پامیر کی پکار انٹرنیشنل دفاعی بریگیڈ
دنیا میں شور پڑگیا کہ پامیر پامال ہو رہا ہے۔ ہزاروں برس پرانے انسانی اثاثوں کے نگہبان کا سر قلم ہو گیا۔
WASHINGTON:
وہ شخص قدیمیات کا شناور تھا۔ پچھلی نصف صدی سے پامیر میں بیٹھا اس علاقے کی قدیم تہذیبوں کے اثر آثار کی نگہبانی کر رہا تھا۔ اب بیاسی کے پیٹے میں تھا۔ خالد الاسد ماہر آثار قدیمہ اور اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دو ہزار برس پرانے معبد کو ان کے ہاتھوں ڈھیتے دیکھا۔ کفر کے ایک بڑے نشان کو مٹا کر وہ کتنے خوش تھے۔
مگر پھر ان پر کھلا کہ قدیم تہذیب کے کیسے کیسے نوادرات ہیں کہیں کسی خفیہ گوشے میں محفوظ ہیں۔ وہ دستیاب ہو جائیں تو سمجھ لو کہ قارون کا خزانہ ہاتھ آ گیا۔ کہاں ہیں وہ نوادرات۔ تب وہ اس بوڑھے عالم آثار قدیمہ کی طرف متوجہ ہوئے، پوچھ گچھ بہت کی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اچھا پھر یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ انھوں نے اس کا سر قلم کر دیا۔ ہمارے زمانے میں جہانِ فنون کا پہلا جانثار ؎
بازی اگر نہ جیت سکا سر تو دے سکا
دنیا میں شور پڑگیا کہ پامیر پامال ہو رہا ہے۔ ہزاروں برس پرانے انسانی اثاثوں کے نگہبان کا سر قلم ہو گیا۔ مگر پامیر کی تباہی کے وسوسوں اور اندیشوں میں یہ خبر کچھ اس طرح دبی کہ اس کے باب میں نہ کوئی افسوس کا اظہار نہ اس کی قدیم تہذیبی ورثے سے وفا کا ایسا اظہار کہ مطلوبہ معلومات فراہم نہ کرنے کی قسم کھائی کہ بیشک سر قلم ہو جائے تہذیبی ورثے کا اتاپتہ نہیں دوں گا۔ کسی طرف سے ایسی خبر نہیں آئی کہ فلاں میوزیم میں یا فلاں آرٹ گیلری میں تعزیتی جلسہ ہوا اور اس جانثار کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ بقول میر؎
کوئی رویا نہ قتل پر میرے
بہرحال ان دنوں دنیا بھر میں شور پڑا ہوا ہے کہ قدیمیات کی بڑی آرام گاہ پامیر اس وقت اس بڑے خطرے سے دوچار ہے جسے داعش کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ شام میں جہاں پامیر واقع ہے سب ملکوں سے بڑھ کر قدیم تہذیبوں کے کھنڈر واقع ہیں۔ خالی قدیم تہذیبوں کے قریے اور معبد نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کے بھی کتنے اثر آثار یہاں موجود ہیں اور کتنی مبارک ہستیوں کے مزار جہاں کہاں مرجمع خلائق بنے ہوئے ہیں اور یہ ملک اس وقت داعش کی زد میں ہے۔ اس کے متصل عراق ہے جہاں بابل کے سوا اسلامی تاریخ کے کیسے کیسے مبارک قریے اور شہادت گاہیں یہاں موجود ہیں۔ بقول اقبال ؎
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
نجف بھی یہیں ہے اور کربلا بھی یہیں ہے اور کیسے کیسے صوفی کا مزار کیسے کیسے عقیدت مند کو یہاں کھینچ کر لاتا ہے۔ یہ ملک بھی داعش کی زد میں ہے۔
اب یہ سب مقامات ایسے سب قریئے، قدیم تہذیبوں کے سارے مدفن، مندر اور سمادھیاں اور خود اسلامی تاریخ کے سارے مبارک و مقدس اثر آثار مخالف تہذیب طاقتوں کے نرغے میں ہیں۔ اس تباہی بربادی کے کاروبار کا آغاز افغانستان میں نصب مہاتما بدھ کے مجسمہ کی مسماری سے ہوا تھا۔ دنیا کے مختلف ملکوں اور آثار قدیمہ کے محافظ اداروں نے کتنی اپیلیں کیں کہ اس مجسمہ کو نہ چھیڑو یہاں کوئی اس کی پوجا نہیں کرتا۔ یہ تو اب بس آثار قدیمہ کا حصہ ہے۔ مگر ادھر ساری منت و سماجت کا، ساری درخواستوں اور اپیلوں کا ایک ہی جواب تھا۔ نہیں، نہیں، نہیں ؎
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
خیر اس کے بعد ان بت شکنوں کی توجہ بتوں سے ہٹ کر ہمارے صوفیا کے مزاروں، درسگاہوں کی طرف ہو گئی۔ اور تو اور لاہور میں داتا دربار پر بھی ان کا نزلہ گرا۔ ادھر خیبرپختونخوا میں رحمن بابا کا مزار ان کا ہدف تھا۔ خیر یہاں تک حملہ آوروں کا رویہ سمجھ میں آیا۔ وہ بھی آدھا۔ مطلب یہ کہ وہ تو مزاروں ہی کو بدعت جانتے ہیں۔ مگر مسجدیں تو بدعت کے ذیل میں نہیں آتیں۔ وہاں کیوں بم پھٹے۔ کیوں مسجدوں کے فرش خون آلود ہوئے اور نمازی اگر جماعت میں کھڑے نماز پڑھ رہے تو وہ کونسا قصور کر رے تھے۔
مگر خیر بین الاقوامی دنیا کو اس سے زیادہ غرض نہیں ہے کہ داتا دربار میں بم کیوں پھٹا اور بابا رحمن کے مزار کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ یا مسجد میں خودکش حملہ کیوں ہوا۔ یہ ان کے حساب سے مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے۔ وہ خود اس نبٹیں۔ اس میں ان کے عقائد کا بھی تو حصہ ہے۔ بہتر فرقے، بہتر فرقوں کے بہتر عقائد، ان عقائد کی گتھی کو کون سلجھائے۔
مگر جب قدیم تہذیبوں کے اثر آثار حملوں کی زد میں آتے ہیں۔ اور بابل اور پامیر میں بم پھٹتے ہیں تو بین الاقوامی دنیا فکر مند ہوتی ہے۔ قدیم تہذیبیں تو مٹ گئیں۔ ان کے ماننے والے بھی اب بے نشان ہیں۔ لیکن ان تہذیبوں کے اثر آثار کو بین الاقوامی دنیا بہت اہمیت دیتی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ اثر آثار انسانی تاریخ کے قدیم ادوار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ سو یہ تو پوری انسانیت کی ملکیت ہیں۔ اس ملکیت کا تحفظ پوری انسانی دنیا کی ذمے داری ہے۔ اسی بنا پر تو یونیسکو کا ادارہ وجود میں آیا ہے۔ کسی تہذیب کا کوئی کھنڈر خواہ وہ شاہی محل کا کھنڈر ہو یا کسی معبد کا کھنڈر ہو یا کسی بت کدے کا کھنڈر ہو؎
مسجد ہو، مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
اس کی مرمت اور اس کا تحفظ یونیسکو کی ذمے داری ہے۔ صاحبو۔ اگر ایسا ہے تو دیر کیوں کر رہے ہو اور دور دور کھڑے شور کیوں مچا رہے ہو۔ کیا اس صورت میں تمہاری ذمے داری یہ نہیں ہے کہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کو زیر بحث لاؤ اور ایسے مقامات کو جو اس وقت خطرے میں ہیں ان کے تحفظ کا بندوبست کرو۔
ارے یارو اگر تمہیں پامیر خطرے میں نظر آ رہا ہے تو اس کے لیے تم کوئی انٹرنیشنل بریگیڈ کیوں نہیں بناتے ہو۔ ایسے سارے قدیم قریئے، قدیم معبد، قدیم محلاتی کھنڈر پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ؎
خاک ہو جائیں ہم تم کو خبر ہونے تک
سو اے قدیم تہذیبوں کے اثر آثار پر برحق ملکیت جتانے والو، زبانی کلامی کب تک کرتے رہو گے۔ کچھ کرو؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا