ہدایتکار شوکت ہاشمی عروج و زوال کے ہمسفر
اکثر ہانٹ (Haunt) کرتا ہوا ہونٹوں پر آجاتا ہے اور اس گیت کو سنکر بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں
آج کے دور میں دہشت، وحشت، بے حسی، بے بسی اور مجبور زندگی کو دیکھتے ہوئے اور پاکستان کے موجودہ سلگتے ہوئے حالات کے پس منظر میں ایک پرانے گلوکار سلیم رضا کا گایا ہوا ایک معنی خیز اورپرسوزگیت
زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ
اکثر ہانٹ (Haunt) کرتا ہوا ہونٹوں پر آجاتا ہے اور اس گیت کو سنکر بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، یہ گیت فلم ''ہمسفر'' میں سلیم رضا کے علاوہ ناہید نیازی نے بھی گایا تھا۔ فلم کے موسیقار مصلح الدین تھے اور یہ گیت شاعر تنویر نقوی کا لکھا ہوا تھا۔ یہ فلم مشرقی پاکستان میں بنائی گئی تھی اور اس فلم کے ہدایتکار شوکت ہاشمی تھے، جو ڈھاکہ آنے سے پہلے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے اور وہ وہاں فلمی صحافت سے وابستہ ہوتے ہوئے فلمی دنیا میں فلم نویس کی حیثیت سے داخل ہوئے،کئی کامیاب فلموں کی کہانیاں لکھیں اورکئی آرٹسٹوں کو فلمی دنیا سے متعارف بھی کرایا تھا۔ مصنف وہدایت کار شوکت ہاشمی سے میری ملاقات کراچی میں ان دنوں ہوئی تھی ،جب میں ہفت روزہ ' نگار' کراچی کے ادارہ تحریر میں شامل تھا۔
شوکت ہاشمی سیاسی اخبارات میں بھی لکھتے تھے اور فلمی صحافت سے بھی وابستہ تھے، کچھ عرصہ انھوں نے ہفت روزہ ''نور جہاں'' میں بھی کام کیا اورکچھ مضامین نگار ویکلی کے لیے بھی تحریر کرتے رہے ان سے میری جب بھی ملاقات ہوتی تھی وہ میرے اصرار پر بمبئی کی فلمی نگریا کی باتیں بتایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ بڑے موڈ میں تھے تو انھوں نے اپنی ذاتی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی اور اس دوران انھوں نے بڑی دلچسپ باتیں بتائیں، وہ بمبئی کے کئی فلمساز اداروں کے لیے کام کررہے تھے ، کسی پروڈکشن کے لیے کہانی لکھی تو مکالمے کسی اور رائٹر نے لکھے اور کسی فلم کی کہانی کسی غیر معروف رائٹر کی ہوتی تھی تو وہ اس کے مکالمے اور منظر نامے بھی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح فلمی دنیا میں ان کی بڑی بات تھی، یہ فلم کے سیٹ پر بڑے بڑے آرٹسٹوں کو مکالمے یاد بھی کراتے تھے اور مکالموں کی درست ادائیگی بھی بتاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بڑے فلمساز، ہدایت کار اور آرٹسٹ ان کا احترام کرتے تھے۔
یہ قصہ انھی دنوں کا ہے جب یہ ورما فلم پروڈکشنز سے وابستہ تھے، اس کی ایک فلم ''بادل'' سیٹ پر آنے والی تھی۔ بادل کے فلمساز بھگوان داس ورما نے فلم کے لیے مدھوبالا کے ساتھ پریم ناتھ کو ہیرو کاسٹ کیا تھا، پریم ناتھ ایک ولن ٹائپ فیس تھا مگر فلمساز کو مدھو بالا کے بعد کسی مہنگے ہیروکی ضرورت نہیں تھی۔ ہاں وہ ایک اور خوبصورت لڑکی کی تلاش میں تھے جو مدھو بالا کے ساتھ سائیڈ کیریکٹر ادا کرے، ان دنوں بمبئی میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آرٹسٹ بننے کے چکر میں اسٹوڈیوز آتے رہتے تھے،اسی دوران ایک خوبصورت لڑکی پورنیما ایک دن اسٹوڈیو میں شوکت ہاشمی صاحب کو نظر آئی۔ شوکت صاحب نے اسے بتایاکہ وہ فلم رائٹر ہیں اور اگر اسے فلموں میں کام کرنے کا شوق ہے تو وہ ایک شرط پر ان کے کہنے پر ایک بڑی کاسٹ کی فلم میں کام کرسکتی ہے۔ پھر اس لڑکی کو شوکت ہاشمی نے اس طرح شیشے میں اتارا کہ وہ لڑکی شوکت ہاشمی سے شادی کرنے پر راضی ہوگئی۔
