نجات کا ایک ہی راستہ

ان سامراجی مداخلت سے نجات کا ایک راستہ ہے کہ اس طبقاتی نظام کو ختم کرکےغیر طبقاتی سماج کے قیام میں تبدیل کر دیا جائے۔


Zuber Rehman August 16, 2015
[email protected]

طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کی ہلاکت پر ایک جماعت کے سابق امیر نے انھیں شہیدکہا تھا۔ جس پر سیاسی، مذہبی، سوشل میڈیا، اسمبلی ارکان، فوجی جنرلوں اور دانشوروں نے شدید احتجاج کیا۔ اس لیے کہ بیت اللہ محسود طالبان کمانڈر تھا، ہزاروں بچوں، شہریوں اور بے گناہ انسانوں کے قتل میں شریک رہا۔ ساڑھے چار سو اسکولوں کو بم سے اڑایا۔ اب اسی طالبان کے سربراہ ملا عمر کے مرنے پر اسلام آباد میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی گئی، اس نماز جنا زہ کا اہتمام جماعت الدعودہ نے کیا تھا۔ نمازجنازہ میں جماعت الدعوۃ سیاسی شعبے کے سربراہ حافظ عبدالرحمن، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمیدگل اور جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم نے شرکت کی۔

اس کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سندھ کے امیر علامہ احمد میاں حمادی اور تنظیم تحفظ ناموس خاتم الانبیاء پاکستان کے سربراہ مفتی محمد طاہر نے ملا عمر کو امیر المومنین کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ان سے تمام مسلمانوں کو محبت ان کی خدمات اسلام اور اسلامی ریاست کے قیام سے ہوئی۔ اب ذرا اس کا جائزہ لیں کہ اسلام کی کیوں کر خدمت کی۔ جب افغانستان میں امریکی سامراج مخالف ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت تھی تو وہاں سے جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور یہ کام نور محمد ترکئی کے دور سے شروع ہو چکا تھا۔

ترکئی نے ولورکا نظام یعنی شادی کے وقت لڑکی والے، لڑکے وا لوں سے بھاری رقوم وصول کرتے تھے، اسے ختم کر دیا۔ قرضوں پر سود وصول کرنے کے نظام کو نہ صرف ختم کیا بلکہ قرضہ بھی واپس نہ کرنے کے احکام جاری کیے۔ تیس جریپ سے زیادہ زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دی۔ افیون کی کاشت پر پابندی لگا دی۔ شرح تعلیم چالیس فیصد پر آگئی تھی۔ یہ عوام دوست اور سامراج مخالف اقدامات عالمی برادری (سامراج) کو ایک نظر نہیں بھا رہے تھے۔ انھوں نے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر کے ڈالرجہاد شروع کیا۔ پاک افغان سرحد پر ایک سو پانچ مسلح تربیتی کیمپز قائم کیے جہاں فرانس، جرمنی، امریکا، بیلجم، ہالینڈ، برطانیہ، اسرائیل، آسٹریا، اسپین اور اٹلی کے انسٹریکٹرز نے نام نہاد افغان مجاہدین کو اسلحہ چلانے کی تربیت دی۔ بعدازاں جب افغانستان پر مذہبی جماعتوں نے قبضہ کر لیا تو یہ آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔

پاکستان کے بعض مدارس سے طالبان (طلبہ) کو گلے میں قرآن اور ہاتھ میں سفید جھنڈا پکڑا کر افغانستان میں داخل کیا گیا اور ان سرگرمیوں کا خازن ایک دوسری مذہبی جماعت کو بنایا گیا ۔ امریکی سی آئی اے اس لیے انھیں فنڈنگ کرتی رہی کہ افغانستان کی سامراج مخالف اور عوام دوست حکومت کا خاتمہ کر کے سامراج نواز حکومت قائم کی جائے۔ بہرحال طالبان جب افغانستان میں پاکستانی سرحد سے داخل ہوئے تو وہ بقول ان کے کہ' ہم صلح کرانے جا رہے ہیں' جب کہ وہاں جا کر خود افغانستان پر قبضہ کر لیا اور مذہبی انتہا پسندی اور قتل غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ یہ سارے عوامل جنرل ضیاالحق کے دور میں عروج پا گئے۔ پاکستان کے عوام ہیروئن اور کلاشنکوف کے نام سے بھی ناواقف تھے۔ بعد میں یہی پاکستان کا کلچر بنا۔ یہی طالبان اب تک ہزاروں معصوم پاکستانی عوام اور فوجی سپاہیوں کا قتل عام کر چکے ہیں۔ ساڑھے چار سو اسکولوں کو دھماکے سے اڑایا، پولیو ورکرز کو قتل کیا، مزاحمت کرنے والوں کو ذبح کیا۔ جب کہ ان کا سرغنہ بیت اللہ محسود جب مارا گیا تو اس کے گھر سنگ مر مر کے بنے ہو ئے نکلے، جہاں سیب اور انگور کے باغات اور چار بیویاں تھیں، ملا عمر کی بھی تین بیویاں تھیں۔

اس نے افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ایک مذہبی رہنما نے نوشہرہ میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں افغانستان کی تحریک طالبان اور امارت اسلامیہ پاکستان افغانستان کے امیر ملا اختر منصور کی مکمل حمایت اور تائید کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن دہشت گرد طالبان کے خلاف فوج لڑرہی ہے، پاکستان کی سرزمین سے انھیں کی سرپرستی بعض مذہبی سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ اگر ان دہشت گردوں کے سرغنوں کے مرنے پر کوئی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت کرتا ہے یا ان کے نو منتخب امیر کی تائید کرتا ہے تو وہ بھی اس دہشت گردی کا باالواسطہ ساتھی ہے۔ ان دہشت گردوں کی سیاسی پناہ گاہ سے حمایت اور معاونت حاصل کیے بغیر یہ کبھی بھی پنپ نہیں سکتے۔ درحقیقت عالمی سامراج کے مفاد میں جو کچھ ہوتا ہے، سامراجی آلہ کار اسی پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ پہلے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کامریڈ نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان سے ڈالر جہاد کروائے۔ جب افغانستان کی سامراج مخالف حکومت (سوشلسٹ حکومت) کا خاتمہ ہوا تو یہی امریکا حامد کرزئی اور بعد ازاں اشرف غنی کو صدر بنا کر مسند اقتدار پر بیٹھا دیا۔

انگریزی میں ایک کہاوت ہے' لو اینڈ ہیٹ'Love & Hate یعنی محبت اور نفرت۔ یہ کہاوت طالبان پر درست طور پر صادق آتی ہے۔ کبھی طالبان کو افغانستان بھیجا جاتا ہے، توکبھی فاٹا اور وزیرستان میں برسوں مسلح تربیت کرنے کی چھوٹ اور لوازمات فراہم کیے جاتے ہیں۔ پھر ان پر چڑھائی کی جاتی ہے، پھرکبھی قطر اورکبھی اسلام آباد میں امریکا، چین، پاکستان اور قطرکی معاونت سے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کروائے جاتے ہیں، پھر مذاکرات ناکام بھی کروادیے جاتے ہیں۔ طالبان کے بھی درجنوں دھڑے موجود ہیں جن میں قطر نواز، ہندوستان نواز، پاکستان نواز، چین نواز، امریکا نواز، ایران نواز اور سعودی نواز ہیں۔ ان دھڑے بندیوں اور غیر ملکی مفادات کی سبب پاکستان کو میدان جنگ بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں تیس لاکھ اور ایران میں بیس لاکھ افغان مہاجرین ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ آج پاکستان میں ہزاروں بچے، بوڑھے گلی کوچوں سے کچرے چنے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد میں ہزاروں گز پر رہائش پزیر اور لا کھوں روپے کے کتے پالنے والے افغان عیش سے زندگی گذار رہے ہیں جب کہ مٹی کے بنے ہوئے مکانوں، جنھیں گھروندے کہنا غلط نہ ہو گا کو بلڈوزر سے مسمارکیا جا رہا ہے۔

ان سارے سامراجی مداخلت، مظالم، فرقہ پرستی اور مذہبی انتہاپسندی سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس طبقاتی نظام کو ختم کر کے ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام میں تبدیل کر دیا جائے۔ جب تک جائیداد اور ملکیت کا وجود ہو گا تب تک چند لوگ ارب پتی بنتے جائیں گے اور دوسری جانب بے روزگاروں اور فاقہ کشوں کی فوج بڑھتی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں