19 اگست یوم استقلال افغانستان

ایران ،یونانیوں،عربوں، ترکوں، برطانیوں، روسیوں اور حالیہ امریکیوں نے ہی افغانستان کو تاراج کیا ہے


قادر خان August 18, 2015
[email protected]

افغانستان جس کے جنوب ومشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران ، شمال اور مشرق میں چین، شمال میں ترکمستان، ازبکستان اور تاجکستان واقع ہیں۔ افغانستان کی سرزمین ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، برطانیوں، روسیوں اور حالیہ امریکا کی جارحیت کا شکار رہی مگر افغانی قوم نے بیرونی طاقت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ درانی کے دور میں یہ ابھرا ، اگرچہ درانی سلطنت کے کافی حصے اردگرد ممالک کے حصے بن گئے۔

8اگست 1919ء میں امان اللہ خان نے انگریزوں کے صوبہ سرحد میں واقع لق ودق بے آب و گیا و چھوٹے سے شہر تھل پر قبضہ کرلیا ،1949ء میں پاکستان نے تھل ڈیولپمنٹ پروجیکٹ بنایا ، اس طرح امان اللہ خان کے قبضے کے تیس برس بعد آباد کاری شروع ہوئی۔ شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان آزاد ہوا ،جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن کر ابھرا ، مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ 19اگست 1922ء کا دن یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

جب کہ 22 نومبر1922ء کے دن افغانستان کی آزادی تسلیم کرکے ماہانہ سولہ ہزار روپیہ وظیفہ مقررکردیا جو موجودہ وقت کے مطابق ماہانہ چارکروڑ روپیہ سے زائد بنتا ہے۔ بعض پختون افغان قوم پرست امان اللہ خان جیسے انگریز دشمن غیور حکمران کے لیے وظیفے کے نام پروصول رقم پر اظہار ناراضگی کرتے ہیں کہ اگر امان اللہ خان اس رقم کو قبول نہ کرتا تو اچھا ہوتا ، بلکہ امیر یعقوب خان کے امیر بننے کے دن سے 21 فروری 1879ء سے21 نومبر 1921ء تک یعنی ساڑھے اکتالیس برس ۔

گو کہ19اگست کا دن افغانستان کے لیے انگریزوں سے آزادی کا دن قرار دیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی آزادی کا دن بدھ22فروری1708ء ہے یعنی جب میرویس غلزئی نے اسے ایران کے قبضے سے آزاد کرکے آزاد افغان کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان قوم کی مکمل تاریخ دیکھی جائے تو 1738ء سے آج تک غیر پائیدار ، نیم یا مکمل بیرونی جارحیت کی وجہ سے افغانستان کے کچھ حصوں پر بیرونی طاقتیں قابض رہ چکی ہیں۔ افغانستان عملی طور پرگزشتہ 36سال سے زائد مسلسل حالت جنگ میں ہے،افغانستان کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے ،کئی نسلیں تباہ ہوگئیں ۔

افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اپنی جغرافیائی حیثیت کے سبب وہ وسطی ایشیا ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان واقع ہے اسی وجہ سے جنگی لحاظ سے استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اپنا قبضہ جمانے کے لیے افغانستان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی تادیر تک اس مملکت پر قابض نہیں رہ سکا کیونکہ یہاں کی غیور قوم نے بیرونی طاقتوں کو کبھی مضبوط ہونے کا موقع نہیں دیا، نتیجے میں اس ملک کوکبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہوسکا ۔642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں کو ہی بنایا۔

پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی ،998ء میں محمودغزنوی ، جسے 1146ء میں غوریوں نے شکست دیکر غزنی تک محدود کردیا،یہ سب مسلمان تھے مگر1219ء میں چنگیز خان منگولوں نے افغانستان کو تاراج کیا ، ہرات،غزنی اور بلخ کو مکمل تباہ کردیا ، بعد میں منگول خود مسلمان ہوگئے حتٰی کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کرلی، اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دارالحکومت قرار دیا۔شمالی حصے پر ازبک، مغربی حصے پر ہرات سمیت ایرانی صفویوں اور مشرقی حصے پر مغل اور پشتون قابض رہے۔

1709میں پشتونوں نے میرویس خان ھوتک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتٰی کہ 1738میں قندھار اورغزنی پر بھی قبضہ کرلیا جو 1747 تک جاری رہا۔پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان ہیں۔امیر دوست محمد خان نے کابل کی حکومت1826ء میں سنبھال کر روس اور ایران سے تعلقات بڑھانا شروع کیے، کیونکہ پنجاب پر سکھ قابض ہوچکے تھے اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی مکاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر سکھوں اور دہلی کے شاہ شجاع کے ساتھ ملکر افغانستان میں سازشوں کے جال بُبنا شروع کردیے تھے۔

حالانکہ دونوں بظاہر انگریزوں کے دشمن تھے لیکن شاہ شجاع انگریزوں کی جانب سے کابل پر قبضے کے سبز باغ کے جھانسے میں آچکا تھا۔انگریز، روسیوں سے خائف تھا اس لیے اس نے افغانستان میں اپنا اثر قائم کرنے کے لیے مکارانہ سازش بنائی جیسے'' عظیم چالبازیوں'' (The Great Game)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں، پہلی جنگ 1842-1839)) اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ہرات کو لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے افواج پورے ملک میں روانہ کیں،انگریزوں نے کابل پر قبضہ کرکے دوست محمد خان کوگرفتارکرلیا، لیکن افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کدیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی جس میں داستان سنانے کے لیے صرف ایک فرد کو زندہ چھوڑا گیا ، انگریز مدتوں اس زخم کو چاٹتا رہا اور مجبوراََ انگریزوں نے دوست محمد کو رہا کردیا ، بعد میں دوست محمد خان نے ہرات کو بھی فتح کر لیا، دوسری جنگ 1880-1878 اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہیں دی ۔

اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ایما پر1880ء میں امیر عبدالرحمن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کرلیا مگر عملاََ حکومت کے خارجی معاملات انگریزوں کے پاس رہے۔اسی اثرکا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین کا معاہدہ کرلیا تاکہ افغان قوم منقسم ہوکر کمزور ہوجائے ، امیر عبدالرحمن کے بیٹے امیر حبیب اللہ افغانستان کے بادشاہ بنے،افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے،اثر بڑھا، اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور تسلیم کیا ۔ 1907ء میں امیرحبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ہند کا دورہ بھی کیا اور اس عمل کو سخت نا پسند کیا گیا اور امیر حبیب اللہ کو اس کے رشتے داروں نے20فروری1919 کو قتل کردیا،اس کے قتل کے بعد امیر امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر 19 اگست 1919کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا۔

جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور اختیار واپس کر دیا۔ اسی وجہ سے افغانستان کی یوم آزادی کا دن 19 اگست 1919 کے طور پر 2007ء میں یوم استقلال یا جشن کابل منایا گیا۔جس میں ایک بڑی سرکاری تقریب میں پاکستان کے صدر، وزیر اعظم،گورنر بلوچستان خیبر پختونخوا اوپر پختون قوم پرست رہنماؤں کے علاوہ افغان جرگہ کے 600 اراکین نے بھی شرکت تھی لیکن کیا واقعی یہ افغانستان کی آزادی کا دن ہے ، تاریخ افغان تو یہ ثابت نہیں کرتی ۔ ماضی کی سیکڑوں سال کی تاریخ میں جھانکنے کے بجائے اپنے حال پر ہی نظر ڈال لیتے ہیں کہ27 دسمبرسال 1979ء روسی جارحیت )ماسکو میں ببرک کارمل کا افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کا دن) کے اگلے ہی دن 85ہزار روسی افواج نے افغانوں کی آزادی ختم کردی اور بعد میں پندرہ لاکھ سے زائد افغان جاں بحق ہوئے۔

لاکھوں عورتیں بیوہ ، بچے یتیم اور لاکھوں جسمانی معذور اور ذہنی مریض بن گئے ، ستر لاکھ افغانی افغانستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے یا پھر 27دسمبر1996ء جب ملا محمد عمر نے افغانستان میں فرنگیوں کے نمایندوں کو قتل کرکے خلافت کی بنیاد رکھنے چاہی یا پھردنیا کے نزدیک مذہبی انتہا پسندوں کی خلافت ہونے کا دن جب16اپریل2001 ء امریکا نے افغانستان کی آزادی ختم کرکے حامد کرزئی کو 22 دسمبر2001ء میں اپنے نمایندے کی حیثیت سے افغانستان کا صدر بنا دیا۔

افغانستان حقیقی معنوں میں آزاد کب ہوا ،کب آزادی سلب ہوئی ،کب اس پر قبضہ ہوا اور پھر اس کی آزادی ہوئی،کیا اب بھی افغانستان آزاد ہے ، لیکن دسمبر کا مہینہ افغانستان کی تاریخ میں آزادی و جارحیت کا مہینہ ضرور ہے۔آج افغانستان، پاکستان کے لیے حامد کرزئی کی پالیسی دوبارہ اپنا رہا ہے۔ لیکن اس کا کیا فائدہ،افغانستان پر ہمیشہ بیرونی جارحیت ہوتی رہی ہے۔

ایران ،یونانیوں،عربوں، ترکوں، برطانیوں، روسیوں اور حالیہ امریکیوں نے ہی افغانستان کو تاراج کیا ہے ، پاکستان اپنی خارجہ پالیسی استعماری طاقتوں سے آزاد کرانے میں مصروف ہے اس مرحلے پر افغانستان کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی امریکا ، بھارت ، روس اور ایران کے افغانستان کے غلبے کی منصوبہ بندیوں سے آزاد ہوسکے۔پرامن افغانستان اور پر امن پاکستان کی حقیقی آزادی جب ہی کہلائی جائے گی جب بیرونی استعماری طاقتیں پاکستان اور افغانستان کو اپنی سازشی منصوبوں اور جارحیت سے بازآجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں