ایران امریکا ڈیل اور خلیجی ممالک
خلیجی ریاستوں کو یہ پریشانی ہے کہ جوہری ڈیل کی وجہ ایران کا اثر و رسوخ مشرق وسطیٰ میں مزید گہرا ہو گا
www.facebook.com/shah Naqvi
QUETTA:
قطر کے وزیر خارجہ خالد ال عطیہ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلیج عرب کی حکومتیں اب پُر یقین ہیں کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری ڈیل خلیجی علاقے کو محفوظ بنائے گی۔ قطری وزیر خارجہ نے یہ بات اس موقعہ پر کہی جب وہ خلیج تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کر رہے تھے۔ اس دفعہ قطر اس کانفرنس کی صدارت کر رہا تھا۔ گلف تعاون کونسل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اومان، قطر، بحرین اور کویت سمیت چھ ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اس اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شریک ہوئے جس میں انھوں نے خلیجی وزرائے خارجہ کو امریکا ایران جوہری ڈیل کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے اس ڈیل کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی اور خلیجی ملکوں کے شکوک شبہات دور کرنے کی کوشش کی۔
خلیجی ریاستوں کو یہ پریشانی ہے کہ جوہری ڈیل کی وجہ ایران کا اثر و رسوخ مشرق وسطیٰ میں مزید گہرا ہو گا اور علاقائی طاقت کا توازن بھی ایران کے حق میں ہو جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ میں نے اور میرے ہم منصبوں نے اس موضوع پر گفتگو کی ہے کہ ہم ایک طاقتور پائیدار اور اسٹرٹیجک پارٹنر شپ خطے کے حوالے سے تشکیل دیں جس کے ذریعے ہم مل جل کر ایک دوسرے کے تعاون سے دہشت گردی کا مقابلہ کریں۔ انھوں نے خلیجی ریاستوں کو ان خاص امریکی ہتھیاروں کی فروخت کی بھی بات کی جن پر طویل عرصے سے بات چل رہی ہے۔ کیری نے کہا کہ امریکا خطے کے استحکام کے لیے نہ صرف خفیہ معلومات کا تبادلہ کرے گا بلکہ مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
قطری وزیر خارجہ عطیہ نے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امریکا پر بھروسہ ہے کہ اس نے ایران سے جو ڈیل کی ہے اس سے خلیجی علاقہ زیادہ محفوظ اور مستحکم ہو گا۔ ایران امریکا جوہری ڈیل کے لیے خلیجی ممالک کی حمایت حاصل ہو گئی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جوہری ڈیل آپشن بہترین آپشن ہے کیونکہ دوسرے آپشن جنگ سے گزرتے تھے۔ جس سے خطہ ہولناک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا تھا۔ یاد رہے کہ قطر ہی وہ ملک ہے جس نے پس پردہ رہ کر امریکا اور ایران کو قریب لانے اور دونوں ملکوں کے درمیان شکوک و شبہات دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ پیر کو خلیجی ممالک کا ایک روزہ دورہ کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام عرب بادشاہتیں جو ایران امریکا ڈیل کی سخت مخالفت کر رہی تھیں اس معاہدے پر دستخط کے صرف دو ہفتے بعد اس کی حمایت میں بیان دے رہی ہیں اور اسے بہترین آپشن قرار دے رہی ہیں۔ اس وقت امریکا دنیا کا بادشاہ ہے۔ جب وہ ایک پالیسی اختیار کر لیتا ہے تو باقی دنیا کو بھی اس کی پیروی کرنا پڑتی ہے۔ نہ کرنے کی صورت میں ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایران نے امریکا کا 36 سال مقابلہ کیا، جانی و مالی نقصانات برداشت کیے کیونکہ اس کے انقلاب کو ایرانی عوام کی حمایت حاصل تھی لیکن مطلق العنانیت پر قائم عرب بادشاہتیں ایسا نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان کی بقا خطرے میں ہے۔ امریکا نے ایران کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ طویل غور و خوض کے بعد اختیار کی ہے۔ اس وقت دنیا ایک دور سے نکل کر دوسرے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد قوی امید تھی کہ ایک نئے دور کا آغاز ہو گا لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے جن جنگجوؤں کو مذہب کے نام پر تخلیق کیا گیا، ان کو ختم کرنا لازم ٹھہرا۔ تو دوسرا ایران کو بھی بغاوت کی سزا دینا ضروری تھی کہ کہیں دوسرے محکوم بھی خطے میں سر نہ اٹھا لیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کا سہارا لیا گیا۔ یہ ایک ایسا خوفناک سامراجی ہتھیار تھا جس نے طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ کر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں فرقہ واریت کا زہر بھر دیا۔ اس طرح سرمایہ دارانہ نظام کو بچا کر مشرق وسطیٰ میں تیل کے مفادات کا تحفظ کیا گیا۔
ایران کے ساتھ ڈیل امریکا کی مجبوری بھی تھی اور ضرورت بھی۔ ورنہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ دونوں ہی ایران میں رجیم تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں امریکی انٹیلی جنس رپورٹیں بہت خوفناک تھیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام منہ کے بل زمین پر گر پڑتا۔ 1929ء سے بڑا معاشی بحران امریکا یورپ اور اس کے اتحادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ اس وقت بھی یورپی یونین کے کئی ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ یہ معاشی طاقت ہی ہے جس کی بنا پر امریکا اور اس کے اتحادی دنیا کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں۔ معاشی طاقت ہی جنگی اور سائنسی طاقت کی بنیاد ہے۔ اب کون اپنے ہاتھوں خودکشی کرتا ہے۔ اتنی عقل تو سب میں ہے۔ مغرب کو دنیا پر بالادستی صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی۔ ورنہ عثمانی ترک جب چاہتے چڑھ دوڑتے۔
تازہ ترین صورت حال اسرائیل کے حوالے سے یہ ہے کہ متعدد سابقہ اسرائیلی جرنیل اور سیکیورٹی چیفس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو کہا ہے کہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی جوہری ڈیل کے بارے میں اپنا دشمنی پر مبنی مخاصمانہ رویہ ترک کر دیں۔ یہ دستخط شدہ عرضداشت اسرائیلی اخباروں میں چھپی ہے۔ ان لوگوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ اسے ایک ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ اعتماد بحال، سیکیورٹی اور ڈپلومیٹک تعاون میں اضافہ ہو۔
دوسری طرف ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ایک آرٹیکل میں جو بہت سے عرب اخبارات میں چھپا ہے، لکھا ہے کہ ایران جوہری ڈیل پر عرب ممالک سے بات کر کے ان کے خوف و خدشات کو دور کرنا چاہتا ہے تا کہ مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم ہونے سے بچایا جا سکے۔ خیال رہے کہ ایران میں بھی قدامت پسند حلقے اس جوہری ڈیل کی سخت مخالفت کر رہے ہیں یہاں تک انھوں نے ایرانی وزیر خارجہ اور وہ لوگ جنہوں نے مذاکرات میں حصہ لیا انھیں غدار قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے جوہری معاہدے پر تنقید کرنے پر ایک ہفت روزے کو بند کر دیا گیا ہے۔ دوسرے قدامت پسند اخبارات کو خبردار کیا ہے کہ وہ رپورٹنگ کے ضوابط کا خیال رکھیں۔ اس سے پہلے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ جوہری معاہدے سے مشرق وسطیٰ کے دو بد ترین بحرانی علاقوں شام اور یمن کے مسائل کا تیز رفتار حل ممکن ہو گیا ہے۔ روحانی کا کہنا تھا کہ شام اور یمن کے بحرانوں کا حتمی حل سیاسی ہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس معاہدے سے علاقے میں ایک نئی فضا پیدا ہو گی۔ معاملات آسان تر ہو جائیں گے۔
٭...اگست کے آخر اور ستمبر کے شروع میں جوہری ڈیل کے حوالے سے اہم حالات و واقعات پیش آئیں گے۔