اندھا پن
سگنل کھل گیا۔ گاڑیاں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگیں، مگر درمیانی لین کی ایک گاڑی جانے کیوں رُکی ہوئی تھی۔
سگنل کھل گیا۔ گاڑیاں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگیں، مگر درمیانی لین کی ایک گاڑی جانے کیوں رُکی ہوئی تھی۔ رش بڑھتا جارہا تھا۔ ہارن بجنے لگے۔ سب مضطرب تھے۔
لوگ اُس گاڑی کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص پر پریشانی کا آسیب سوار تھا۔ اس کے بازوؤں کی حرکت بے بسی کی عکاس تھی۔
آدمی نے کرب ناک لہجے میں انکشاف کیا کہ اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ آنکھوں کے آگے سفید روشنی چھائی ہے۔ وہ اندھا ہوگیا ہے۔
لوگوں نے اس کے لیے ہم دردی محسوس کی۔ ایک نیک دل آدمی نے اُسے گھر تک پہنچانے کی پیش کش کی۔ وہ اُس کی گاڑی چلاتا ہوئے نہ صرف بتائے ہوئے پتے تک لے گیا، بلکہ اسے فلیٹ کے دروازے تک بھی چھوڑنے آیا۔
اب آدمی اپنے ہی گھر میں کسی اجنبی کی طرح کھڑا تھا۔ ان راہ داریوں سے لاعلم، جہاں سے روز ہی گزرتا تھا۔ وہ چیزوں سے ٹکرا رہا تھا۔ بیوی گھر لوٹی، تو ناقابل فہم صدمہ اس کا منتظر تھا۔ وہ اپنے پریشان حال شوہر کا بازو تھامے ڈاکٹر کے پاس جانے کے ارادے سے نکلی، تو اندازہ ہوا؛ آدمی کو گھر تک چھوڑنے والا نیک دل شخص دراصل ایک چور تھا۔ وہ اس کے اندھے پن کا فائدہ اٹھا کر گاڑی لے اڑا۔
کلینک میں کچھ اور مریض بھی تھے، مگر اس کی بدحالی کے باعث ڈاکٹر نے پہلے اُس کا معائنہ کیا۔ آنکھوں میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ اس نے کچھ ٹیسٹ لکھ دیے، اور میاں بیوی کو مطمئن رہنے کا مشورہ دیا۔ البتہ ڈاکٹر خود مطمئن نہیں تھا۔ گھر آکر اس نے واقعے کا اپنی بیوی سے تذکرہ کیا۔ رات بھر اسٹڈی میں بیٹھا اس کیس پر غور کرتا رہا۔
دوسری طرف وہ چور ایک المیے کا شکار ہوچکا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بھی سفیدی چھا گئی۔ اسی شام ڈاکٹر کے کلینک پر آنے والی ایک خوب رو لڑکی اس پُراسرار مرض کا شکار ہوگئی۔ صبح تک ڈاکٹر بھی اپنی بینائی کھو چکا تھا۔
یہ نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ادیب، ہوزے سارا ماگو کے شہرۂ آفاق ناول Blindness کی کہانی ہے۔ وہ ناول، جسے پڑھ کر مستنصر حسین تارڑ جیسے فکشن نگار نے اپنی کتابیں جلا دینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
بے نام کردار تخلیق کرنے کے لیے مشہور، رموز واوقاف سے اجتناب برتنے والا، سیدھی سادی کہانیوں سے نئی دنیا تخلیق کرنے والا ہوزے سارا ماگو ایک باکمال ادیب تھا۔ یہ ناول 1997 میں شایع ہوا۔ اِسے معروف شاعر، احمد مشتاق نے ''اندھے لوگ'' کے نام سے اردو روپ دیا۔
ناول بڑے ہی ڈرامائی انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ دھیرے دھیرے لوگ اپنی بینائی سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ حکومت سراسیمگی کا شکار ہوجاتی ہے۔ اندھوں کو، جنھیں کل تک فقط معذور سمجھا جاتا تھا، اب خوفناک متعدی مرض کا شکار قرار دے کر شہر سے پرے ایک دماغی اسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اُن کا علاج کرنا نہیں، بلکہ انھیں سماج سے کاٹ دینا ہے۔
وہ اسپتال ایک ہولناک قید خانہ تھا۔ دھیرے دھیرے اندھے پن کا شکار ہونے والے بدبخت لڑکھڑاتے ہوئے، دیواریں ٹٹولتے ہوئے وہاں آنے لگتے ہیں۔
ابتدا میں ہمارا سامنا ان کرداروں سے ہوتا ہے، جنھیں ہم ناول کے آغاز میں کہیں نہ کہیں دیکھ چکے ہوتے ہیں، مگر جلد ہی یہ مرض وبائی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ روز ہی سپاہی درجنوں اندھوں کو خاردار تاروں میں گِھرے اسپتال میں دھکیل دیتے ۔ اگرکوئی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، تو اُسے گولی مار دی جاتی۔
یہ شان دار ناول انسانی رویوں کی پُرپیچ اشکال آشکار کرتا ہے۔ سوچنے پر مجبور کرتا ہے، سوال اٹھاتا ہے کہ اگر انسان کو احساس ہوجائے کہ اُسے کوئی دیکھ نہیں رہا، کیا وہ تب بھی قوانین کا احترام کرے گا، سماجی اصولوں کی پاس داری کرے گا، کیا رشتے اپنی حیثیت قائم رکھ سکیں گے؟ یا پورا سماج تلپٹ ہوجائے گا۔
ناول کا سب سے پریشان کن حصہ وہ ہے، جہاں اندھوں ہی میں ایک استحصالی گروہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہ چند اندھے ہیں، جن کے پاس اسلحہ ہے، اور اس اسلحے کی بنیاد پر وہ اوروں کو ملنے والی سہولیات پر، اُن کے حقوق پر قابض ہوجاتے ہیں۔
Blindness میں اہم ترین کردار ڈاکٹر کی بیوی کا ہے۔ دماغی اسپتال میں موجود واحد انسان، جو اندھی نہیں ہے، مگر شوہر کی محبت سے بندھی اُس جہنم میں چلی آئی۔ وہ اندھوں کو سنبھالتی ہے، رہنمائی کرتی ہے، اور قابض گروہ سے آزاد کرواتی ہے۔
اختتامیے میں، جب لوگ اس عجیب و غریب طرز زندگی کے عادی ہونے لگتے ہیں، ایک ایک کرکے آنکھوں کے آگے چھائی سفیدی چھٹنے لگتی ہے، اُن کی بنیائی لوٹ آتی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر کی بیوی اِن الفاظ میں اِس پُراثر قصے کا بنیادی خیال بیان کرتی ہے: ''مجھے نہیں لگتا کہ ہم کبھی اندھے ہوئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اندھے ہیں۔ اندھے لوگ، جو دیکھ سکتے ہیں، لیکن نہیں دیکھتے!''
اس ناول کو پڑھتے ہوئے بار بار اپنے سماج کی طرف دھیان جاتا ہے۔ اپنے اردگرد کی دنیا آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ ہماری صورتحال بھی تو یہی ہے۔ آنکھیں تو ہیں، مگر اُن کے آگے کئی پردے پڑے ہیں، جنھوں نے ہمیں اندھا کر دیا ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے المیے کا ادراک نہیں۔
کیا سماجی بے حسی اندھا پن نہیں؟ ہم فقط چند دنوں میں سانحات بھلا دیتے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن جیسا آتشی واقعہ اب کسے یاد ہے۔ کوئٹہ کے زخم ہم بھول گئے۔ کراچی میں ہونے والی سیکڑوں ہلاکتیں صدیوں پرانا قصہ لگتی ہیں۔ کتنی مساجد خون سے سرخ ہوئیں، کتنے چرچ جلائے گئے، بستیاں تاراج ہوئیں، عورتیں بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے، سانحات کے کتنے ہی جنگل ان برسوں میں ہمارے اردگرد اُگ آئے۔ مگر بے حسی ایسی ہے کہ درندوں سے بھرے یہ جنگل کچھ ہی پلوں میں نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ حادثات ہوتے ہیں، ہم افسوس کرتے، اور بھول جاتے۔ کچھ ہی روز کی بات ہے، قصور واقعہ بھی ذہنوںسے یوں محو ہوجائے گا، جیسے کبھی ہوا ہی نہیں۔
علم سے دوری بھی تو اندھا پن ہے۔ ہم اُس دین کے ماننے والے، جس نے حصول علم کو شرط قرار دیا، کائنات پر غور و فکر لازم ٹھہرایا، کتاب مبین نے عمل خدا کے مشاہدے کا حکم دیا، مگر ہم نے تاریکی کا راستہ چنا۔ پستی کی راہ کا انتخاب کیا۔
کیا حقائق سے چشم پوشی اندھا پن نہیں؟ فرقہ واریت ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلی۔ زہریلے نعرے تناور درخت بنے۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کا کھیل کھیلا گیا، اسلحہ پھیلتا گیا، شدت بڑھتی گئی۔کیا ہمیں علم نہیں تھا کہ نفرت کے بیجوں سے اُگنے والی فصل کل ہمارے ہی بچوں کی بھینٹ مانگے گی!
اور کیا آزمائے ہوئے حکم رانوں کو بار بار منتخب کرنا اندھا پن نہیں؟ وہ، جنھوں نے اپنے وعدوں کا پاس نہیں کیا، فقط اپنے مفادات پیش نظر رکھے، عوام کے خون سے اپنی مسند کو غسل دیا، بار بار پلٹ آتے ہیں کہ ہم نے اندھے نعروں کی تقلید کو خود پر لازم کر رکھا ہے۔
مظلوم کی حمایت نہ کرنا بھی تو اندھا پن ہے۔ ہم اُن کے لیے آواز بلند نہیں کرتے۔ الٹا ظالم کے حق میں جواز تراش لیتے ہیں۔ اور کیا تہذیبی نرگسیت اندھا پن نہیں؟ خود کو برتر، دوسرے کو کم تر خیال کرنا۔ یہ لسانی اور مذہبی تقسیم، کھوکھلا احساس تفاخر، صنفی تفریق؛ یہ سب ہماری بینائی سے محرومی کی کہانی ہے۔
ہاں، ہم اندھے ہیں۔ اندھے لوگ جو دیکھ سکتے ہیں، لیکن نہیں دیکھتے!
اس ناول میں ڈاکٹر کی بیوی کا کردار ایک علامت ہے۔ ایک دانا اور بینا حکمراں کی علامت۔ اگر رہبر دیکھ سکتا ہو، آنکھیں رکھتا ہو، تو اندھوں کو بھی منزل پر پہنچا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ بھی نابینا ہو، تو بھٹکنا کارواں کا نصیب بن جاتا ہے۔
ٹھیک ویسے ہی، جیسے ہم بھٹک رہے ہیں۔