کیا پاکستان غریب ملک ہے
یہ سوال ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹر کا ہے کہ ’’کیا پاکستان ایک غریب ملک ہے
KARACHI:
یہ سوال ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹر کا ہے کہ ''کیا پاکستان ایک غریب ملک ہے؟'' اس کا کہنا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کی 97 ارب ڈالر کی رقم سوئس بینکس میں پڑی ہے جو کہ 30 سال کے لیے وطن عزیز کے ٹیکس فری بجٹ کے لیے کافی ہیں۔ 6 کروڑ پاکستانیوں کو روزگار دیا جا سکتا ہے، ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک 4 رویا سڑکیں بن سکتی ہیں۔
500 سے زیادہ پاور پراجیکٹس کے ذریعے ہمیشہ کے لیے فری بجلی دی جا سکتی ہے، ہر پاکستانی ماہانہ 20 ہزار روپے 60 سال تک لے سکتا ہے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کسی بھی قرض کی ضرورت نہیں ہے۔ قصہ یہ ہے کہ قائد اعظم محمد جناح کی رحلت، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت اور دیگر تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی یکے بعد دیگرے جدائی کے بعد پاکستان میں حکمرانی کے لیے نت نئے طریقے اپنائے گئے، کوئی محب وطن ٹھہرا تو کوئی غدار وطن قرار پایا، اس کھینچا تانی میں وطن عزیز دو لخت ہوا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ جو غریب تھے مزید فقیر ہو گئے، جو امیر تھے وہ کبیر بن گئے، دور آمریت میں جو کچھ ہوا سو ہوا جمہوریت کا سورج طلوع ہوا تو اس کے ثمرات سے کچلے ہوئے غریب عوام آج تک محروم ہیں۔
ملک ایٹمی طاقت بن گیا مگر غریب کی طاقت جواب دے گئی ہے، اس وقت ملک کے 7 کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تمام دورانیے میں حکمران خاندان قومی خزانے سے مستفیض ہوتے رہے ہیں، کوئی لکھ پتی تھا تو کروڑ پتی بن گیا جو کروڑ پتی تھے ارب پتی بن گئے۔ اب تو کھرب پتی بننے کا زمانہ ہے۔جب ہم پاکستان میں حکمران خاندانوں پر نظر کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں 1970ء سے اب تک 597 با اثر خاندان حکومت پر قابض چلے آ رہے ہیں، ان خاندانوں میں سے 379 کا تعلق پنجاب، 110 کا سندھ، 56 کے پی کے، 45 کا بلوچستان جب کہ 7 کا تعلق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے ہے۔
1970ء میں 3300 قومی صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشستوں پر 597 خاندانوں کے افراد براجمان تھے۔ 1977ء میں یہ شرح 37 فی صد، 1993ء میں 50 فی صد جب کہ جنوبی پنجاب میں اب یہ شرح 64 فی صد تک جا پہنچی ہے، ایک رپورٹ کیمطابق بلوچستان میں اب یہ شرح 44 فی صد، سندھ میں 41 فی صد، کراچی میں 9 فی صد، کے پی کے میں 28 فی صد اور فاٹا میں 18 فی صد تک جا پہنچی ہے، 1990ء کے نگراں وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کے 11 افراد مختلف اسمبلیوں میں رہے، 2008ء میں جتوئی کے 4 بیٹے ملک کے تینوں قانون ساز اداروں میں موجود تھے، با اثر سیاسی خاندانوں میں لغاری، کھوسہ، خان، سید، بگٹی، مرزا، چوہدری، مزاری، مروت، شریف، بھٹو اور دیگر خاندان شامل ہیں۔
مالی سال 2015-16ء کے لیے قومی اسمبلی کا بجٹ 2 ارب 99 کروڑ 70 ہزار اور سینیٹ کا بجٹ 1 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ قومی اسمبلی کی جانب سے مختص کیے گئے بجٹ میں ملازمین اور اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں اور دیگر ضروری اخراجات شامل ہیں۔ یہ سینیٹ اور اسمبلی کا استحقاق ہے کہ وہ اپنا بجٹ جہاں مرضی خرچ کریں۔ وزیر اعظم آفس کے اخراجات کا کل بجٹ 84 کروڑ 20 لاکھ رکھا گیا ہے۔
فی رکن قومی اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 30 ہزار روپے ہے۔ اس کے علاوہ ارکان اسمبلی یا قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو انھیں ساڑھے 4 ہزار روپے الاؤنس بھی ملتا ہے جب کہ ایئر لائن کا ٹکٹ بھی 10 روپے فی کلو میٹر کے حساب سے پٹرول کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ملکی و غیر ممالک میں علاج و معالجے کے نام پر اخراجات الگ ہیں، اب تک جتنے صدر مملکت اور وزرائے اعظم سبکدوش ہوئے ہیں۔
انھیں بھی مراعات حاصل ہیں یہ خرچہ بھی کروڑوں میں ہے۔ اس کے باوجود کون نہیں جانتا، ہمارے سابقہ، موجودہ حکمران کروڑ پتی، ارب پتی ہیں یہ مراعات یافتہ طبقہ قومی خزانے کو کیا دیتے ہیں، ملاحظہ کریں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ارکان پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری برائے سال 2014ء کے مطابق گزشتہ سال وزیر اعظم نواز شریف نے 26 لاکھ 11 ہزار، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 51 لاکھ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2 لاکھ 18 ہزار، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ایک لاکھ 95 ہزار ٹیکس ادا کیا جب کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے تاج آفریدی نے سب سے زیادہ 2 کروڑ 40 لاکھ ٹیکس ادا کر کے بازی لے گئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے 15 ہزار ٹیکس بھرا۔ رضا ربانی 6 لاکھ، ایاز صادق 3 لاکھ، فاروق نائیک 68 لاکھ، حمزہ شہباز 48 لاکھ، شاہ محمود 15 لاکھ، رحمان ملک نے 17 ہزار ٹیکس کی مد میں دیے۔ طلحہ محمود ایک کروڑ 42 لاکھ، اعتزاز ایک کروڑ 24 لاکھ، فروغ نسیم ایک کروڑ 6 لاکھ کے ساتھ نمایاں رہے، پرویز خٹک 6 لاکھ، قائم علی شاہ نے ایک لاکھ ٹیکس دیا، مالک بلوچ، سراج الحق، جھگڑا نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا، 129 ارکان نے گوشوارے جمع نہیں کرائے، آن لائن کیمطابق 1169 میں سے 1040 ارکان نے 30 جون 2014ء تک گوشوارے جمع کرائے۔مذکورہ بالا صورت حال کے تناظر میں کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور غریب عوام کے امیر لیڈر کس قدر ٹیکس دیتے ہیں وہ بھی واضح ہے۔
جب کہ غریب عوام قدم قدم پر ٹیکس دیتے ہیں یعنی ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں، صرف ایک سانس رہ گیا ہے جو اﷲ کے تابع ہے۔ ورنہ ہمارے حکمران اسے بھی ٹیکس کے دائرے میں لاتے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے مگر حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے مقروض ہے اور ان قرضوں کی بدولت ملک کی خود مختاری گروی ہے۔
ہم جغرافیائی لحاظ سے آزاد ہیں لیکن ذہنی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں۔ غلامی کی زنجیروں میں ہم اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ ہماری ہر چیز غیروں کی پالیسیوں کے تابع ہے۔ ہمارے لیڈران قوم غیر ممالک میں اجلاس کر کے قوم کو اس کی غلامی کا احساس دلاتے ہیں۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ جہاں ڈکٹیشن لی جاتی ہے، دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے اور ہم مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔
پاکستان مملکت خداداد ہے اس کی حفاظت کرنا ہر پاکستانی شہری کا فرض ہے۔ تحریک تکمیل پاکستان کی ضرورت ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار بند ہو جانا چاہیے۔ غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کو فلاحی ملک بنانا ہو گا۔ آئیے! تجدید عہد کرتے ہیں اپنے وطن عزیز کی ترقی و کامرانی کے لیے خود احتسابی پر عمل کریں گے۔