ماضی کے کچھ مناظر
یوں تو اتار چڑھاؤ، زیر وبم ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں یا پھر ان کا مشاہدہ ہونا تو لازم ہے۔
مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن کرنے کے بعد میں اور عبدل لاہور مزید تعلیم حاصل کرنے آئے تو ایک مکان میں کمرہ کرائے پر لے کر اکٹھے رہنے لگے۔ لاء کرنے کے بعد دونوں نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور عبدل سول جج بن کر ایک دوردراز ضلع میں تعینات ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے باس ڈسٹرکٹ جج نے بلا کر اسے تنبیہ کی کہ وہ فلاں مجسٹریٹ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے احتراز کرے۔ عبدل نے جواب دیا وہ اکیلا ہوتا ہے اور وہ مجسٹریٹ اس کا ہم اسکول و ہم شہر ہے اور کبھی کبھار ہی وہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ ابھی عبدل کی سروس کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ حکومت تبدیل ہونے پر زیڈ اے بھٹو اقتدار میں آ گئے اور انھوں نے بدعنوان سرکاری ملازموں کو سروس سے فارغ کرنے کے لیے سفارشات طلب کیں۔ عبدل کے ڈسٹرکٹ جج نے اپنا غصہ نکالا اور اس کا نام بھجوا کر عبدل کو بھٹو صاحب کی تیرہ سو کی لسٹ میں شامل کروا دیا۔
وہ ڈسٹرکٹ جج اللہ کی پکڑ سے بچ نہ پایا ہو گا۔ عبدل لوئر مڈل کلاس گھرانے کا فرد ایک سال سول جج رہ کر بے کار اور بدنام ہوا تو گویا بے موت مر گیا۔ میں نے اس کے لیے کچھ کرنے کا عزم کیا اور ایک بڑے ہوٹل کے منیجر کے توسط سے بھٹو صاحب کے مقرب خاص ملازم نور محمد مغل عرف نورا کو ایک شام اسی ہوٹل میں چائے پر بلا لیا تا کہ اسے وزیر اعظم کے نام ایک Petition برائے انصاف دی جا سکے۔ نورے نے بات بھی سمجھ لی اور وعدہ بھی کیا لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔ عبدل کا مشن اب بوڑھے والدین کی خدمت اور بچوں کی تعلیم و تربیت تھا۔ خدا کے نزدیک اسے سول جج سے بھی بڑا انعام دینا مقدور تھا۔ اس کے بچوں نے اسکول، کالج، یونیورسٹی میں اعلیٰ پوزیشنوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ نتیجتاً اس وقت اس کا ایک بیٹا کامیاب ڈاکٹر ہے، دوسرا امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور تیسرا فارن سروس میں کامیابی کے بعد یو این او میں خدمات انجام دے رہا ہے جب کہ عدل ایک سینئر وکیل ہے۔ ڈسٹرکٹ جج نے ایک در بند کیا، خدا نے عبدل کے لیے چار در کھول دیے۔
یوں تو اتار چڑھاؤ، زیر وبم ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں یا پھر ان کا مشاہدہ ہونا تو لازم ہے۔ اسی حوالے سے یاد آیا کہ ایک سینئر سرکاری وکیل لاہور سے میرے پاس ساہیوال آئے اور درخواست کی کہ ان کی بیگم کی ایک کنال زمین پر فروٹ و سبزی منڈی میں بہت سے لوگوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ اگر قبضہ چھڑوا لیا جائے تو اسے بیچ کر کچھ رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔ میں نے مدد کا وعدہ کر لیا اور ساجد مہدی تحصیلدار کو بلا کر ناجائز قبضہ چھڑوانے کا کام اس کے سپرد کیا۔ دو تین دن کے بعد ساجد مہدی نے بتایا کہ یہ دو تین لاکھ روپے کی کنال زمین جس پر سبزی و فروٹ منڈی کے بہت سے آڑھتی قابض ہیں، کوئی آدھے تو کوئی پون مرلے پر قابض ہے وہ سب بذریعہ رجسٹری مقبوضہ زمین خریدنے پر تیار ہیں۔ یوں اس زمین کی فروخت سے دس لاکھ سے بھی زیادہ رقم وصول ہو جائے گی۔
میں نے مذکورہ سرکاری وکیل صاحب کو اطلاع کر دی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ انھوں نے ایک بار اتفاقیہ ملاقات پر جب وہ بیگم کے ہمراہ تھے، میرا تعارف بیگم کو مخاطب کر کے یوں کرایا کہ ''بیگم صاحبہ یہ ہیں وہ سیٹھی صاحب جن کی وجہ سے تم ایک دم سے امیر ہو گئیں۔'' گزشتہ اتوار اتفاقیہ لاہور جمخانہ میں میری ساجد مہدی سے ملاقات ہو گئی۔ مدت کے بعد ملے تھے، معانقہ ہوا اور میں نے پوچھا ساجد ریٹائرمنٹ کے بعد کیا مصروفیت ہے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے کہا بھائی صاحب تو سیاست سے ریٹائر ہو گئے، میں دو سال سے ایم این اے ہوں اور پارلیمنٹری سیکریٹری بھی۔ اور وہ سرکاری وکیل بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہو گئے تھے۔
ایک وقت تھا جب وقار احمد کیبنٹ ڈویژن کے سیکریٹری کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے سامنے پیش ہونے والے سینئر افسر بھی تھرتھر کانپتے تھے۔ ان کے کمرے کے باہر والے کاریڈور کے سامنے سے گزرتے ہوئے افسران ایک دم، دم سادھ لیتے تھے۔ ان کے بلانے پر افسر لوگ دعائیں پڑھ کر ان کے کمرے میں داخل ہوتے۔ میرا لندن کا ایک کورس منظور ہوا۔ 9 جولائی 1974ء کو برطانیہ کا ویزا لگا جس پر ویزے کی مدت کا بھی تعین نہ تھا۔ جس روز مجھے لندن کی فلائٹ لینا تھی اس سے ایک دن پہلے وقار احمد صاحب نے میرا کورس کینسل کر کے Alternate امیدوار کا کورس منظور کر دیا۔ اس پر دکھ ہونا قدرتی امر تھا۔ پھر میری تعیناتی گوجرانوالہ کچہری میں ہو گئی۔
جنرل ضیاء الحق نے شبخون مارنے کے بعد لمبی اکھاڑ پچھاڑ کی اور میری ٹرانسفر بطور ڈسٹرکٹ ٹریفک مجسٹریٹ لاہور ہو گئی۔ میری عدالت موبائل بھی تھی۔ ایک روز الحمرا لاہور کے سامنے میرے ٹریفک سارجنٹ نے سلوٹوں والی شلوار قمیص میں ایک ملزم میرے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ نئی بغیر نمبر پلیٹ کار میں ان صاحب کو روکا ہے، ان کے پاس کار کے کاغذات ہیں نہ ڈرائیونگ لائسنس۔ حکم دیں تو ان کی موٹر قبضے میں لے لی جائے۔ میں نے ان صاحب کا نام پوچھا تو انھوں نے بتایا ''وقار احمد۔'' اب میں نے انھیں پہچان لیا اور کھڑے ہو کر دوبارہ پوچھا ''وقار صاحب؟'' وہ بولے ''یس سر۔'' میں نے سارجنٹ سے کہا کار کی چابی انھیں واپس کرو، خود کار کا دروازہ کھول کر انھیں بٹھاؤ اور سیلوٹ مار کر رخصت کرو۔ وہ پاسپورٹ اب بھی بطور سوینیئر میرے پاس موجود ہے۔