شوکت ہاشمی نے پہلے اس لڑکی کو اپنی بیوی بنایا اور پھر فلم ''بادل'' میں اس کی سفارش کرکے اسے سائیڈ ہیروئن کا کردار دلوا دیا۔ لڑکی غیر معمولی طورپر بہت ہی خوبصورت تھی، فلم پروڈکشن میں یہ بات کسی کو پتہ نہیں تھی کہ شوکت ہاشمی نے اس لڑکی سے شادی کرلی ہے اور نہ ہی یہ راز شوکت نے کسی پر افشاں کیا تھا۔ پورنیما کو ''بادل'' میں کاسٹ کرلیاگیا اور فلمساز نے اس پر ایک مہربانی یہ بھی کی کہ فلم کا ایک زبردست گیت بھی اس پر قلمبند کیا گیا، جس گیت نے فلم کی نمائش کے بعد بڑی مقبولیت حاصل کی تھی۔ وہ گیت لکھا تھا شاعرشیلیندرا نے اور موسیقی سے اسے شنکر جے کشن نے سنوارا تھا، میلوڈی کے ساتھ گیت کے بول بھی خوبصورت اور بڑے پر اثر تھے۔
انمول پیار بن مول بکے اس دنیا کے بازار میں
انسان اور ایمان بکے اس کے بازار میں
کتنے ہی سنساراجڑجاتے ہیں اس سنسار میں
اس دنیا کے بازار میں
اور اس گیت کو لتا منگیشکر کی سریلی آواز نے اور چار چاند لگادیے تھے، اور جب یہ گیت پورنیما پر عکس بند کیا گیا تھا تو پورنیما کا حسن اور زیادہ نکھر کر آیا تھا، فلم کی نمائش سے پہلے ہی اس گیت اور اداکارہ پورنیما کے حسن کے چرچے ساری بمبئی فلم انڈسٹری میں عام ہوگئے تھے، فلم ''بادل'' کے ہدایت کارامیہ چکرورتی تھے، یہ فلم 1950 میں ریلیز ہوئی تھی اور اپنے اسی ایک گیت کی بدولت کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی، مدھو بالا کا تو اپنا مقام اور نام تھا، فلم خوب چلی مگر مدھو بالا کے بعد پورنیما کی اداکاری کی بھی بڑی تعریف کی گئی تھی، فلم ''بادل'' کے ہٹ ہوتے ہی اداکارہ پورنیما نے پرپرزے نکالنے شروع کیے اور سب سے پہلا وار شوکت ہاشمی پر کیا۔ کیونکہ یہ خفیہ شادی تھی اس بات کا بھی پورنیما نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور شوکت ہاشمی سے پہلی فرصت میں علیحدگی اختیارکرلی اور چند ماہ بعد ہی پورنیما شوکت ہاشمی کو داغ مفارقت دے گئی اور شوکت ہاشمی ہاتھ ملتے رہ گئے، ایک طرف ایک غریب رائٹر تھا اور دوسری طرف کئی کروڑ پتی فلمسازوں کی نظریں اس پر لگی تھیں اور پھر وہ سونے کی چڑیا شوکت ہاشمی کے پنجرے سے پھر سے اڑ گئی تھی اس حادثے سے شوکت ہاشمی بڑے دل گرفتہ ہوئے اور اسی صدمے سے خود کو نکالنے کے لیے انھوں نے ایک ناول لکھا جس کا عنوان تھا ''نیما جو بک گئی'' جب وہ ناول مارکیٹ میں آیا تو اسے بڑی پزیرائی حاصل ہوئی اور پھر لوگوں کو شوکت ہاشمی کی محرومی کا اندازہ ہوا۔
