بلاول بھٹو اور پارٹی کو درپیش مشکلات
پاکستان پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔
ISLAMABAD:
پاکستان پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔ عوام میں اُس کی غیر مقبولیت اور عدم پذیرائی کی یہ حالت ہے کہ سوائے اندرون سندھ اُسے سارے پاکستان میں ووٹر نہیں مل رہے۔ اندرونِ سندھ بھی جو بچا کھچا ووٹر رہ گیا ہے وہ بھی اپنی لیڈر شپ سے انتہائی نالاں اور مایوس ہے۔ بی بی اور بھٹو سے اپنی محبت اور دلی لگاؤ کی وجہ سے وہ ہنوز پارٹی سے اُمید لگائے بیٹھا ہے ورنہ اُسے اپنی موجودہ قیادت سے ذرہ بھر بھی توقع نہیں ہے کہ وہ اُس کے حالاتِ زندگی بدلنے میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی یہ حالت زار کسی اور نے نہیں بنائی بلکہ اُس کے اپنے لوگ ہی اُسے اِس حال میں پہنچانے کے اصل ذمے دار ہیں۔ خاص کر پچھلے پانچ سالہ دور میں جب اُسے وفاق میں حکومت بنانے کا بھر پور موقعہ ملا تو اُس نے عوام کی حالات بدلنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ بلکہ اُس کی تما م تر توجہ مال بنانے اور کرپشن کے تما م سابقہ ریکارڈ توڑنے پر مرکوز تھی۔
اُس کے پورے پانچ سال میں وطنِ عزیز آگے جانے کی بجائے پیچھے ہی جاتا رہا۔ قوم کی ترقی و خوشحالی کا کوئی منصوبہ زیر ِ غور نہیں لایا گیا۔ جو کام بھی کیا صرف اور صرف اپنے مالی مفاد میں کیا۔ غیر جانبدار مبصّر اور صحافی اور نقاد اپنی دانست میں بہت سمجھایا کرتے رہے لیکن ارباب ِ اقتدار و اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
عدالتیں کرپشن کے خلاف متحرک اور صف آرا ہوئیں تو کہا گیا کہ ہمارا احتساب تو عوامی عدالت میں ہو گا۔ عدالتیں ہمارے کاموں میں مداخلت نہ کریں۔ اب جب عوام نے احتساب کر کے اُنہیں سیاست کے میدان میں ناک آؤٹ کر دیا ہے تو بھی اپنی حکمتِ عملی اور کارکردگی کا جائزہ لینے کی بجائے وہ مسلسل اُسی طرز پر صوبہ سندھ میں حکمرانی کرنے پر مصر اور مامور ہیں۔
پاکستان کے باقی ماندہ تینوں صوبے، خاص کر پنجاب اور خیبر پختون خوا بہتر کارکردگی کی خاطر ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروف اور سرگرداں ہیں مگر یہاں صوبہ سندھ میں عجب ہی حال ہے۔ کسی کو اپنے لوگوں کی خوشحالی اور ترقی کی چنداں فکر نہیں۔ ہر ایک مال بنانے کے چکر میں ہے۔ جس کا جتنا بس چلے وہ اُتنا ہی امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ عوامی بھلائی کے تمام منصوبے صرف کاغذوں اور فائلوں تک ہی درج رہتے ہیں۔
کوئی ترقیاتی کام اپنی تکمیل کے مراحل طے کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ لگتا ہے یہاں ہر مقتدر شخص کا مقصد صرف اور صرف مال بنانا اور اپنی ناکامیوں کا ذمے دار وفاق کو ٹھہرانا ہے۔ کسی کو اپنے صوبے کو بہتر بنانے کی جستجو اور خواہش ہی نہیں ہے۔ کوئی جذبہ اور ولولہ دکھائی نہیں دیتا۔ عوام عدم توجہ اور عدم سہولتوں کے سبب مایوسیوں اور نامرادیوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں مگر اہلِ اقتدار اپنی خرمستیوں میں مگن اور مشغول ہیں۔
گاؤں تو گاؤں شہر کے شہر خستہ حالی کے سبب تباہی و بربادی کی تصویر بنے ہیں۔ ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، سڑکوں کی حالت انتہائی شکستہ اور بوسیدہ ہو چکی ہے۔ ایسے میں بڑی بڑی اور لمبی لمبی عمارتوں کی بے ہنگم تعمیر نے سارے شہر کو مصائب کا ڈھیر بنانے رکھ دیا ہے۔ اِن عمارتوں کی تعمیر کی اجازت میں بھی وہی کرپشن مافیا کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے جو دیگر معاملوں میں بھی ملوث ہے۔ اِن مافیاؤں کو جب کوئی ادارہ یا ایجنسی اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتی ہے تو صوبے کے معاملات میں مداخلت کا واویلا مچانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔
پارٹی اگر آج اِس حال میں پہنچ گئی ہے کہ اُسے سارے پاکستان میں اپنا وجود خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے تو اِس کی اصل وجہ مالی بدعنوانی اور کرپشن ہی ہے۔ آج اگر بلاول زرداری بھٹو نے پارٹی کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی ہے تو اُنہیں چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی صفوں کے اندر سے اِس کرپشن مافیا کا خاتمہ کریں۔ اِس کے بغیر تطہیر اور صفائی کا کوئی عمل کامیاب اور کارآمد نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اصلاح کے عمل میں غیر جانبدار ہو کر کارروائیاں نہیں کریں گے اُن کا کوئی اقدام پارٹی کو سدھار نہیں سکتا۔ وہ اگر پارٹی کی سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو ناکامیاں اور نامرادیاں ہی اُن کا مقدر بنیں گی۔
ہماری ایجنسیاں اور ایف آئی اے جن برائیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر رہی ہیں اُنہیں قابلِ توجہ اور لائقِ اعتناء سمجھ کر اور اُن پر غور کر کے پارٹی کو نئے سرے سے منظم اور متحرک بنانا ہو گا۔ ایک جواں سال سمجھ دار، بالغ نظر لیڈر ہونے کے ناتے اُن کا ویژن اور اپروچ مختلف ہونی چاہیے۔ وہ پارٹی کی تمام کمزوریوں اور خامیوں سے نابلد اور نا آشنا ہو کر صرف سیاسی مخالفوں پر الزام تراشی کر کے پارٹی کی کوئی خدمت نہیں کر پائیں گے۔
بلاوجہ سیاسی مخاصمت اور کرپشن مافیا کے مفادات کی تابع سوچ اُن کی کسی عمل کی قدر افزائی ہونے نہیں دے گی۔ اُن کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ پارٹی کی زبوں حالی اور تباہی کی اصل وجوہات کا سنجیدگی سے پتہ لگائیں۔ اُس کے اسباب و مضمرات کو تلاش کریں اور بلاامتیاز و تفریق ہر ذمے دار شخص کی سرزنش اور بیخ کنی کریں۔ اِس کے علاوہ اُن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
نواز شریف، عمران خان اور الطاف حسین کو ملعون و مطعون کر کے وہ اپنا سیاسی قد صرف اپنے چاہنے والوں کی نظروں میں تو بڑھا سکتے ہیں یا کچھ دیر کے لیے مجمع کو محظوظ تو ضرور کر سکتے ہیں مگر پارٹی کے زوال کے اثرات کو زائل نہیں کر سکتے ہیں۔ لفاظی، شعلہ بیانی اور آتش فشانی اُس وقت سازگار اور کار آمد ثابت ہوتی ہے جب اُس کی ضرورت ہو۔ بلاوجہ کی گرمجوشی، چرب زبانی اور اشتعال انگیزی سودمند ہونے کی بجائے مزید تباہ کن نتائج پر منتج ہوتی ہے۔ بلاول کو اب اِن باتوں سے پرہیز کرنا ہو گا۔ خالصتاً اپنی اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر ہی وہ پارٹی کا پرانا امیج دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔ اگر اُنہوں نے وہی رویہ اور طرز اختیار کیا جو اُن کے والدِ محترم کر گزرے ہیں تو پھر پارٹی کو دوبارہ فعال اور متحرک بنانے کا خواب ادھورا اور تشنہ تعبیر ہی رہے گا۔
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لی جس کے سبب بیمار ہوئے تھے جیسی مثل کو درست اور صحیح ثابت کرنے کی بجائے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ارد گر د کے درباریوں اور مالیشیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہو گا۔ مخلص اور خالصتاً قابلیت و اہلیت کی بنیاد پر پارٹی کے عہدے تقسیم کرنا ہونگے۔ سیاسی اثر و رسوخ والے کرپٹ لوگوں کو خود سے دور کرنا ہو گا۔ جہاندیدہ اور سمجھدار نوجوانوں کو مربوط و منظم کرنا ہو گا۔ سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں پر مبنی فیصلوں سے اجتناب کرنا ہو گا۔ جس صوبے میں عوام نے اُنہیں حقِ حکمرانی عطا کیا ہے اُس صوبے کے لوگوں کی بھر پور خدمت کی جائے۔ وہاں کے حالات بدلے جائیں۔ ترقی و خوشحالی کا تاثر پیدا کیا جائے۔ ابھی ڈھائی سال کا عرصہ باقی ہے۔
اپنی دور اندیشی، دانش مندی اور مناسب منصوبہ بندی سے یہاں تیز رفتار ترقی کر کے اُسے دوسرے صوبوں کے برابر لا کھڑا کیا جائے۔ تبھی جا کر وہ خود کو پارٹی کی قیادت کا اہل ثابت کر پائیں گے۔ زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ نئے لوگ اور نئی سیاسی پارٹیاں جنم لے رہی ہیں۔ ماضی کی طاقتور پیپلز پارٹی کو اگر دوبارہ زندہ اور فعال کرنا مقصود ہے تو اُسے نئی جہت اور نئے تقاضوں سے ہمکنار کرتے ہوئے آگے بڑھانا ہو گا۔