نور محمد مغل یعنی نورے کا ذکر ہوا ہے تو اس دن کی یاد بھی تازہ کر لی جائے۔ جب میں نے پہلی بار اس کا دیدار کیا اور شاید میں سنی سنائی باتوں سے اس شخص کی اہمیت کا اندازہ ہی نہ کر پاتا اگر بھٹو صاحب کو اس کا نام لے کر پکارتے نہ سنا ہوتا۔ اتفاق سے اسے پہلی بار راولپنڈی کے بڑے ہوٹل میںہی دیکھا۔ پس منظر اس کا یوں ہے کہ میرے کزن مرزا سعید علی کا کراچی سے فون آیا کہ اس کے کورس میٹ عابد حسین راٹھور کی پاکستان نیوی کی طرف سے بحیثیت ADC بھٹو صاحب کے ساتھ پوسٹنگ ہوئی ہے لیکن وہ راولپنڈی میں کسی بھی شخص سے متعارف نہیں لہٰذا میں اسے کمپنی دوں۔ راٹھور صاحب راولپنڈی پہنچنے کے دوسرے دن اور پھر تیسرے دن آئے لیکن اس کے بعد غائب ہوگئے۔ اب میں ان کی تلاش میں نکلا اور ان کے بلانے پر PM ہاؤس پہنچا۔
وہ آفس میں تھے اور ان کے سامنے منسٹر، جرنیل اور مرکزی سیکریٹری وغیرہ بیٹھے تھے۔ کچھ دیر کے بعد میں نے دل میں خود سے کہا میاں اب راٹھور صاحب کو تمہاری کمپنی کی ضرورت نہیں رہی۔ راٹھور صاحب کی شادی کچھ عرصہ بعد راولپنڈی ہی میں ہوئی۔ دعوت ولیمہ ایک بڑے ہوٹل میں تھی۔ میری شادی نئی نئی ہوئی تھی۔ ہم میاں بیوی دعوت میں پہنچے۔ ہوٹل میں لمبی راہداری اور مین فنکشن ہال کے درمیان ایک انتظارگاہ تھی جہاں قریباً سارے کیبنٹ منسٹر بھٹو صاحب کے انتظار میں نصف دائرہ بنا کر کھڑے تھے۔ میں ان سے ہٹ کر کونے میں وزیراعظم کو آتے دیکھنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔
بھٹو صاحب راہداری سے انتظارگاہ میں منتظر کھڑے وزراء تک پہنچے اور بجائے وزراء میں سے کسی سے بات کرنے کے وہ انھیں میں کھڑے ایک شخص سے دوستانہ لہجے میں مخاطب ہوئے ''او نور محمد یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو'' اور وہ شخص جو نورا تھا، وزراء کے سرکل میں سے چھپتا ہوا ریورس گیئر میں پیچھے نکل گیا۔ بھٹو صاحب نے اس کے بعد وزراء سے ملاقات اور بات چیت شروع کر دی۔ عابد راٹھور بھی وہیں تھے، میں بھی بھٹو صاحب سے ملا اور جس صوفے پر وہ بیٹھے تھے، میں اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ فوٹوگرافر تصویریں بنا رہے تھے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ ایک تصویر میرے حصے میں بھی آئی جو اب فریم ہو چکی ہے۔ اس موقع پر مجھے بھٹو صاحب کی نور محمد سے قربت کا بھی اندازہ ہو گیا جس کے پیش نظر میں نے چند روز بعد اسے چائے پر بلا کر عبدل کی Petition دی تھی۔
اس کے بعد بھٹو صاحب کو میں نے لگاتار تین روز اپنی لاہور میں تعیناتی کے وقت لاہور ہائی کورٹ میں دیکھا جہاں وہ صبح کے وقت جسٹس مولوی مشتاق کی عدالت میں پیشی کے لیے لائے جاتے تھے۔ میری ڈیوٹی صرف اتنی تھی کہ جب وہ پولیس کی نگرانی میں لائے جائیں تو کار سے اترنے پر انھیں ہمراہ لے کر عقیل صاحب کے کمرے میں چھوڑوں جہاں بیٹھ کر وہ عدالت میں حاضری سے پہلے کافی کا کپ پیتے تھے۔