سامراج کی حقیقت
اس وقت بارہ سمندروں میں امریکا کے68 بحری بیڑے موجود ہیں
اس وقت بارہ سمندروں میں امریکا کے68 بحری بیڑے موجود ہیں اور تمام براعظموں میں امریکا کے فوجی اڈے موجود ہیں، جہاں مسلح فوجیں چوبیس گھنٹے لڑنے کے لیے چوکنا رہتی ہیں۔ بقول امریکی انقلابی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کہ 'امریکا نے اب تک88 ملکوں میں بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر مداخلت کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد1951ء میں کوریا پر امریکا نے حملہ کردیا۔ 1951-53 تک امریکی سامراج کے خلاف کوریائی عوام بڑی جرات اور بہادری سے لڑتے رہے۔ آخرکار کوریائی حکومت اور امریکا کے درمیان یہ طے پایا کہ امریکی فوج اور بیرونی ممالک سے لڑنے کے لیے آئے ہوئے کمیونسٹ گوریلا کوریا سے چلے جائیں گے۔ پھرکمیونسٹ گوریلا کوریا سے چلے گئے لیکن آج بھی جنوبی کوریا میں امریکی فوجی اڈہ موجود ہے جب کہ شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) میں کوئی غیر ملکی کمیونسٹ گوریلا نہیں ہے۔
امریکی سامراج اوراس کی سی آئی اے نے پھر 1962ء میں انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنوکی حکومت کا تختہ الٹا۔ نہدالعلماء اور جنرل سوہارتو نے مل کر انڈونیشیا میں پندرہ لاکھ کمیونسٹوں اور سامراج مخالف کارکنان کا قتل عام کیا۔ جنوبی امریکی ملک چلی کی منتخب حکومت کا سی آئی اے نے سازش کرکے تختہ الٹا اور ڈاکٹر آئیندے سمیت بے شمارکمیونسٹوں اور سامراج مخالف عوام کا قتل عام کیا۔ جس کا اعتراف امریکی سی آئی اے کے سابق ڈا ئریکٹر خود کرچکے ہیں۔ ویتنام کی سرزمین کے ہر انچ پر بم گرائے گئے۔ 1973 میں امریکی افواج کو شکست کے بعد آج تک وہاں کے نوزائیدہ بچے اپاہج پیدا ہوتے ہیں۔ 1992 میں عراق میں نام نہاد مہلک ہتھیار رکھنے کے لغو اور جھوٹے الزام لگا کر امریکا نے حملہ کردیا اور چند برس کے بعد پھرایک بار حملہ کیا۔ اس حملے کے خلاف دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے احتجاج کیا۔ صرف اٹلی کے شہر روم میں کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور انارکسٹوں نے تیس لاکھ اور برطانیہ کے شہر لندن میں بیس لاکھ کے جلوس نکلے۔ اس کے بعد پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرکے افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کو امریکی سی آئی اے نے ڈالر جہاد کے ذریعے ختم کیا، بعد ازاں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بہانے امریکی فوج نے براہ راست افغانستان پر حملہ کردیا۔
اس حملے کے خلاف لندن، روم، برلن، نیویارک، ٹوکیو اور پیرس سمیت دنیا بھر میں لاکھوں کمیونسٹوں اور انارکسٹوں نے احتجاجی جلوس نکالے، شام میں امریکا نے اسد حکومت کے خلاف نام نہاد نیشنل الائنس تشکیل دیا۔ عراق، افغانستان اور شام میں سی آئی اے نے سازشوں کے ذریعے لاکھوں انسانوں کا قتل کیا اور اب بھی کر رہا ہے۔انڈونیشیا سے مشرقی تیمورکو اور جنوبی سوڈان کو شمالی سوڈان سے عیسائیت کی بنیاد پر امریکی سی آئی اے نے علیحدہ کیا اور اب وہاں کے عوام کی افلاس اور غربت سے سامراج کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ بلکہ امریکی سامراج داعش اور بوکو حرام کے خلاف بات تو کرتا ہے لیکن جنوبی سوڈان کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش ہے۔ 2011 میں جنوبی سوڈان کو شمالی سوڈان سے علیحدگی اختیارکرنے پر امریکا نے مبارک باد دی تھی اور تعریف بھی کی تھی۔ اس وقت ملک کا بیشتر حصے کی خوراک یوگنڈا اورکینیا سے آرہی ہے۔ جن کمپنیوں نے یہاں کام شروع کیا تھا، اب خانہ جنگی کی وجہ سے ملک چھوڑکر چلے گئے ہیں۔
ایک کروڑ دس لاکھ کی آبادی میں ہر دس میں سے آٹھ افراد شدید بھوک کے شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کیمطابق خانہ جنگی میں نو ہزار بچے حصہ لے رہے ہیں، حکومتی مظالم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو زندہ جلایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے لڑکوں کو مردانہ صلاحیتوں سے محروم کیا جارہا ہے۔ لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی کرکے گلے کاٹ دیے جاتے ہیں۔جنوبی سوڈان میں 2013 سے خانہ جنگی شروع ہوئی۔ بنیاد صدر سلواکیر اور سابق صدر ریک ماچار کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے۔ جہاں لڑائی ہورہی ہے وہاں جانے کے لیے سڑکیں نہیں ہیں اور مقامی زبان سمجھ سے بالاتر ہے۔ ملک کے اندر جنگ اس وقت شروع ہوئی جب بین الاقوامی برادری، نوم چومسکی کے بقول داعش سے نمٹنے کی باتیں کررہی تھیں۔ نوم چومسکی بین الاقوامی برادری سے مراد امریکا، اس کے اتحادی اور اقوام متحدہ کو لیتے ہیں۔ افریقی یونین ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے شمالی سوڈان کے ساتھ ہے۔ افریقی یونین شمالی سوڈان کے صدر عمر حسن البشیرکو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے بچانے میں سرگرداں ہے۔
امریکا صرف ان ہی کا ساتھ دیتا ہے جو ان کے مفاد میں ہیں۔ کشمیر کے ریفرنڈم کی بات جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور سے قبل کر رکھی ہے۔ گزشتہ مہینوں اسپین کا صوبہ کیٹا لونیہ میں80 فیصد لوگوں نے اسپین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ ڈالے مگر سامراجیوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا۔ بین الا قوامی برادری (سامراجی برادری) برما کی ڈیموکریٹک لیگ کی رہنما آنگ سان سوچی کو نوبل انعام عطا کرتی ہے جب کہ انعام یافتہ خاتون روہنگیا برادری کو برما کے شہری ماننے سے انکاری ہیں۔
واضح رہے کہ برما کی کمیونسٹ پارٹی نے روہنگیا برادری پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف رنگون میں یوم مئی کے موقعے پر ہزاروں کا جلوس نکالا لیکن آنگ سان سوچی خاموش رہیں۔ ایک جانب زمبابوے، شمالی کوریا، بیلاروس اور ایران پر پابندیاں تو دوسری جانب جنوبی امریکی ملک کولمبیا کی آمر فوجی حکومت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور بھوٹان کے آمر بادشاہتوں کے مظالم پر خاموش رہتے ہیں۔ امریکی اتحادی برطانیہ نے غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی تواتر کے ساتھ غیر قانونی یہودی تعمیرات پر اظہار برہمی کیا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کا گزشتہ برس حماس کے ہاتھوں اپنے ایک سپاہی کے پکڑے جانے کے بعد غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا۔ لیفٹننٹ ہدرگولڈن کے پکڑے جانے کے بعد اسرائیل نے فلسطین پر بمباری کی جس کے نتیجے میں75 بچوں سمیت135 افراد جاں بحق ہوئے جس کا ثبوت ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پاس موجود ہے۔
اسرائیل کی جارحیت کے خلاف امریکا بمباری نہیں کرتا جب کہ عراق پر چڑھ دوڑتا ہے، ترکی سے داعش پر حملہ کرتا ہے لیکن ترکی کے کردوں پر حملہ کرنے پرخاموش رہتا ہے۔ جب کہ ان ہی کردوں نے عراق میں داعش کو شکست دے کر یہ علاقہ ان سے خالی کروایا۔ امریکا، ہندوستان کے 17صوبوں کے 200 اضلاع میں کمیونسٹوں کی آزادی کی شاندار جدوجہد کو دہشتگردی کہتا ہے جب کہ سعودی عرب کی یمن پر بمباری کی حمایت اور شام میں مداخلت کو جائز قرار دیتا ہے۔ منافقانہ سوچ اور عوامل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے بیشتر دہشت گرد تنظیمیں سامراج کی پیداوار ہیں اور سب سے بڑا دہشتگرد امریکی سامراج ہے، جس کے پاس نو ہزار ایٹم بم ہیں، اس دہشت گردی کی بنیاد ریاستیں اور ان کے آلہ کار حکمران ہیں۔