بانی مزدور تحریک مرزا محمد ابراہیم

1920 میں ریلوے میں یونین بن گئی تھی اور پھر 1926 میں پہلا ٹریڈ یونین ایکٹ بنا۔


Manzoor Razi August 10, 2015

برصغیر کے معروف ترقی پسند محنت کشوں کے دانشور اور ٹریڈ یونین کے بانی مرزا محمد ابراہیم کی 16 ویں برسی 11 اگست 2015 کو منائی جا رہی ہے، وہ 11 اگست1999 کو اپنے شہر جہلم کے بنگلے نما اسپتال میں انتقال کرگئے تھے۔

اس سے قبل وہ جہلم سے ایمبولینس کے ذریعے لاہور کے میو اسپتال میں جولائی 1999 آئے تھے میں ان کے ساتھ تھا ، انھیں پیٹ کی تکلیف کی وجہ سے گجرانوالہ وارڈ میں داخل کیا گیا جہاں 10 روز کے بعد طبیعت بہتر ہونے پر واپس اپنے گاؤں کالا گجراں چلے گئے انھوں نے اپنا علاج اپنے ہی جیسے عوام اور مزدوروں کی طرح کروایا۔ نہ بڑا اسپتال نہ بڑا ملک نہ روس گئے نا لندن گئے بس یہیں کے تھے اور یہیں اپنے لاکھوں محنت کشوں کو سوگوار چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ حالانکہ حکومت برطانیہ اور حکومت پاکستان بھی انھیں روس کا ایجنٹ کہتے رہے۔

مرزا ابراہیم 1905 میں پنجاب کے فوجی چھاؤنیوں کے علاقے جہلم کے قریب ایک گاؤں کالاگجراں میں مرزا عبداللہ کے گھر پیدا ہوئے اسی گاؤں میں ہندوستان کے ایک وزیر اعظم اندر کمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اروڑا بھی پیدا ہوئے ۔

عموماً مرزا ابراہیم جلسوں میں کہا کرتے تھے میں اس علاقے میں پیدا ہوا ہوں جہاں مائیں فوجی جوان پیدا کرتی ہیں وہاں میں ایک باغی بھی پیدا ہوا ہوں۔ مرزا ابراہیم کے والد مرزا عبداللہ ایک بے زمین کسان تھے ان کے بڑے بھائی مرزا اللہ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اردو اخبار روشنی نکالا کرتے تھے۔

ان کی ایک بہن عائشہ تھی جن کا 2001 میں انتقال ہوا ان کا ایک بیٹا سیف بیگ اور ایک بیٹی جس کا نام قمر ہے جو جہلم میں اسکول ٹیچر ریٹائر ہوئیں ، دونوں بھائی بہن بقید حیات کالاگجراں میں مقیم ہیں۔

مرزا ابراہیم مدرسہ تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے، انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی بھٹہ مزدور اور پھر ریلوے میں برج ورکشاپ جہلم سے بطور معاون ہیلپر سے کیا۔ انھوں نے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز خلافت موومنٹ سے کیا جو اس وقت برطانوی سامراج کے خلاف تھی اور پورے برصغیر میں تھی اور 1920-21 میں زوروں پر تھی جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کر رہے تھے وہ 1926 میں برج ورکشاپ جہلم میں ملازم ہوگئے وہیں سے انھوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کردیا۔ 1910-11 میں ہندوستان نارتھ ویسٹرن ریلوے میں خودرو ہڑتالیں ہو رہی تھیں۔

1920 میں ریلوے میں یونین بن گئی تھی اور پھر 1926 میں پہلا ٹریڈ یونین ایکٹ بنا۔ مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے جہلم سے تبادلہ کرکے کیرج شاپ مغل پورہ لاہور بھیج دیا گیا اور وہ 1923 میں لاہور آگئے جہاں وہ ساری عمر رہے۔

اور بعد ازاں اپنے گاؤں چلے گئے اس وقت ریلوے میں 2 یونین تھیں جن میں (نارتھ ویسٹرن ریلوے) NWR یونین میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کردیا وہ اس یونین مغلپورہ ورکشاپس کے صدر مقرر ہوئے جس کا مرکزی صدر جے۔بی ملر J.B Milr ایک انگریز تھا۔ مرزا صاحب نے بڑھ چڑھ کر یونین میں حصہ لیا وہ بہترین مقرر تھے بعدازاں ان کا رابطہ ایک طالب جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا۔ جے گوپال بھیس بدل کر ریلوے یونین میں کام کرتا تھا اور مرزا ابراہیم کے ساتھ تھا۔

مرزا ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی نے اسٹڈی سرکل میں خوب پڑھایا، سرمایہ کیا ہے۔ سامراج کیا ہے، محنت کیا ہے، سرمایہ داری کیا ہے، مذہب کیا ہے، سرپلس ویلیو کیا ہے۔ طبقات کیا ہیں اور کس طرح مزدور طبقہ جدوجہد کرکے اقتدار پر قبضہ کرسکتا ہے۔

1917 میں روس میں انقلاب آچکا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے بعد میں پارٹی نے کانگریس سے مل کر ریلوے میں ریلوے مین فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی جس کے بانیوں میں شامل تھے اور فیڈریشن کے سینئر نائب صدر مقرر ہوئے جب کہ صدر وی ۔وی گری (V.V Gire) بنے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بھی بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ان کو فارغ کردیا جائے جس کے خلاف ریلوے مین فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔

فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی۔ یکم مئی 1946 یوم مئی کے موقعے پر زبردست احتجاجی جلسے کیے۔ اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین سے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سربراہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔ چونکہ پورے ہندوستان میں بغاوت تھی اس لیے حکمرانوں کو فیڈریشن کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنے پڑے اور اس طرح ڈیڑھ لاکھ(ایک لاکھ پچاس ہزار) مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے۔

اور حکومت کو 9 تا 10 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں مزدوروں کو دینے پڑے اس طرح یہ تاریخ ساز ہڑتال ختم ہوسکی۔ مگر اس کی پاداش میں مرزا ابراہیم کو تقسیم سے 5 ماہ قبل مارچ 1947 میں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اس وقت ان کی ملازمت کو 23 سال ہوچکے تھے اور وہ وائرمین کے عہدے پر فائز تھے۔ حکومت اور ریلوے انتظامیہ نے ان کو کوئی معاوضہ نہ دیا یہ ایک مزدور رہنما کی بڑی قربانی تھی۔

ملک کی تقسیم کے بعد وہ پارٹی اور فیڈریشن کے کل وقتی کارکن بن گئے اور انھوں نے پاکستان کی پہلی مزدور فیڈریشن کی بنیاد 1948 میں رکھی جس کا نام پاکستان ٹریڈ فیڈریشن رکھا جس کے وہ بانی صدر مقرر ہوئے۔ فیڈریشن میں ان کے ساتھ فیض احمد فیض، سی۔آر اسلم، ایرک سپرین، سردار شوکت علی، سوبھوگیان چندانی بھی شریک تھے جب کہ جنرل سیکریٹری ایم۔اے مالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر بھی بنے اس طرح یہ پہلی مزدور فیڈریشن تھی۔

مرزا ابراہیم نے برصغیر کے کئی ایک بڑے بڑے نامور سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں اور کام بھی کیا۔ جن میں موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی،مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی سمیت کئی رہنما شامل تھے۔

جن کے ساتھ جیل کاٹی اور کام کیا ان میں سجاد ظہیر، حسن ناصر، دادا امیر حیدر، فیروز الدین منصور، محمود الحق عثمانی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، سی آر اسلم، انیس ہاشمی، سوبھوگیان چندانی، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر، سردار شوکت علی، میجر محمد اسحاق، افضل بنگش، غلام نبی کلو، عابد حسن منٹو، کنیز فاطمہ، احمد الطاف، کیپٹن ظفر اللہ یونس، محمد حسین عطا، طفیل عباس، چوہدری فتح محمد، حیدر بخش جتوئی سمیت کئی ایک رہنما شامل تھے۔

تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی۔ اس موقعے پر لیاقت علی خان نے ان سے کہا کہ اب پاکستان بن گیا ہے جس کی حمایت کمیونسٹ پارٹی نے بھی کی ہے آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں انھیں وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا۔ انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور یوں ان کا ٹکراؤ پہلی مرتبہ حکومت سے ہوگیا۔ پھر انھیں دسمبر 1947 میں گرفتار کرلیا گیا اور وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بن گئے۔

انھیں شاہی قلعہ میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز کردیں۔ انھیں 1949 میں گرفتار کرلیا گیا۔ پھر 1951 میں گرفتار کرلیے گئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے جن کے مقابلے پر پاکستان مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی تھے۔

اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے محنت کش عوام میں بڑا جوش و خروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے ان کی کامیابی کا اعلان بھی کیا گیا۔ بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے امیدوار احمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دیا گیا۔ مرزا ابراہیم کے ڈھائی ہزار ووٹوں کو رد کردیا گیا۔ یوں ملک میں پہلی مرتبہ جھرلو الیکشن انتخابی دھاندلی کی بنیاد رکھی گئی۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن پر پابندی لگا کر ایک مرتبہ پھر انھیں گرفتار کرلیا گیا۔

مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم 17 مرتبہ جیل گئے اور 6 مرتبہ قلعے میں نظربند کیا گیا ہر مرتبہ سی کلاس کے قیدی رہے۔ اس دوران ان کی ملاقات حسن ناصر سے بھی ہوتی رہی جنھیں بعد میں ایوب خان کے مارشل لا دور میں تشدد کرکے شہید کردیا گیا۔ انھوں نے 1967 میں ملک گیر ریلوے ہڑتال کروائی 13 دن ریل گاڑیاں بند رہیں اور ایوب خان نے جانے کا ارادہ کرلیا۔ 1970 میں حکومت نے الیکشن کرائے۔ مرزا ابراہیم کو بھٹو صاحب نے پیشکش کی کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں مگر انھوں نے انکار کردیا۔

غرض یہ کہ مرزا صاحب ایک عظیم انسان اور سیاسی مزدور رہنما تھے۔ مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999 میں سوگوار کرگیا۔ ان کی کٹھن اور مشکل زندگی کو سرخ سلام۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