اے چاند یہاں نہ نکلا کر
’’اے چاند یہاں نہ نکلا کر…بے نام سے سپنے دکھا کر…یہاں الٹی گنگا بہتی ہے…اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
''ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد'' شاعری بھی اکثر و بیشتر ہمارے اردگرد کے ماحول کی عکاسی اسی طرح کرتی نظر آتی ہے جیسے کہ نثر۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاعری نے ہمارے جذبوں کو گرمایا ہے ہر موقعے پر، جنگ ہو، امن ہو، کوئی ناگہانی آفت ہو، وطن سے محبت کا اظہار ہو، اپنی افواج کے لیے، اپنی عوام کے لیے فیض احمد فیض، حبیب جالب اور بہت سے شعرا اپنی شاعری، اپنی شخصیت کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سطح پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور برسوں بعد بھی ان کی شاعری ڈوبتے ہوئے جذبوں کو سر بلند کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
حبیب جالب کہتے ہیں کہ:
''اے چاند یہاں نہ نکلا کر...بے نام سے سپنے دکھا کر...یہاں الٹی گنگا بہتی ہے...اس دیس میں اندھے حاکم ہیں...نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں...نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں...ہے یہاں پرکاروبار بہت...اس دیس میں گردے بکتے ہیں...کچھ لوگ ہیں عالیشان بہت...اور کچھ کا مقصد روٹی ہے...وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے...مغرب کا راج ہی سچا ہے...یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا...اے چاند یہاں نہ نکلا کر''
اگر یہ نظم آج 2015 کو بھی پڑھی جا رہی ہے تو حرف بہ حرف آج بھی یہ ہم پر پوری اتر رہی ہے۔ اور جس کیفیت میں اور جس اندھیر نگری میں یہ لکھی گئی ہوگی اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔ ایک شاعر، ادیب اگر اپنے اردگرد سے متاثر نہیں، اپنے لوگوں کے دلوں کے قریب نہیں، اگر وہ اپنی ہی دنیا بسائے بیٹھا ہے جس میں وہ اور اس سے متعلقہ لوگ ہی اس کا فوکس ہوں یا وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہی عقل کُل ہے اور اسی طرح انفرادی سوچ ہو تو یقینا وہ معاشرے میں وہ تبدیلی نہیں لاسکتا ہے۔
جس کا کہ معاشرہ چاہ رہا ہوتا ہے، عشق و محبت اپنی جگہ دلوں کے غم اپنی جگہ مگر علم اور ہنر دونوں کو محدود کردینا بالکل بھی صحیح سوچ نہیں۔ تعلیم کیونکہ ہم میں کم رہی ہے آج تک۔ اور شاید سب سے آسان کام سیاست کرنا ہی رہ گیا ہے، اسی وجہ سے ہمارے ملک کے ہر شعبے میں سیاست سے زبردست پاؤں پھیلاتے ہیں۔
بطور ایک F.M Presenter۔ 2005 سے آج تک میں نے سیاست کو ہر سطح پر سرگرم اور فعال دیکھا اور اسی سیاست نے بڑے سے لے کر چھوٹے اداروں تک کو تباہ و برباد کیا، کیونکہ تعلیم و تربیت کا فقدان ہے اس لیے جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کا رجحان وہ بھی محدود وسائل میں۔ ایک seat کو Maximum فائدہ مند بنانا، چاہے اس کی وجہ سے سیکڑوں کو نقصان ہو۔ مگر انفرادی طور پر اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ فائدے کا رجحان۔ ہماری سوسائٹی کے لیے ایسی دیمک ہے جو انفرادی اور اجتماعی قدروں کو ختم کر رہی ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہم ان ہی مظالم کا شکار ہیں جو گئے دنوں میں موجود تھے کل بھی ہم چیخ رہے تھے آج بھی ہم چیخ رہے ہیں۔ خاص طور پر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بچوں اور خواتین کو ہم کس ڈگر لے جا رہے ہیں؟
مکاری اور خود فریبی اس تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے کہ اللہ کی پناہ، قیامت کی کھلی نشانیاں نظر آتی ہی ۔ آج جو دوست ہے وہ کل دشمن ہے، آج جو مفاد پرستی میں ہم سفر ہیں وہ کل ایک دوسرے کے قاتل بھی ہوسکتے ہیں، زبوں حالی کا شکار ہمارا معاشرہ جس میں حال بے حال ہے اور مستقبل اندھا نظر آتا ہے۔ گہری نظر اگر آپ اپنے اردگرد ڈالیں تو آپ کو یہ احساس ہونے میں قطعاً دیر نہیں لگے گی کہ انفرادی لالچ اور انفرادی تباہ حالی چاروں طرف سے ایک گدھ کی صورت میں ہمارے اوپر منڈلاتی نظر آتی ہے۔
ملکی سیاست اور سیاستدان اس سمجھ و بوجھ اور قربانی و ایثار سے خالی نظر آتے ہیں جو بحیثیت مسلمان ہمارا طرہ امتیاز تھے۔ مذہب کو بھی سیاست کی نذر کردیا گیا اور مذہب کی آڑ میں لوگوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ اللہ کی پناہ!
جو بھی سیاست دان ابھرا اور اس کو پذیرائی ملی اس نے بھر بھر کے عوام کی آنکھوں میں مرچیں ڈالنی شروع کردیں اور کسی ''پھنے خان'' کے کردار میں اپنے آپ کو سمونے لگا۔ عقل کل تو یہ سیاستدان ہوتے ہی بن جاتے ہیں مگر یہ ایسی ایسی دلیلیں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ صرف ''وہ'' ہی رہ جاتے ہیں اور عوام بس عوام رہ جاتی ہے۔
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے جوڑ توڑ بھی بہت ہی خوب ہیں، آج اگر ضرورت ہے تو پیروں پر سر، اگر نہیں تو سر پر پیر! دوست ایسے کہ فرمائشی کھانے بن رہے ہوں، دشمن ایسے کہ پیٹ پھاڑنے کی باتیں ہوں، باتیں ان کی کچھ بھی ہوں مگر جب مفادات کی بات ہوتی ہے تو یہ سیاستداں سب کچھ بھول جاتے ہیں یہ سارے عوام کے غموں سے آزاد ہوجاتے ہیں اور صرف اور صرف اپنی دکان کو چمکانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں کبھی منہ ایسے پھیریں کہ کبھی آشنا ہی نہ تھے اور کبھی ایسے گلے لگیں کہ جیسے دوست پر جان قربان!
ہمارے مذہب اور دیگر تعلیمات میں بھی ایک متوازن زندگی کو ہی بہتر جانا جاتا ہے۔ جس میں آپ اپنے علاوہ دوسروں کے لیے بھی بہتر جذبات رکھتے ہیں، پہلے بارشیں ہوتی تھیں تو محلے میں جو کوئی بھی پکوڑے تل رہا ہوتا تھا۔ اس کی خوشبو کھینچ کر پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیتی تھی، گلیوں میں جھولے پڑجاتے تھے اور بچے، بڑے، خواتین سب کے سب تمام فکروں سے آزاد ہوکر بارشوں کے گیت گنگناتے، بڑے بڑے رسوں کے جھولے،گرم گرم پکوان، پلیٹیں بھری بھری ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتی ہوئیں۔
اب بارشیں ہوتی ہیں تو خوف چہروں پر بس جاتے ہیں، شہروں میں بھی اورگاؤں میں بھی۔ بدانتظامی کی ایسی تصویریں بنتی ہیں کہ پکوان اور جھولے نجانے کہاں گم ہوگئے؟ بارشیں سیلابوں کا روپ دھارکرگاؤں کے گاؤں اجاڑ دیتی ہیں اور انتظامیہ بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے۔
کرتے دھرتے لوگ سامان سمیٹ کر دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں، پاکستان کے عوام کی دولت ان کے لیے بیرون ملک بھی عیش و آرام کا سامان پیدا کرتی ہے اور خود عوام بے بسی، بے کسی کی مورت بن کر رہ جاتے ہیں۔
اب تو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ناراضگی، روٹھنا، منانا اور ایک دوسرے کو مفادات سے زیادہ سے زیادہ مستفید کرنا ہی رہ گیا ہے، کبھی ملے کبھی بچھڑے، کبھی ادھر کبھی ادھر۔ اور جو مقاصد ملکی بھلائی و ترقی تھے وہ کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہر سیاستدان کاروباری بن گیا گاڑیوں سے نکل کر جہازوں کا سفر عام ہوگیا۔ محلات عالی شان ہوگئے، کھانوں کی لسٹ طویل تر ہوتی جا رہی ہے اور عوام بے چاری، بے چاری ہی ہوتی جا رہی ہے۔