اس صدمے کے بعد شوکت ہاشمی بمبئی کی فلم نگری سے بھی دل برداشتہ ہوگئے تھے، اب ان کا دل کسی طرح بھی بمبئی میں نہیں لگ رہا تھا اور آخر کار وہ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آگئے اور پہلے وہ مشرقی پاکستان آئے اور ڈھاکہ میں سکونت اختیار کی، ڈھاکہ میں ایک فلمساز کے ساتھ دوستی کی اور پھر ڈھاکہ فلم انڈسٹری میں اپنا فلمی کیریئر بنانے میں مصروف ہوگئے۔ یہ 1960 کا زمانہ تھا، اسی دوران انھیں ایک چھوٹا سا سرمایہ کار میسر آگیا جو فلم بنانا چاہتا تھا، شوکت ہاشمی نے اس کے ساتھ مل کر فلم ''ہمسفر'' کا آغاز کیا اس زمانے میں مغربی پاکستان سے بھی آرٹسٹ مشرقی پاکستان کی فلموں میں کاسٹ کیے جاتے تھے۔ شوکت ہاشمی نے ایک کم بجٹ کی فلم کے حساب سے اداکارہ یاسمین کے ساتھ اسلم پرویز، نگہت سلطانہ اور ایک نے آرٹسٹ اسد کو بھی کاسٹ کیا۔ یہ وہی اسد جعفری فلمی صحافی تھے جو شروع میں ڈھاکہ میں تھے، صحافی بھی تھے اور فلم میں کام کرنے کا انھیں بڑا شوق تھا اس کی پی آر ڈھاکہ میں بھی بہت اچھی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ فلم کا سب سے اہم گیت فلم میں نئے اداکار اسد جعفری پر عکس بند کیا گیا تھا۔ جو اپنے دورکا مقبول ترین گیت بن کر منظر عام پر آیا تھا۔
زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ
اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے نہ
''ہمسفر''کم سرمائے سے بنائی گئی تھی، پھر فلم کا ٹیمپو بھی بڑا سست تھا، فلم ریلیز ہوتے ہی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں جگہ بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، جب نگہت سلطانہ اور اسد جعفری کو ڈھاکہ میں کوئی کامیابی نہ مل سکی تو یہ دونوں کراچی آگئے۔ مگر نگہت سلطانہ کراچی میں بھی اپنا کوئی مقام نہ بناسکی اور اسد جعفری بطور فلمی صحافی کراچی میں ایک اردو روزنامہ سے منسلک ہوگئے۔ شوکت ہاشمی بھی ڈھاکہ کی فلمی دنیا سے مایوس ہوکرکراچی آئے جہاں ان کی ملاقات فلمساز قدیر خان سے ہوئی، قدیر خان ان کی بمبئی کی شہرت سے واقف تھے۔ انھوں نے اپنی ایک فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' کی ڈائریکشن انھیں سونپ دی، فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' بھی بری طرح فلاپ ہوئی پھر شوکت ہاشمی قسمت آزمانے کے لیے لاہور چلے گئے مگر لاہور کی فلمی دنیا میں بھی انھیں کسی طرح اپنے قدم جمانے کا موقع نہ مل سکا۔
اپنی ذات میں یہ خوشامد پسند بھی نہیں تھے اور کہانی سنانے میں وہ چرب زبانی بھی ان کو نہیں آتی تھی جو لاہور کے فلم رائٹرز کی خصوصیت تھی۔ جب لاہور میں کسی نے انھیں بحیثیت کہانی نویس بھی نہ پوچھا تو وہ حسرت ناکام لے کر دوبارہ کراچی آگئے، کراچی میں ہفت روزہ فلمی اخبار نور جہاں میں لکھنے لگے مگر فلمی صحافی کی آمدنی ان دنوں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہوتی تھی پھر ناکامی نے ان کا کہیں بھی پیچھا نہیں چھوڑا اور شوکت ہاشمی نا امیدی کی رہگزر کے مسافر بنتے چلے گئے اور آخری وقت تک ان کی فلم ''ہمسفر'' کا یہی گیت:
زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ
ان کے ساتھ سایا بن کر سفرکرتا رہا