عوامی ہیروز
ہماری قوم کے بچوں کو ان کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔
پاکستان میں ایسے گنے چنے لوگ بہت کم ہیں جنھوں نے وطن کی خدمت میں کچھ اچھے کام کیے، جن کی وجہ سے ان کے ناموں کو قوم ہمیشہ بڑے احترام سے یاد رکھے گی، جن میں قائداعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح ہیں، جنھوں نے رات دن محنت کرکے پاکستان کا صحیح مقدمہ لڑا۔ انگریزوں سے آزادی ہند میں مسلمانوں کی الگ ریاست کے وجود کو منوایا اور برصغیر میں ایک بڑی مملکت پاکستان وجود میں آئی۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد راجہ محمود آباد مرحوم کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔
جنھوں نے آزادی پاکستان کی تحریک چلانے والی مسلم لیگ کو اس زمانے میں 20 لاکھ ماہانہ چندہ دیا اور خود راجہ صاحب محمود آباد اپنی ریاست کو چھوڑ کر پاکستان آئے، ان کے ساتھ اصفہانی اور ہارون فیملی بھی اس تحریک کا حصہ رہی، یہ حضرات قائداعظم محمد علی جناح کے اہم ساتھیوں میں تھے، لیکن ان میں سے کسی نے پاکستان سے اپنے اثر و رسوخ سے کوئی ناجائز آمدنی نہیں کمائی، اس لیے یہ لوگ ان میں ہیں جن کو ہمیشہ عزت و احترام سے یاد رکھنا چاہیے۔
ہماری قوم کے بچوں کو ان کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو وہ شخصیت ہیں جنھوں نے ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بچے کچھے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچایا اور اس وقت کے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان جنھوں نے 11 سال تک آمرانہ حکومت کی، ان کو مجبور کیا وہ استعفیٰ دیں اور ان کے بعد کے جنرل محمد یحییٰ خان کو عام انتخابات کرانے پر مجبور کیا، پاکستان میں ایک ایسی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے بنائی ۔
جس نے مختصر عرصے میں بڑی شہرت حاصل کرلی اور پی پی پی وہ واحد جماعت جس نے 1971 کے عام انتخابات میں پانچ صوبوں میں سے تین صوبوں میں واضح اکثریت حاصل کی، اس میں سندھ اور پنجاب شامل ہیں۔ جب کہ عوامی لیگ جس کے قائد شیخ مجیب الرحمن تھے، انھوں نے لسانی بنیاد پر صرف مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی۔ اس طرح اے این پی جس کے سربراہ خان عبدالولی خان تھے، انھوں نے صرف صوبہ سرحد (کے پی کے) میں واضح اکثریت لی اور اس طرح عطا اللہ مینگل نے صوبہ بلوچستان میں لی تھی۔
واحد ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی تھی جس نے پنجاب و سندھ سے واضح اکثریت لی، مگر لسانیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ وفاق پرستی کے نام پر۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے گریٹر بلوچستان اور پختونستان اور سندھودیش جیسی علیحدگی پسند تحریکوں کو غیر مقبول بنایا بلکہ ان کی تحریک کو بے اثر کیا، اس طرح پاکستان مزید ٹکڑے ہونے سے بچ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہمارے 90 ہزار قیدی اور مقبوضہ علاقے ہندوستان سے آزاد کروائے اور شملہ معاہدہ کرکے ہندوستان کو پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسٹیل مل کو، جو ڈھاکا میں لگایا جانا تھا اسے کراچی میں لگایا، انھوں نے پاکستان کا 1973 کا متفقہ آئین دیا اور اس ملک کو جو دنیا کا پہلا اسلامی ملک ہے اسے جوہری قوت کے قابل بنایا۔ وہ ایک پیدائشی رہنما تھے جنھوں نے پاکستان کی بہت خدمت کی، اس لیے ہم ان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
ان گنے چنے ناموں میں ایک نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے، جو بہت بڑے ایٹمی سائنسدان ہیں، جو ہالینڈ میں بہت آرام دہ زند گی گزار رہے تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر وہ پاکستان واپس آئے اور وطن کو جوہری قوت میں تبدیل کرنے کا فنی سہارا ان کے ہاتھوں انجام ہوا، قوم ان کے نام کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اچھے ناموں میں سماجی خدمت میں عبدالستار ایدھی بھی ہیں، جنھوں نے پورے ملک میں مریضوں کو فوری طبی امداد اور نقل مکانی میں بہت مدد کی، آفت زدہ علاقوں میں اپنی خدمات انجام دیں، ان کی سماجی خدمت صرف پاکستان تک محدود نہ رہی، بلکہ بیرون ملک بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
ملک اور قوم کی نظریں ان کو بھی ایک ہیرو تسلیم کرتی ہیں۔ حالیہ دہشت گردی میں جس میں القاعدہ اور طالبان جیسے دہشت گرد شامل ہیں، جنھوں نے عورتوں، بچوں پر بھی بڑے مظالم کیے، حتیٰ کہ تعلیم گاہوں کو بمعہ طلبا و طالبات کے مسمار کیا، اس میں ملالہ یوسف زئی جیسی بچی نے سوات میں جس ہمت اور بہادری سے ان دہشت گردوں سے مقابلہ کیا، وہ پوری دنیا نے تسلیم کیا اور وہ پاکستان کی مظلومیت کی پہچان ہوگئی، اس طرح اعتزاز احسن ایسا طالب علم جس نے اسکول میں دہشت گردوں کے مقابلے میں آکر جام شہادت نوش کیا، مگر اپنی دلیری اور بہادری سے وہ دوسروں کو بچانے میں ڈھال بن کر کامیاب ہوا، اس کا نام بھی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔
پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری خدمات کچھ کم نہیں، وہ ایسی سیاستدان تھیں جنھوں نے پاکستان کے عوام کو مشکلات سے نکالنا چاہا مگر بعض لوگوں نے انھیں کام سے روکے رکھا، جو وہ حقیقتاً عوام کے لیے سرانجام دینا چاہتی تھیں، انھوں نے بجلی کے بحران پر جو اقدامات کیے تھے، تھر میں جو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے اور کراچی میں ماس ٹرانزٹ سے میگا پروجیکٹ کو ان کے بعد آنے والی حکومت نے پس و پیش ڈال دیا۔
آج شہرکراچی جن مشکلات کا شکار ہے وہ سب ان پروجیکٹ پر عمل نہ کرانے سے ہے، جو محترمہ بے نظیر انجام دینا چاہتی تھیں۔ ان کے بعد ان کے شوہر نے پی پی پی قیادت بھی ہاتھ میں لے لی اور ملک کی قیادت بھی مگر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے عوامی اور غریب پرست منصوبوں پر کوئی عمل نہ کیا، پی پی پی کو پنجاب سے نکال کر صرف سندھ تک محدود کردیا، لیاری گینگ وار کا ناسور انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوا۔ پی پی کا ووٹ بینک تھا، سیاسی قلعہ قراردیاگیا تھا مگر پیپلز پارٹی کے لیے لیاری میں رسوائی کا سامان کر گیا۔اہل علاقہ دربدر ہوگئے۔ اس سب کے ذمے دار وہی ہیں جو بے نظیر کی ٹیم کو دور کر کے من پسند لوگوں کو آگے لائے، جو کبھی ضیاء الحق کے ساتھی تھے۔بے لوث سیاسی کارکنوں کو دیوار سے لگایا گیا۔ اس لیے نتائج سب کے سامنے ہیں۔