ادبی کانفرنس اور ایسے زمانے میں

زندہ رہنا چاہتے ہو تو خطروں کے بیچ گزر بسر کرنا سیکھو۔ اس مصرعہ کا مطلب اب ہماری سمجھ میں آیا ہے


Intezar Hussain October 18, 2012
[email protected]

یہ علامہ اقبال نے کہہ رکھا ہے کہ

اگر خواہی حیات اندر خطر ذی

زندہ رہنا چاہتے ہو تو خطروں کے بیچ گزر بسر کرنا سیکھو۔ اس مصرعہ کا مطلب اب ہماری سمجھ میں آیا ہے۔ شاعری برحق مگر شاعری میں ایسے نکتے چھپے ہوتے ہیں جنھیں شاعری کا نقاد بھی نہیں سمجھا پاتا۔ زمانہ انھیں سمجھاتا ہے۔ ہم کچھ ایسے ہی زمانے میں جی رہے ہیں۔ جس بڑے بحران سے پاکستان گزر رہا ہے وہ اتنا لمبا کھنچ گیا ہے کہ رفتہ رفتہ ہماری معمول کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ سو اب یوں ہے کہ تشدد کی لہر بھی چلتی رہتی ہے۔ احتجاجی جلوس بھی نکلتے رہتے ہیں۔ اردگرد بسیں اور موٹریں بھی چلتی رہتی ہیں۔ اور ہمارا کاروبار زندگی بھی چلتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ہم ادب اور آرٹ کے نام پر بڑی بڑی کانفرنسیں بھی کر ڈالتے ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ ان دنوں کیا حالات تھے۔ الحمراء آرٹ کونسل میں قومی ادبی و ثقافتی کانفرنس بھی ہو رہی تھی۔ مگر اس کی داد صرف زمانے کے معلم کو نہیں عطاء الحق قاسمی کو بھی دینی چاہیے۔ ان کے چیئرمین بننے کے بعد آرٹ کونسل کی جیسے کایا کلپ ہو گئی ہو۔ اپنی اس آرٹ کونسل کو ہم کب سے دیکھ رہے ہیں۔ اتنی سرگرم وہ کب ہوئی تھی۔ اور قومی پیمانے پر کانفرنس اس کا تو یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور پھر اس نئی چیئرمینی کے ساتھ ایک انقلاب اور آیا ہے کہ ادب اور آرٹ گلے مل گئے ہیں۔ سو یہ جو سہ روزہ کانفرنس اب ہوئی ہے یہ نہ محض فنون لطیفہ کی کانفرنس تھی نہ خالص ادبی کانفرنس تھی۔

یہ ادبی ثقافتی کانفرنس تھی جس میں ادب اور فنون لطیفہ دونوں کے معاملات و مسائل زیر غور آئے۔ اس سے بڑھ کر کلچر کے دوسرے گوشوں کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی گئی۔ صحافت بھی اس میں سمٹ آئی اور ایک دھوم کا سیشن میڈیا کے حوالے سے بھی ہو گیا۔

اور ہاں اسی کانفرنس کے حوالے سے آرٹ کونسل کی طرف سے قومی انعامات کا بھی اہتمام ہو گیا۔ اور ادیبوں فنکاروں کے لیے برابر برابر کی رقم مقرر ہوئی۔ ادب' مصوری' موسیقی' تھیٹر، ان چار شعبوں کے دو دو لاکھ کے انعامات طے ہوئے تھے۔ اس تیسری کانفرنس کے مبارک موقعے پر یوں ہوا کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف مہمان خصوصی کی حیثیت سے کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں شریک تھے۔ انھوں نے دو دو لاکھ کی رقم میں تین تین لاکھ کا اضافہ اپنی حکومت کی طرف سے کر دیا۔ لیجیے انعام یافتگان کی بھی عید ہو گئی اور وزیر اعلیٰ کی بھی جے جے ہو گئی۔

پھر اس کے لیے بقدر اشک بلبل داد عطاء الحق قاسمی کو بھی دینی چاہیے کہ وہ میاں شہباز شریف کو کسی نہ کسی صورت کھینچ کر اس کانفرنس میں لے آئے ورنہ اس وقت صورت یہ ہے کہ لاہور کی ادھڑی ہوئی سڑکوں کے بیچ جا بجا صرف ہماری کاریں' بسیں اور رکشائیں پھنسی ہوئی نہیں کھڑی ہیں۔ میاں صاحب بھی اس منصوبے میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ کسی دوسری طرف دیکھنے کی فرصت نہیں۔ مگر دھن کے پکے ہیں منصوبے کو پورا کر کے ہی دم لیں گے۔ اس منصوبے کی صورت بقول اقبال یہ ہے کہ

ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام

سو اس وقت لاہور کی سڑکیں تخریبِ تمام کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ مگر کوئی بات نہیں۔ جتنی اکھاڑ پچھاڑ ہونی تھی ہو لی اور جتنی خاک دھول اڑنی تھی اڑ لی۔ اب تو بس آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں وہ بھی سیندھ جائیں گی۔ پھر لاہور استنبول کو آنکھیں دکھائے گا۔ نئی بچھائی ہوئی راہ پر جوعجوبہ سواری دوڑے گی اس کا منصوبہ ترکی ہی سے تو میاں صاحب نے مستعار لیا ہے۔

خیر آمدم بر سر مطلب۔ ذکر ادبی ثقافتی کانفرنس کا ہو رہا تھا مگر جتنا بھی ذکر اب تک ہوا ہے اسے بس دیباچہ سمجھو۔ کانفرنس کا اصلی احوال تو اپنی جگہ لندھور بن سعدان کی داستان ہے۔ دنیائے ادب کا کیسا کیسا جری کانفرنس میں آیا بیٹھا تھا اور کیسے کیسے مباحث چھڑے ہوئے تھے۔ اس دریا کو اپنے کالم کے کوزے میں کیسے بند کر دیں۔ ارے ہاں پہلوانان ادب کا ذکر کیا تو ایک نام یہاں عجب نظر آیا۔ ڈاکٹر مرحب قاسمی۔ جب انھیں دیکھا تو حیرانی اور بڑھی۔ وہ تو ایک نرم و نازک خاتون نکلیں۔ ہم نے بیساختہ کہا کہ آپ کے نام پر مرحبا کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ہمارے اشارے' کو انھوں نے سمجھا اور کہا کہ تعجب نہ کیجیے۔ میں نے نام کو الٹا کر دیا ہے۔ ہم نے کہا کہ اچھا کیا۔ ذوالفقار نے مرحب کو دونیم کیا تھا۔ آپ نے اس کی کایا کلپ کر دی۔ ہاں کانفرنس کا قصہ طولانی ہے۔

سیشنوں کا ایک پورا سلسلہ۔ اور ہر سیشن میں بولنے اور بحث کرنے والے ادیب اور فنکار قطار اندر قطار اور عنوانات لمبے لمبے۔ بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کا مسئلہ۔ ابصار عبدالعلی نے بے اعتنائی برتنے والوں میں ان لکھنے والوں کو شمار کیا جنہوں نے نظمیں یا نثر میں اکا دکا کہانی یا سبق لکھا اور پھر آگے گزر گئے۔ جیسے علامہ اقبال بچوں کی کیا دعا لکھ گئے ہیں کہ اسماعیل میرٹھی بھی اس پر رشک کریں۔ مگر ابصار صاحب نے سب سے اچھی بات یہ کہی کہ بچوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ پھر وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔

مطلب یہ نکلا کہ بچے خود اپنے بچپن سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ آخر یہ بچے اتنی جلدی بڑے کیوں ہو جاتے ہیں۔ اور پھر بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم بھی بچے تھے۔ مگر فاطمہ حسن کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے۔ ماشاء اللہ سے ابھی تک بچپن والا شوق برقرار ہے۔ آصف فرخی کہہ رہے تھے کہ اس بی بی کا مضمون دو مرتبہ سننا پڑا۔ پہلے تو کانفرنس میں آتے آتے بس میں بیٹھے بیٹھے انھوں نے پورا مضمون سنا ڈالا۔ ہم نے کہا کہ ارے یہ تو بچیوں والا شوق ہے۔ اس پر تو بچی کو داد دینی چاہیے۔

کانفرنسوں میں ایک گڑبڑ اور ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ ہر سیشن میں وقت محدود ہوتا ہے اور بولنے والے جو داستان شروع کرتے ہیں وہ لامحدود ہوتی ہے۔ اور ہر بولنے والے کا اصرار ہوتا ہے کہ میں اپنی ساری داستان سنا کر دم لوں گا۔ ارے بھئی مضمون اگر لمبا ہے تو پھر ایسا ہو جیسا ڈاکٹر شاہ محمد مری کا تھا کہ باتیں بھی سننے کے لائق اور بیان بھی لذیذ۔ سننے والوں نے کس شوق سے اور کس انہماک سے سنا۔ بلوچی ادب کی روایت سے اچھی خاصی شناسائی بھی ہو گئی اور بیان سے سننے والوں نے لطف بھی اٹھایا۔ اپنے ہم عصر منیر بادینی صاحب کے متعلق کیا خوب سنایا کہ بلوچی میں سو ناول لکھے گئے ہیں۔

ان سو میں سے چھیانوے بادینی صاحب نے لکھے ہیں۔ مگر ابھی وہ بک شیلف میں سجے رکھے ہیں اور اپنے قاری کا انتظار کر رہے ہیں کہ ابھی وہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ ہم نے بادینی صاحب سے کہا کہ آپ نے اپنے کام کو اردو میں یا انگریزی میں ترجمہ کرایا ہوتا۔ ممکن ہے وہاں کچھ قاری ان ناولوں کے انتظار میں ہوں۔ بولے، اب ترجمہ ہو رہے ہیں۔

اور ہاں نورالہدیٰ شاہ سندھی کی نامور ادیبہ ویسے اردو میں بھی رواں ہیں۔ کہہ رہی تھیں کہ جب میں اپنی سندھی میں لکھتی ہوں تو چھوٹی لگتی ہوں۔ اردو لکھنے والی کی حیثیت سے تعارف کرایا جاتا ہے تو میرا قد بڑھ جاتا ہے۔ گویا در پردہ پوچھ رہی تھیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ پھر کہنے لگیں کہ ہم اہل زبان تو بن گئے، ہمزبان نہ بن سکے۔ مطلب یہ کہ جلی کٹی سنانے کے لیے بھی ادیب کے پاس کچھ سلیقہ ہونا چاہیے۔ اور ہاں شعلہ فشاں انقلابی دانشوروں کے زمانے کی یادگار سعادت سعید۔ اب بھی اسی شعلہ فشانی کے ساتھ اپنی تقریر کرتے ہیں۔ ہر مرتبہ اسی جوش کے ساتھ کہ اس میں قند ِمکرر کا مزہ آتا ہے۔

گویا اس کانفرنس میں ہر رنگ کا دانہ اور ہر نقطۂ نظر والا ادیب موجود تھا۔ اور پھر مختلف علاقوں اور مختلف پاکستانی زبانوں کے ادیب بھی تھے۔ گویا صحیح معنوں میں قومی کانفرنس تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں