات سے دنیا آگاہ ہے کہ بھارت صرف لفاظی جنگ اور سازش کرنے کی حد تک ہی محدود رہ سکتا ہے۔ بھارت کے اعلیٰ فوجی افسران اور میڈیا خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہندوستانی فوج صرف بیس دن سے زائد کی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بھارتی سازشوں کا یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک چل رہا ہے۔ بھارت نے بار بار یہ تسلیم کیا ہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اس کا ہاتھ اور خون (بہانے میں) شامل تھا۔ بھارتی مرکزی وزیر داخلہ شنڈے تسلیم کرچکے تھے کہ ہندوستان میں دہشتگردی کے سازشی عمل میں درپردہ ہاتھ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ہے۔

وزیر داخلہ کا یہ بیان خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر ہے۔ اس سازشی اور سیاسی کھیل میں دہشتگردی کے حوالے سے باقاعدہ سرکاری سطح پر پہلی بار اعتراف کیا گیا کہ بھارت میں دہشت گردی کی تربیت کے کیمپ ہیں جس میں فرقہ پرستانہ فروغ کے لیے مذموم تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد اور مالیگاؤں میں جو دہشت گردانہ دھماکے میں بے شمار افراد ہلاک ہوئے ان کارروائیوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس ملوث ہیں۔ سرکاری سطح پر تو پہلی بار یہ اعتراف سامنے آچکا ہے لیکن اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پر یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ بی جے پی اور آر ایس ایس بھگوا دہشتگردی (ہندو دہشتگردی) پھیلا رہی ہیں اور انھوں نے اپنی سازشی سیاست اور عمل سے بدامنی پھیلائی ہوئی ہے۔

بھارتی لیڈر آنجہانی بال ٹھاکرے کا بیان قابل غور رہا ہے کہ ''جب تک ہندو بم ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں کیے جائیں گے اس وقت ہندوستان میں ہندوؤں کے خلاف مسلم بم بنتے رہیں گے اور استعمال ہوتے رہیں گے۔'' بال ٹھاکرے کے اس بیان کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے متشدد کارروائیاں بڑھتی چلی گئیں اور دہشت گردی کے تربیت کیمپوں میں اضافہ ہوا۔

بھارت میں گو سنجیدہ طبقہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی اس قسم کی کارروائیوں پر متفکر نظر آتا ہے اسی لیے بی جے پی اور آر ایس ایس کے مسلم نمائندوں عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی جانب سے صفائی پیش کرنے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ بھارت کے مرکزی معتمد داخلہ آر کے سنگھ نے بھی بھارت کے مختلف علاقوں میں دہشت پسندانہ حملوں میں ایسے 10 دہشتگردوں کی نشاندہی کی جو آر ایس ایس اور اس سے ملحقہ تنظیموں سے روابط رکھتے ہیں۔

انھوں نے سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد (حیدرآباد) اور اجمیر درگاہ شریف میں دھماکوں کی تحقیقات میں انکشاف کیا کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ آر ایس ایس ان واقعات میں ملوث ہے۔ آر کے سنگھ کے مطابق سنیل جوشی دیواس (متوفی) اور مہو میں 1990 سے 2003 تک کارکن رہنے والا سمجھوتہ ایکسپریس واقعے میں ملوث تھا۔ سندیپ ڈانگے (مفرور)، رام جی کلنسگر (مفرور) سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد اور درگاہ اجمیر شریف کے دھماکوں میں ملوث ہیں۔

یہ 1990 سے 2006 تک مہو، اندور، اترکاشی اور ساجھاپور میں آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔ معتمد داخلہ نے آر ایس ایس کے گرفتار شدہ کارکنان لوکیش شرما، سوامی اسیمانند، مکیش باشانی، دیویندر گپتا، شندر سیکھر لیوے اور کمل چوہان کا بھی ذکر کیا جو دہشتگردی کے واقعات میں ملوث اور حکومتی تحویل میں ہیں۔ قابل ذ کر بات یہ ہے کہ جب معتمدداخلہ آر کے سنگھ نے پہلی بار سرکاری سطح پر ہندو دہشت گردی کے حوالے سے انکشافات کیے تو آر ایس ایس نے اپنے دس کارکنان کے تعلق جڑے جانے پر آر کے سنگھ پر شدید تنقید کی۔

دوسری جانب ''ہندو دہشت گردی'' کی اصطلاح استعمال کرنے پر وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے کے خلاف ایک گرم محاذ کھل گیا تھا اور عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر کانگریس نے شنڈے کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا''۔ جناردھن وریدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ وضاحت پیش کی کہ ان کے نزدیک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیرداخلہ کی جانب سے شاید زبانی لغزش ہوئی ہے۔

اس لیے کہ مالیگاؤں اور مکہ مسجد دھماکوں میں جو لوگ ملوث پائے گئے ہیں، وہ آر ایس ایس سے جڑے ہیں۔ جناردھن وریدی کے اس بیان کے بعد وزیرداخلہ کو بھی موقع مل گیا کہ وہ اپنے بیان سے منحرف ہوجائیں، لہٰذا انھوں نے بھی اپنے جنرل سیکریٹری کے بیان کو درست قرار دیا کہ ''یہ ان کی زبان کی لغزش تھی، اے آئی سی سی نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست ہے''۔

یہ کہتے ہوئے کانگریس کے جنرل سیکریٹری اس بات کو بھی نظر انداز کرگئے کہ دہلی صوبہ کے کانگریس صدر اور شمال مشرقی دہلی سے ممبر پارلیمنٹ جے پی اگروال بھی وزیرداخلہ کے بیان کی تصدیق و حمایت کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ ''ملک کا وزیرداخلہ کوئی بھی بات بنا ثبوت کے نہیں بولتا اور ان کے پاس مکمل ثبوت ہیں جن کی بنیاد پر انھوں نے ہندو دہشتگردی کی بات کہی ہے''۔اب چاہے بھارتی حکومت اپنے اقرار اور اعتراف پر مکر جائے لیکن دنیا پر واضح طور پر یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بھارت میں انتہاپسندی کے تربیت کیمپ موجود ہیں، جو ہندو انتہاپسندی کو فروغ دے رہے ہیں ۔

جس سے خطے میں امن کو خطرات لاحق ہیں۔ مشرقی پاکستان کو لسانی بنیادوںپر علیحدہ کرنے کی سازشوں اور انتہاپسند کارروائیوں کے ساتھ پاکستان میں جاری پراکسی وار میں بھارتی مودی سرکار کے اعترافات کے بعد خطے میں امن کے لیے پاکستان کی برداشت کو کمزوری سمجھنے کی بھول مودی سرکار کے دماغ میں پاکستان فوبیا کی صورت میں جاگزیں ہوچکی ہے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ کسی بھی شکل میں کہیں بھی کی جاسکتی ہے، لیکن بھارت کی ہندو انتہاپسند حکومت جس طرح انتہاپسندی کو فروغ دے کر خطے کے امن کے درپے ہے اور بھارتی میڈیا انتہائی منفی کردار ادا کر رہا ہے، وہ یقیناً قابل مذمت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں