فلمی کالم سے علمی کالم تک
کافی دنوں سے میں پابندی کے ساتھ فلمی دنیا کی باتوں اور ملاقاتوں پر مشتمل کالم لکھ رہا ہوں
کافی دنوں سے میں پابندی کے ساتھ فلمی دنیا کی باتوں اور ملاقاتوں پر مشتمل کالم لکھ رہا ہوں مگر میرا یہ آج کا کالم فلمی نہیں ہے بلکہ خالص علمی ہے اور میں اپنے اس ہفتے کے کالم کو کراچی سے منسوب کرتاہوں، وہ کراچی جہاں میری پرورش ہوئی ، جہاں میرا بچپن اور لڑکپن گزرا ہے یہ وہ کراچی ہے جس کی بانہوں میں میری جوانی کے حسین ماہ وسال گزرے ہیں۔
اسی کراچی کے مقتدر اخبارات میں اور رسائل میں میرے کالم ، میری نظمیں اور میری غزلیں شایع ہوتی رہیں اور اسی کراچی سے میرا ادبی ذوق پروان چڑھا، اسی کراچی میں انورشعور،صابر ظفر،نصیر ترابی، رضوان صدیقی، نوشابہ صدیقی، جاذب قریشی اورکامل احمد میرے ادبی ہمسفر بنے، انھی ساتھیوں کے ساتھ میرا شعری شعور نکھرا ، اسی کراچی نے مجھے شہرت دی اور اسی شہرت کے سہارے میں لاہور کی فلمی دنیا سے وابستہ ہوا اور میں نے کراچی سے بارہ سال کا بن باس لیا جب میں کراچی میں تھا تو میں قتیل شفائی، کلیم عثمانی، سرور بارہ بانکوی، حمایت علی شاعرکا شیدائی ہوا کرتا تھا۔
ان کی شاعری سے پیار کرتا تھا، ان کے مشاعروں میں دیوانگی کے ساتھ شرکت کیا کرتا تھا، پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ میں لاہور میں بحیثیت فلمی نغمہ نگار اپنا ایک مقام بناچکا تھا اور یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں جن شاعروں کا پرستار تھا انھی شاعروں کا ہم عصر بن چکا تھا اب جید شعرا کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے شاعر مسرور انور، تسلیم فاضلی اور خواجہ پرویز کی شراکت میں بہت سی فلموں میں نغمات لکھ رہا تھا اور ان شاعروں کی دوستی میرے لیے باعث ِ افتخار تھی۔
جب میں نے فلمی دنیا کو خیر باد کہا تو میں فلم سے علم کی طرف لوٹ آیا تھا جب کہ پاکستان کے بیشتر نامور شاعر علم سے فلم کی طرف گئے تھے۔ مجھے خوشی تھی کہ میں نے جتنا بھی وقت فلمی دنیا میں گزارا وہ بہت اچھا گزارا وہ دور باہمی احترام اور محبت کا دور تھا جو اب نظر نہیں آتا۔ میں لاہور سے کراچی آکر پھر امریکا سے رشتہ جوڑ بیٹھا اور اپنی فیملی سمیت امریکا کی ریاست نیو جرسی میں مقیم ہوگیا، اب مجھے امریکا میں رہتے ہوئے ایک طویل عرصہ ہوگیا ہے۔
امریکا میں بھی میں اردو ادب کی ترقی اور فروغ کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتا ہوں اور حلقہ ارباب ذوق نیو یارک ادبی محفلوں میں تسلسل کے ساتھ شرکت کرتاہوں۔
گزشتہ دنوں نیو یارک میں پاکستانی نیوز کے مدیر مجیب لودھی نے کراچی یونی ورسٹی المنائی ایسوسی ایشن نیو یارک کو پھر سے زندہ کیا ہے اور اسی پلیٹ فارم کے ذریعے گزشتہ دنوں میرے اخباری کالموں پر مشتمل کتاب ''بات ہے برداشت کی'' تقریب رونما کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی امریکا میں پاکستان کے قونصل جنرل راجہ علی اعجاز تھے یہ نیو یارک کی ایک پر ہجوم شاندار اور یادگار ادبی تقریب تھی۔ مجھے اکثر کراچی کی محبت امریکا سے کھینچ لاتی ہے جب میں سات سال پہلے کراچی آیا تھا تو میری پہلی کتاب ''کسک'' کے دوسرے اور اضافی ایڈیشن کی رسم رونمائی ہوئی تھی اس تقریب میں شعر و ادب کی نامور شخصیتوں نے شرکت کی تھی ۔
جنھیں مشہور نقاد اور ادیب ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر سحر انصاری، شکیل عادل زادہ، دوست محمد فیضی، قاسم جلالی، انیق احمد اور رضوان صدیقی شامل تھے اور تقریب کے مہمان خصوصی کراچی کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان تھے جب میں دوسری بار کراچی آیا تھا تو میری دو کتابوں ''پیاسے گلاب'' اور ''دشت احساس'' کی ایک ساتھ تقریب رونمائی ہوئی تھی اور تقریب کی صدر سب کی پیاری بجیا،نامور ٹی وی رائٹر فاطمہ ثریا بجیا تھیں اور علم و ادب کی جن مقتدر شخصیتوں نے شرکت کی تھی انھیں ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر انوار احمد زئی، بیرسٹر خواجہ نوید، خواجہ شفیق احمد اور ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی ان تقریبات میں نہ صرف میری پذیرائی کی گئی تھی بلکہ ان تقریبات نے میرے حوصلوں کو تقویت اور بڑی توانائی بخشی تھی۔
جس کی بنا پر میں امریکا میں رہتے ہوئے بھی شعر و ادب سے جڑا ہوا تھا اور امریکا میں اردو زبان کے فروغ میں اپنا فعال کردار بھی ادا کرتا رہا ہوں، یہاں کی سفری اور ادبی محفلوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہتا ہوں، تقریباً تیرہ سال کے بعد پچھلے دنوں پھر میں ایک ماہ کے لیے کراچی آیا تھا تو ایک نئی کتاب کی تیاری کرکے آیا تھا اور وہ میرا چوتھا شعری مجموعہ ''اجنبی اور آشنا'' تھا جس کا مسودہ میں پہلے ہی سے کراچی بھیج چکا تھا، اور جب میں کراچی پہنچا تو وہ شعری مجموعہ اشاعت کے تمام مراحل طے کرچکا تھا۔
اب آرٹس کونسل کے دوستوں نے اس شعری مجموعے کی تقریب رونمائی کا بھی عندیہ دے دیا تھا اور پھر آرٹس کونسل کراچی میں 15 اگست کو منظر اکبر ہال میں ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی کراچی کے ہر دلعزیز کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر شعیب احمد صدیقی تھے اور صدر نشین سابقہ سینیٹر عبدالطیب خان تھے۔
جب کہ مہمان اعزازی شخصیتوں نے میری نئی کتاب ''اجنبی آشنا'' اور میری شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں پروفیسر انوار احمد زئی، دوست محمد فیضی، آغا مسعود حسین اور ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ شامل تھے اور میں ان جید شخصیتوں کی شفقت کا ایک بار پھر سے مقروض ہوچکا تھا۔ اسی ایک ماہ کے دوران کراچی پریس کلب میں بھی دو بار مجھے محبت اور شفقت سے نوازا گیا۔ پہلی تقریب کراچی فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ساتھ حسن امام صدیقی کی طرف سے منعقد کی گئی جس میں سندھ کی اجرک کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔
یہ میرے لیے میرے کراچی کی طرف سے سب سے بڑی سوغات تھی جو پریس کلب کے جنرل سیکریٹری علاؤ الدین خانزادہ نے میرے کاندھوں کی زینت بنائی تھی، اس تقریب کی رونق اور دوستوں کی محبت کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکوںگا اور جس ہفتے میری کراچی سے نیو جرسی واپسی تھی، اسی ہفتے کراچی پریس کلب کی طرف سے میرے اعزاز میں ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں کراچی کے جواں فکر شاعر اور شاعرات کے علاوہ جید شاعروں میں اجمل سراج خالد معین بھی شامل تھے۔
یہ شعری محفل رات گئے تک جاری رہی، تقریب کی صدارت اجمل سراج نے کی اور جن شعرا اور شاعرات نے اپنا کلام پیش کیا ان میں اے ایچ خانزادہ، راشد نور، سلمان صدیقی، شبیر سومرو، نعیم ، سمیاب نوید، سکینہ سموں اور نزہت عباسی شامل تھیں یہ شعری نشست کراچی میں ایک طویل عرصے کے بعد مجھے نصیب ہوئی تھی اور مجھے اس نشست میں شرکت کرکے بے پایاں خوشی محسوس ہورہی تھی۔
اس تقریب میں بہت سے میرے پرانے صحافی دوستوں نے بھی شرکت کی تھی جن میں ایوب جان سرہندی، اطہر جاوید صوفی، راشد نور، پروفیسر مظہر، وسیع قریشی، جنید رفیق، ذیشان صدیقی کی محبتیں شامل تھیں جو میرے لیے ہمیشہ سے سرمایہ افتخار رہی ہیں، کراچی میں ایک ماہ کا قیام میرے لیے ایسا تھا جیسے میں نے ایک رات، ایک خوبصورت خواب دیکھا ہو اور جب یہ خواب ختم ہوا تو میں پھر سے نیو جرسی امریکا کی گارڈن اسٹیٹ میں پہنچ چکا تھا۔