پاک افغان معاملات
کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہونے والے خودکش دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے
لاہور:
افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کیسے چل رہے ہیں، اس کا اندازہ تو افغان صدر کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے فرمایا کہ پاکستان سے جنگ کے پیغامات مل رہے ہیں، کابل میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کو اس طرح جنگ سے جوڑنا اور پھر یہ کہ پاکستان میں خودکش بمبار تیار کرنے والے کیمپس اور بم بنانے والی فیکٹریاں پہلے کی طرح کام کر رہی ہیں۔ ایک ایسا سنجیدہ اور سرکار کو جھنجھوڑنے والا پیغام ہے کہ جس میں ان کے منفی نوعیت کے احساسات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہونے والے خودکش دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جس میں سترہ کے قریب شہری زخمی بھی ہوئے کسی بھی ملک کے ہوائی اڈے کے قریب اس قسم کا حملہ ایک خطرناک سگنل ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اندر جانے والے اور باہر آنے والے حضرات کی جان کی حفاظت کی اب اس ملک میں کوئی ضمانت نہیں۔
اس قسم کے حملے سنگین نوعیت میں شامل ہوتے ہیں۔ افغان حکام کا پریشان ہونا ان کے اپنے ملک کے لیے ایک قدرتی اور فطری عمل ہے لیکن اس عمل کے نتیجے میں جس ردعمل کا اظہار انھوں نے کیا ہے وہ سنگین نوعیت کا الزام ہے۔ اس کے کیا نتائج مرتب ہو سکتے ہیں مستقبل میں اس کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ پاکستانی حکومت ان کے ردعمل پر کس طرح ان کے الزام کا جواب دے یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔
ستمبر 1947ء میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں شمولیت کی درخواست دی تھی یہ ایک نوزائیدہ، کمزور مملکت کا بہت احسن قدم تھا اسے اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کے خیر مقدم کی ضرورت تھی خاص کر پڑوسی ممالک کی گرم جوشی اسے مضبوط ہونے میں مدد کر سکتی تھی لیکن دنیا بھر کے ممالک میں سے صرف افغانستان نے ہی اس کی مخالفت کی تھی۔
اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان 1948ء سے ہی ایک برف کی دیوار حائل رہی یہ دیوار 1979ء تک ڈیورنڈ لائن اور پختونستان کے مسائل تلے جمی رہی وہ اپنے اختیارات کی حدود میں وسعت چاہتے تھے اس طرح پاکستان کے حدود اربعہ پر متاثر ہونا ان کے خیال میں ان کے مفاد کے لیے اشد ضروری تھا بعد کے حالات نے تو دنیا کو یہ سمجھا دیا تھا کہ پاکستان ایک چھوٹا مگر کمزور ملک نہیں ہے۔
افغانستان موم کی ناک بن کر جس طرح روس کے ہاتھوں کھلونا بنا اس نے پاکستان میں بسنے والوں کی آنکھوں کو بھی رلا دیا۔ یوں پاکستان اور افغانستان کے بیچ اجنبیت کی دیوار گری۔ یہ وہی دور تھا جب ماضی کے صدر کرزئی نے بھی افغان مہاجرین کے ہمراہ پاکستان میں پناہ لی اور ایک عرصہ اس سرزمین کا نمک کھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت وہ صدر افغانستان تو نہ تھے لیکن صدر بننے کے بعد نمک کا حق ادا کرنے میں غفلت برت گئے۔
پاکستان کی مدد سے امریکا کی امداد کے ساتھ افغانستان جیسے کمزور اور چھوٹے ملک نے روس جیسے بڑے دیو کے قدم اکھاڑ دیے یہاں تک کہ وہ اپنے وجود کو بھی شکستہ ہونے سے نہ بچا سکے اس جنگ میں پاکستان کی وفاداریاں اپنے برادر ملک کے ساتھ رہیں۔ دل جان اور مال اور خدمت سے پاکستان نے اسے ایسا نبھایا کہ آج بھی افغان مہاجرین بڑے بڑے سیٹھ، دکاندار اور بلڈرز بن کر آپ کے اور میرے ارد گرد رہ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو افغان نہیں کہتا بلکہ کوئٹہ کے پٹھان کہہ کر جان چھڑاتے ہیں۔
پاکستان کو بارود کے دہانے پر کھڑا کرنے والے کون تھے؟ سوال جواب کا فائدہ اب رہا نہیں کیونکہ اب تک نہ تو پاکستان اور نہ افغانستان کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ یہ درست ہے کہ افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا ہے تو پاکستان میں بھی مسلمان بارود کے شعلوں میں جلے۔ دہشت گردی کے اڈے کہاں کب اور کیسے وجود میں آئے اس سلسلے میں لعن طعن کے بجائے عملی طور پر اب تک کیا ہوا اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ راحیل شریف دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہائی سرگرم ہیں اس کے باوجود دہشت گردی اور اس کے اڈوں کے حوالے سے افغان صدر کا یہ بیان چبھتا ہوا ہے۔ فوج اپنا کام کر رہی ہے لیکن حکومت پاکستان کو سفارتی رویوں میں پھرتی اور سمجھداری دکھانے کی اشد ضرورت ہے اداروں کا اپنے سربراہان اور وزرا کا اعلیٰ عہدوں تک فوری رسائی اور فوری اپنے موقف کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی اشد ضرورت ہے پہلے بھی سابق صدر حامد کرزئی شمالی اتحاد کے ہاتھوں کھلونا بنے رہے ان کا یہ بیان ان کے اتھلے پن کی وضاحت کرتا ہے، جو انھوں نے سابق صدر مشرف کے دور میں پاکستان کے دورے کے دوران دیا تھا۔
''ہم نے کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں موجود طالبان رہنماؤں کی جو فہرست حکومت پاکستان کے حوالے کی ہے امید ہے پاکستان ان کے خلاف اقدامات کرے گا۔'' اس وقت بھی کرزئی افغانی مزاحمت کاروں کی شدت کا الزام پاکستانی حکومت پر لگا رہے تھے کیونکہ یہ ان کے اپنے مفاد میں اور ان کی پشت پر موجود طاقت کے لیے مفید تھا۔ حالانکہ وہ فہرست جو حکومت کو دی گئی تھی وہ پرانی تھی اس کے ردعمل پر پرویز مشرف نے ایک پریس کانفرنس میں کہا جو کرزئی کے سوال کا جواب بھی تھی ''یہ فہرست پرانی ہے۔ ان میں سے بعض ٹیلی فون نمبر گزشتہ کئی ماہ سے بند ہیں فہرست میں موجود کئی طالبان رہنماؤں کے خلاف پہلے ہی ایکشن لیا جا چکا ہے لہٰذا یہ فہرست ناقابل عمل ہے۔''
اس سرد گرم جنگ پر امریکا کو بھی تشویش تھی کیونکہ یہ گیم دو تین کھلاڑیوں کے بیچ تھا۔
ملا عمر جنھوں نے حیرت انگیز طور پر افغانستان میں امن کر کے دکھایا تھا مالک حقیقی سے جا ملے ہیں بہت سے لوگ اب بھی اچھے طالبان اور برے طالبان میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے، ہمیں کیا بننا ہے گیہوں یا گھن؟
افغانستان کے صدر آج کیا کہہ رہے، کیا سمجھ رہے ہیں کیا چاہتے ہیں لیکن ہمیں کیا کرنا ہے کیا سمجھانا ہے اور کیا کر کے دکھانا ہے یہ کام جن کا ہے انھیں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کر گزرنا ہے، ایک اچھے مسلمان ہونے کی نشاندہی یہ ہے کہ اس کا پڑوسی اس سے مطمئن رہے۔ ان کی باتوں میں شر ہے شرارت ہے یہ ایک الگ بات ہے لیکن ہمیں اپنے دامن کو کس طرح آلودگی سے بچانا ہے، ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھ لینے میں ہرج نہیں ہے ان کی اور اپنی چال کی سمجھ میں ذرا آسانی ہو جاتی ہے۔