اول جلول
کل مریضوں کا محبوب ماہنامہ ’’اول جلول‘‘ ایک ردی فروش کے ہاں سے سستے داموں مل گیا۔
GILGIT:
کل مریضوں کا محبوب ماہنامہ ''اول جلول'' ایک ردی فروش کے ہاں سے سستے داموں مل گیا۔ میں نے سڑک سے اٹھا لیا کہ کسی نہ کسی کام آہی جائے گا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس معاملے میں خود میری ہی گردن پھنسنے والی ہے۔ میں دودھ ملا پانی پی پی کر اور بازار کا ٹارزن بناسپتی گھی کھا کر کافی صحت مند ہوچکا ہوں، آنے والی نسل کے بارے میں گھنٹوں اداس رہتا ہوں کہ یہ کیا کریں گے۔ اگر انھیں ٹارزن بناسپتی نہ ملا تو وہ کیسے صحت مند رہیں گے؟
ہاں تو میں آپ کو ماہنامہ ''اول جلول'' کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اس کے ایک مضمون ''کیا آپ کو ساری رات نیند نہیں آتی؟'' نے توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ نیند تو مجھے بھی ساری رات اور سارا دن نہیں آتی۔ معلوم نہیں میں سوتے میں جاگتا ہوں یا جاگتے میں سوتا ہوں۔
بات یقیناً آپ کی سمجھ میں نہیں آئی ہوگی۔ آ بھی کیسے سکتی ہے، جب تک کہ میں آپ کو اپنی بے خوابی کا پس منظر نہ بتا دوں۔ ہوا یہ کہ ہمارے محلے میں پولیس سے مک مکا کرکے ایک جواخانہ کھل گیا۔ ایک صاحب نام جس کا نامعلوم نہیں کیا تھا مگر لوگ اسے ارسطو کہنے لگے تھے۔ وہ ہمہ وقت لوگوں کی فلاح و بہبود کی ترکیبیں سوچتا رہتا تھا، کرتا کچھ نہیں تھا۔ نفع نقصان آڑے آجاتا تھا۔ سوچتا کہ مجھے کتنے پیسے کا فائدہ ہوگا؟ اس نے سوچا تھا کہ عوام کے مطالعے کے لیے تہ خانہ لائبریری بناؤں۔ پھر سوچ کی دوسری لہر اٹھی اور وہ مخمصے میں پڑگیا۔ خواہ مخواہ کتابیں اور اخبارات جیب سے خریدنا پڑیں گے، جب کہ میری جیب میں کچھ نہیں جائے گا۔ پہلے کبھی کسی ہندو بنیا کی دکان پر بیٹھا کرتا تھا، اس لیے حساب کتاب میں بہت ماہر تھا۔ میں کہتا تھا کہ ارسطو کے بجائے اس کا نام فیثاغورث ہونا چاہیے تھا۔
دوستوں سے مشورہ کرکے اس نے جوا خانہ کھولنے کا پروگرام بنا ڈالا۔ ابھی اس پروگرام پر عمل نہیں ہوا تھا کہ اس کے ایک کائیاں دوست لالو پرشاد نے بتایا کہ جوا خانہ کھولنے کی یہاں اجازت نہیں ہے، پولیس اندر کردے گی۔ تم کلب کی آڑ لے لو، انٹرٹینمنٹ کلب یعنی ''می را کلب'' جیسا کوئی نام رکھ لو۔ ''می را'' کی تصاویر دیکھ کر ارسطو پہلے ہی اس پر فریفتہ تھا، چنانچہ اس نام پر رضامندی ظاہر کردی۔ پھر پولیس سے پرسنٹیج طے ہوگیا۔ انھوں نے اپنا آدمی مظہر شاہ وہاں لگادیا۔
کلب کی مشہوری کے لیے گلی کوچوں میں فوٹو اسٹیٹ پوسٹر لگادیے گئے۔ سورج ڈوبنے کے بعد وہاں وہی کچھ ہونے لگا جو اوپر مذکور ہے۔ میں نے کافی دن خود کو قابو میں رکھا، لیکن جب چُل کاٹنے لگی تو ایک رات میں بھی وہاں چلا گیا۔ وہاں کئی افراد کو دو کے چار بناتے دیکھا تو میرے منہ سے وافر مقدار میں پانی ٹپکنے لگا۔ میں اٹھا کہ گھر سے کچھ رقم لاکر داؤ لگاؤں۔
''کہاں جارہے ہو باقر؟'' مظہر شاہ نے پوچھا۔
نام تو اس کا کچھ اور تھا، لیکن نہ معلوم کیوں اسے مظہر شاہ کہلانے کا شوق تھا، جو پنجابی فلموں میں ویلن کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔ ڈھیلا ڈھالا کرتا، گلے میں پھولدار رومال اور پاؤں میں پشاوری چپل۔ اسے مظہر شاہ کی تقریباً سب ہی فلموں کے مکالمے یاد تھے۔ اس کی محلے پر حکومت تھی، اس لیے کہ اس نے چوہدریوں کی طرح بہت سے چیلے پال رکھے تھے جو بھتہ نہ ملے تو منٹوں میں دھڑن تختہ کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ مظہر شاہ کے دونوں ہاتھ گھی میں، سر کڑھائی میں رہا کرتا تھا۔
میں نے اسے داؤ لگانے کے بارے میں بتایا تو اس نے سرگوشی میں کہا۔ ''مجھ سے لے لو، گھر جانے کی کیا ضرورت ہے؟''
پھر اس کے اشارے پر اس کے چیلے بشیرے نے مجھے ایک ہزار روپے دے دیے۔ ابتدا میں تو میں جیتتا رہا، تاش کا معمولی کھیل تھا جس میں داؤ لگایا جاتا تھا، جب میری جیبیں نوٹوں سے بھر گئیں تو میں گھر جانے کے لیے اٹھا، مظہر نے کھیل کے اصول یاد دلائے کہ مجھے پہلے ہی بتادیا گیا تھا کہ کوئی کھلاڑی دو گھنٹے سے پیشتر نہیں اٹھ سکے گا، میں بیٹھ گیا، لیکن پھر جو بازیاں ہارنے لگا تو دل ڈوبنے لگا۔
دو گھنٹے بعد گھر آیا تو دونوں جیبیں خالی تھی اور مظہر کا دو ہزار کا مقروض ہوچکا تھا۔ بستر پر لیٹا تو نیند غائب ہوچکی تھی۔ پھر خیال آیا کہ بازیاں تو میں نے اپنی حماقت سے ہاری تھیں۔ اگر دوسری طرح سے کھیلتا تو جیت جاتا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اگلی رات انھیں تگنی کا ناچ نچادوں گا۔ گھر میں جتنی رقم تھی اٹھا کر جیب میں ڈالی اور اگلی رات پھر ''می را کلب'' پہنچ گیا۔ انجام پہلے کی طرح ہوا۔ گھر کی رقم داؤ پر لگ گئی اور مظہر کے دو ہزار مزید چڑھ گئے۔ میری نیند بالکل ہی غائب ہوگئی۔ پھر گھر سے صوفے، الماریاں اور کراکری جانے لگی تو نیند بھی چلی گئی۔ اب آپ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ میری نیند کیسے جاتی رہی۔ ایسے میں ''اول جلول'' مل گیا تو میں نے فوراً خرید لیا اور اس کا مطالعہ کرکے عمل شروع کردیا۔ ہدایت دی گئی تھی کہ ورزش کریں۔
ترکیب نمبر دو تھی کہ پارک میں جاکر گہرے گہرے سانس لیجیے۔ بڑی مشکل سے دو میل دور ایک پارک ملا، جس میں گدھے بندھے ہوئے تھے۔ لوگوں نے اسے کچرا کنڈی بھی بنایا ہوا تھا۔ جہاں گھاس ہونی چاہیے تھی وہاں دھول تھی۔
اول جلول کی تیسری ترکیب تھی کہ پھل کھائیں۔ میں ایک روز پھلوں کے ٹھیلے کے نزدیک تو پہنچ گیا، لیکن پھل نہ کھا سکا۔ وہ جو دام بتا رہا تھا، اگر اس دام پر پھل لے کر کھاتا رہتا تو ایک ماہ بعد یقیناً مکان گروی رکھنا پڑتا۔ رسالے میں چوتھی ترکیب یہ درج تھی کہ خوابگاہ کا ماحول درست رکھیے، ہلکی روشنی کا بلب جلائیے۔ میں نے اس ہدایت پر بھی عمل کرکے دیکھ لیا۔ میری چھوٹی بیٹی راحیلہ دوسرے کمرے میں ٹیلی وژن چلا کر اسکول کا کام کرتی ہے۔ اس وقت بھی وہ پتا نہیں کس کا ''الٹا چشمہ'' دیکھ رہی تھی۔
جب اسے کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو وہ خوابگاہ میں داخل ہوکر تیز روشنی کا بلب روشن کرتی اور اپنے بک شیلف سے کتاب نکال کر پھر دوسرے کمرے میں چلی جاتی۔ بلب بجھانا وہ بھول جاتی تھی، اس لیے یہ کام مجھے ہی کرنا پڑتا۔ وہ مزے سے اسکول کا ہوم ورک کرتی رہتی اور میں مزے سے جاگتا رہتا۔
میری بے خوابی کی وجہ تو آپ نے جان لی ہوگی اور اس کے پس منظر سے بھی واقف ہوگئے ہوں گے۔ میرے عزائم مردہ نہیں ہوئے۔ اب بھی مجھے حوصلہ ہے کہ میں سب کو شکست فاش دے دوں گا اور ان کا قرض اسی رقم میں سے ادا کردوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب میں نے پابندی سے ''می را کلب'' جانا شروع کردیا ہے اور بڑا پتے باز بن گیا ہوں۔ نیند؟ میری تو ایک طرف رہی سارے گھر والوں کی اڑ چکی ہے۔