دار چینی کا جزیرہ آخری حصہ

پانی کا بہترین نظام اور بجلی کی فراوانی ان کی دانشمندانہ حکومت عملیوں کا نتیجہ ہے


Shabnam Gul August 20, 2015
[email protected]

مدوگنگا جھیل کی لہروں میں آسمان کے حسین رنگ رقصاں تھے۔ بالاپتیا، سری لنکا کے جنوبی صوبے گالے ڈسٹرکٹ میں واقع یہ خوبصورت ساحلی جھیل، ہزاروں لوگوں کی کفالت کرتی ہے۔ سری لنکا زرعی ملک ہے اور ان کے پاس انتہائی جدید ہائیڈرو کلچر موجود ہے۔ جو آبی ذخائر کی نگہداشت کرتا ہے۔ آب پاشی کے پیچیدہ نظام کے لیے عمدہ حکمت عملی تیار کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ سری لنکا کی قدیم ہائیڈرو انجینئرنگ جدید دنیا کے لیے حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔

پانی کا بہترین نظام اور بجلی کی فراوانی ان کی دانشمندانہ حکومت عملیوں کا نتیجہ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ہر سال سندھ کے کئی علاقے سیلاب سے تباہ ہو کے رہ جاتے ہیں۔

جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پانی کے قدیم دھاروں کو اصلی حالت میں برقرار رہنے نہیں دیا۔ اور آج تک اس مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی تیار نہیں کر پائے۔ لوڈ شیڈنگ نے الگ عوامی زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ بادلوں کے پس منظر میں گھنا جنگل اپنی ہریالی کی ٹھنڈک میں مست ہوا جا رہا تھا۔پانی میں زندگی کی توانائی بھری ہے۔ یہ سکون، تحرک اور خواب بانٹتا ہے۔ جس کا ترنم و خوابیدہ سکوت ذہن کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔''یہاں جھینگوں کے فارمز بھی ہیں جن کا ذائقہ لذیذ ترین ہے۔ حالانکہ کیکڑوں کی بڑھتی ہوئی مانگ نے اس صنعت کو نقصان پہنچایا ہے۔'' ملاح نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔

''ان جھینگوں کے پکڑنے کا کیا طریقہ ہے؟'' عرصم نے سوال کیا۔''سب سے پہلے بیمبو سے بنی ٹوکریوں میں مٹی کے تیل کے لیمپ رکھے جاتے ہیں۔ جیسے ہی روشنی دیکھ کے جھینگے قریب آتے ہیں۔ بیمبو کی لکڑی اوپر کو اٹھتی ہے اور جھینگے جال میں پھنس جاتے ہیں۔'' ملاح نے بتایا۔

رات میں بیمبو کی ٹوکریوں میں یہ مٹی کے لیمپ کتنے حسین لگتے ہوں گے۔ روشنی کا یہ فریب کس قدر پرفسوں ہو گا۔ میں سوچنے لگی۔''کیکڑوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے جھینگوں کے کاروبار کو نقصان ہوا ہے۔'' وہ کہنے لگا۔

سمندری غذا برآمد کر کے سری لنکا ہر سال کئی ملین ڈالرز کا زرمبادلہ کماتا ہے۔ ملک میں بھی جابجا سی فوڈ ریسٹورنٹ ہیں، جن پر سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔ چائے، قیمتی پتھر اور مچھلی کی صنعت سری لنکا میں ہمیشہ سے منافع بخش کاروبار رہی ہے۔ خاص کر سری لنکا کی ٹیونا مچھلی کی بیرون دنیا بڑی مانگ ہے۔ یہ صنعت منظم ہونے کی وجہ سے دن بہ دن فروغ پا رہی ہے۔

اب ہلکی پھوار برسنے لگی۔ سب نے اپنی چھتریاں کھول کے سروں کو ڈھک دیا۔ ملاح ایک پھل کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ ''اس کے بیج جان لیوا ہوتے ہیں۔ کئی لوگ انھیں نگل کر خودکشی کر لیتے ہیں۔''

''یہاں مرنا بھی کس قدر آسان ہے۔'' میں نے مسکرا کے کہا۔کشتی اپنے سفر پر رواں دواں تھی۔ جھیل کے پانی میں بادلوں کا عکس جھلملا رہا تھا۔ اور برستی بوندوں سے دائرے بن رہے تھے۔ کشتی، لکڑی کے تختے سے ٹکرائی تو دیکھا لکڑی سے بنا راستہ تھا۔ ''یہاں لوگ فش مساج لینے آتے ہیں۔'' اس نے مسکرا کر بتایا۔ اتر کر دیکھا تو چار پانچ مچھلی کے چھوٹے تالاب بنے ہوئے تھے۔ ایک چھوٹا سا کمرا تھا، جس میں دو تین لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ رکھوالا چھوٹا سا مگرمچھ لے کر آیا تو میری بیٹی بہت خوش ہوئی اسے تھام کے۔ وہ وائلڈ لائف کی رسیا ہے اور اسے مگرمچھ بہت پسند ہیں۔

''فش مساج کون لے گا؟'' رکھوالے نے پوچھا۔

''میں لوں گی۔'' عرین خوش ہو کر بولی اور اس نے مچھلی کے ٹینک میں پیر ڈال دیے۔ اس کے ہاتھ میں مچھلیوں کا کھانا دیتے ہوئے کہا گیا کہ پیروں کے قریب کھانا پھینکو تو اچھا مساج ہو گا۔ وہ جیسے ہی کھانا پھینکتی تالاب میں ہلچل مچ جاتی۔

یہ فش مساج تھیراپی انگلینڈ میں بہت مقبول ہے۔ جس سے پیروں کی خشک اور بے جان چمڑی الگ ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ڈاکٹر فش کہا جاتا ہے۔ اس مساج سے مسلز کا تناؤ کم ہوتا ہے۔ دوران خون بڑھتا ہے اور یہ نروس سسٹم کے لیے مفید ہے۔

سیاحوں کی کافی کشتیاں وہاں پہنچ گئی تھیں۔

دوبارہ واپس کشتی میں بیٹھے۔ اس وقت تک بارش تھم چکی تھی۔اب ملاح ہمیں بدھسٹ ٹیمپل دکھانے لے کر جا رہا تھا۔

کشتی جب مندر کے قریب رکی تو مجھے سادھو بیلا یاد آگیا جو دریائے سندھ سکھر میں واقع ہے۔ یہ انتہائی قدیم اور پراسرار مندر ہے، جہاں ہر سال ہندو اور سکھ دور دراز سے عبادت کرنے آتے ہیں۔ شیخ ایاز نے اپنی کتاب ''کاک ککوریا کا پڑی'' میں جس کا ذکر پُر فسوں انداز میں کیا ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد میں نے سادھو بیلے کا رخ کیا تھا۔ وہ قدیم اور حسین تاثر آج بھی یادوں میں محفوظ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مدو جھیل میں سفر کرتے ہوئے مجھے کینجھر جھیل بہت یاد آئی۔ فطری حسن اور منفرد رنگ جس کا خاصہ ہیں۔ لیکن یہ جھیل انتظامیہ کی بے توجہی کا شکار ہے۔ ریسٹ ہاؤسز کی حالت زبوں ہو چکی ہے۔

وہاں نہ کوئی باغ ہے اور نہ ہی سبزہ و درخت۔ سالہا سال سے کینجھر کو جس حال میں دیکھا تھا آج بھی وہ بدانتظامی ہنوز قائم ہے۔ حالانکہ ہمارے پاس وسائل سری لنکا سے کہیں زیادہ ہیں۔ چاروں صوبوں کے پاس فطرت کا انمول خزانہ موجود ہے، پہاڑ ہیں، سبزہ ہے، دریا اور سمندر ہیں۔ نباتات کی فراوانی، سبزیاں اور پھل ہر چیز دستیاب ہے۔ مگر جذبے و عمل کی سچائی کا فقدان ہے۔ یہاں کی ثقافت کے حسین رنگ ہیں مگر ہمیں ان رنگوں کو اجاگر کرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ کرپشن وہاں بھی ہے مگر نہ تو سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور نہ ہی عوامی زندگی بے حال۔ ایک سکون اور نظم و ضبط ان میں پایا جاتا ہے۔

یکجہتی کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ جب اپنا تعارف کراتے ہیں تو قومیت یا خطے نہیں بتاتے بلکہ لنکا یا سری لنکن بتاتے ہیں۔ تعلیم کا تناسب ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر نہ انگریزی زبان سے مرعوب ہیں اور نہ ہی غیر ملکی ثقافت کا رنگ انھوں نے اوڑھ رکھا ہے۔ ہر جگہ ان کا اپنا فطری رنگ و اثر دکھائی دیتا ہے۔ اپنے وسائل سے پیار اور انھیں سنوارنے و سنبھال کے رکھنے سے آج سری لنکا ساؤتھ ایشیا کا دوسرا خوشحال ملک بن چکا ہے۔ یہ بدھسٹ مندر جس میں ہم اس وقت کھڑے ہیں۔ بدھا کے جا بجا مجسمے لگے ہیں۔ بدھ ازم سری لنکا میں 205 ق م (قبل مسیح) میں متعارف ہوا تھا۔ بدھ ازم کے پانچ اچھے اصول ان لوگوں نے اپنا رکھے ہیں۔

٭انسانیت کے لیے محبت بھرا دل، مہربانی اور ہمدردی کے جذبات۔٭کمائی کے صحیح ذرایع اپنانا اور صبر سے آگے بڑھتے رہنا۔٭شادی شدہ زندگی میں سکون و اطمینان قائم رکھنا۔٭سچائی کو اپنا شعار بنانا۔٭نظر داری اور باخبری سے زندگی گزارنا۔

ابھی بدھسٹ ٹیمپل میں کھڑے تھے کہ تیز بارش ہونے لگی۔ کچھ دیر برآمدے میں انتظار کرتے رہے۔ جب بارش تھمی تو واپسی کی راہ لی۔ بادل، بارش، سبزے اور لہروں میں ہم آہنگی تھی۔ فطرت کی روح دھڑکتی ہوئی محسوس ہوئی ہر طرف۔ درختوں پر بارش کے قطرے جھلملا رہے تھے۔ اس خوبصورت جزیرے کی شکل بھی قطرے یا سیپ میں بند موتی جیسی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں