تضاد کا شکار معاشرہ
ایک ہی پالیسی پر مختلف وزرا کے مختلف بیانات ہر روز ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف تضاد ہی تضاد ہے۔ ہر ادارہ، ہر شعبہ اور ہر شخص تضاد کا شکار ہے۔ حتیٰ کہ خود ہمارے حکمران بھی (وفاقی و صوبائی) ایک ذمے دار کچھ کہتا ہے اور دوسرا اس کے بالکل برعکس اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ حکومتی پالیسی تو یہ ہے ۔ یہ آپ مختلف زاویوں سے کیوں گفتگو کر رہے ہیں۔
ایک ہی پالیسی پر مختلف وزرا کے مختلف بیانات ہر روز ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اور کوئی ان سے اس متضاد بیانات کے بارے میں جواب بھی طلب نہیں کرتا۔ لگتا ہے کہ بس وقت پورا کیا جارہا ہے۔ رہے سیاست دان تو ان کی نظر میں سیاست کا مطلب ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہے اپنے بارے میں خوش فہمی اور دوسروں کے بارے میں گل افشانی، جو آج دوسری جماعت کے لیے کہا وہ آج خود پر صادق آگیا۔ مگر مجال ہے پیشانی پر ذرا پسینہ آیا ہو۔
گزشتہ ہفتے دس دن تو ملک کے ایسے گزرے کہ لگتا ہے کہ بھونچال آگیا ہے۔ سرحدی معاملات ہوں، دہشت گردی کے واقعات ہوں یا سیاسی اتار چڑھاؤ ہر طرف کچھ کھلبلی سی مچی ہوئی ہے۔ سیلاب اور بارشوں کا زور کچھ کم ہوا تو دہشت گردوں نے ایک بار پھر سر اٹھانے کی بقول وزیراعظم آخری کوشش شروع کردی، پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کا اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دہشت گردی کا نشانہ بننا جہاں اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے وہاں کراچی (سندھ) میں رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ بھی کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔
اتنے سخت حفاظتی انتظامات اور اتنے بڑے پیمانے پر کراچی آپریشن کے باوجود کسی رکن قومی اسمبلی پر حملہ اور ایسے وقت میں جب ان کی جماعت کے حکومتی ثالث کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہوں، عام شہری کے لیے لمحہ فکریہ ضرور ہیں۔ متحدہ کا اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے اسمبلی سے مستعفی ہونا بھی سیاسی بحران کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اللہ اللہ کرکے پی ٹی آئی کے استعفوں کا معاملہ طے ہوا تھا کہ یہ دوسرا پہلو سامنے آگیا۔ مگر لگتا ہے کہ حکومت کچھ نہ کرنے کے باوجود بہت کچھ کر رہی ہے اور وہ یہ کہ اس کی کوشش ہے کہ صورتحال کچھ بھی ہو مگر وہ اپنی مدت کسی طرح پوری کرے۔
مگر حکومتی وزرا اور ان کے مخالفین خاص کر پی ٹی آئی 2015 کو ہر صورت انتخابات کا سال قرار دینے پر مصر نظر آرہی ہے۔گزشتہ دنوں جو دو بے حد اہم واقعات رونما ہوئے ان میں ایک تو برقی ذرایع ابلاغ کے لیے ضابطہ اخلاق کا نفاذ ہے۔ جس کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ وقت کی اہم ضرورت تھا۔ آزادی اظہار ہر قوم اور ہر فرد کا بنیادی حق ہے کیونکہ مہذب و باوقار معاشرہ اس حق کے بغیر وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ مگر یہ آزادی اگر بے مہار و بے لگام اور خاص کر بے سمت ہو جائے تو مہذب معاشرہ تو تشکیل نہیں پاتا بلکہ پورا معاشرتی ڈھانچہ ہی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
اگر مادر پدر آزادی کسی معاشرے کو دی جائے تو پھر اس کو تباہی و بربادی سے کوئی بچا ہی نہیں سکتا۔ ایک عام انسان کی زندگی ہی اگر چند بنیادی اصولوں پر مبنی نہ ہو تو اس کو زندگی بسر کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔
بہرحال اس ضابطہ اخلاق کے بارے میں یوں تو ہمارے قارئین اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں مگر ہم اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہیں گے واقعی اس سلسلے میں برقی ذرایع ابلاغ کو لگام دینا بے حد ضروری ہوگیا تھا کہ یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہوچلا تھا اس کا یہ رویہ معاشرے کی تعمیر کے بجائے تخریب کا فریضہ ادا کر رہا تھا۔ کچھ اصول و ضوابط کے نفاذ کا مطلب آزادی صحافت پر قدغن لگانا ہرگز نہیں۔
وہ جو کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی اس کا حقیقی مظاہرہ وطن عزیز میں گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا کہ کچھ عرصہ قبل جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے پی ٹی آئی کو نہ صرف زبردست دھچکا لگایا بلکہ پی ٹی آئی کی بنی بنائی ساکھ کو بھی عرش سے اٹھاکر فرش پر دے مارا۔ جب کہ پی ٹی آئی اس رپورٹ کی بے چینی سے منتظر تھی اور سمجھ رہی تھی کہ یہ ان کے حق میں ہوگی۔
مگر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کہہ چکے تھے کہ کمیشن کی جو بھی رپورٹ آئے گی وہ کھلے دل سے اس کو تسلیم کریں گے اور واقعی اس سلسلے میں انھوں نے مکمل وقار اور حوصلے کا ثبوت دیا حالانکہ ان کے کارکنان اس صورتحال سے بے حد دل برداشتہ تھے مگر قسمت نے ہمیشہ (ان کی بے ڈھنگی چال کے باوجود) ان کا زبردست ساتھ دیا۔ ان کی پارٹی سیاست کے کئی مدو جزر سے گزر چکی ہے ابھی جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے اثرات تازہ تھے کہ اس فیصلے سے جو پی ٹی آئی کو خفت اٹھانا پڑی تھی اس پر حکومتی وزرا نے مضحکہ خیز بیانات دے کر صورت حال کو مزید گمبھیر بنادیا تھا۔ مگر انھیں کبھی احساس نہ ہوا کہ یہ ''دنیا دارالمکافات ہے'' کبھی کا طرز عمل کبھی سامنے آجاتا ہے۔
عمران خان الیکشن 2013 کے بعد سے مسلسل چار حلقے کھلوانے پر زور دے رہے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ دھاندلی کے ثبوت ووٹ کے تھیلوں میں ہیں۔ مگر حکمران اپنی اکثریت کے زعم میں ان کو خاطر میں لا ہی نہیں رہے تھے۔ بہرحال قصہ مختصر یہ کہ 22 اگست کو حلقہ این اے 122 کے بارے میں الیکشن ٹریبونل کی رپورٹ جوکہ اب سے کافی پہلے آجانی چاہیے تھی منظر عام پر آگئی جوکہ پی ٹی آئی کے موقف کی مکمل تائید کر رہی تھی۔
یہ حلقہ اس لیے بھی اہم تھا کہ اس میں عمران خان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جن صاحب نے یہ نشست حاصل کی وہ حکمراں جماعت کے لیے اس لیے اہم تھے کہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے فرائض ادا کر رہے تھے لہٰذا اس فیصلے سے پی ٹی آئی کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں زبردست مدد ملی اور اس کا ستارہ ایک دم عروج پر پہنچ گیا جب کہ حکومت کو جو خفت اٹھانا پڑی وہ تو الگ۔ اس فیصلے کے بعد 2013 کا پورا انتخاب ہی مشکوک ہوکر رہ گیا۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن ٹریبونل نے دھاندلی ثابت کرنے کے بجائے انتظامی بے ضابطگیاں اور عملے کے غیر ذمے دارانہ رویے کے علاوہ عملے کی مناسب تربیت نہ ہونا قرار دیا ہے۔ جس کو حکمراں جماعت ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ یہ کہاں ثابت ہوا کہ ایاز صادق نے یہ نشست دھاندلی سے حاصل کی۔ اب بے ضابطگی اور دھاندلی کے فرق پر ماہرین ہی اظہار خیال کرسکتے ہیں۔
ہم تو صرف یہ کہیں گے کہ بہرحال یہ الیکشن ایک متنازعہ الیکشن ہی قرار پائے گا۔ ایک غریب اور پسماندہ ملک جو کثیر رقم خرچ کرکے انتخابات کراتا ہے وہ بار بار ایسی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یوں بھی ہمارے ملک میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑ پتی ہونا ضروری ہے۔ یہ دو فیصلے ہفتہ گزشتہ کے دو بہت اہم فیصلے ہیں جوکہ ہماری قومی سیاست و صحافت پر دوررس اثرات مرتب کریں گے۔
25 اگست کو وزیر اعظم کا واضح بیان آیا کہ کراچی آپریشن پر متحدہ کے تحفظات دور کریں گے۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں کمیٹی قائم ہوگی جو غیر جانبدار فریقوں پر مشتمل ہوگی۔ متحدہ نے 19 مطالبات پیش کیے اور کمیٹی تشکیل دیے جانے کے وعدے پر اپنے استعفوں پر نظرثانی کے لیے تیار ہوگئی۔ ذرایع ابلاغ پر تقریباً روز ہی یہ موقف سامنے آتا ہے کہ سول اور فوجی قیادت ہر مسئلے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔
گزشتہ دنوں سب سے دلچسپ خبر منی لانڈرنگ کی ملزمہ ماڈل ایان علی کا جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیے جانے کی ہے ملزمہ نے اس شعبے میں پبلک ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے ایک بصیرت افروز لیکچر بھی دیا جس کے بعد طلبا نے ان کے ساتھ فوٹو بھی بنوائے اور انھیں اعزازی شیلڈ بھی عنایت کی گئی جب کہ شعبہ کے چیئرمین محترمہ کی اپنے شعبے میں آمد سے لاعلم تھے بعد میں انھوں نے ذمے دار طلبا کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
جامعہ کراچی کے گیٹ پر طلبا اور دیگر آنے جانے والوں کی سختی سے شناخت کی جاتی ہے جب کہ ایان صاحبہ کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی وہ پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں پورے تزک و احتشام کے ساتھ جامعہ آئیں اور بلا روک ٹوک شعبہ میں کئی گھنٹے مصروف رہیں۔
اس دوران پولیس ان کی مکمل حفاظت کرتی رہی یعنی ملزمہ معہ اپنے نگرانوں کے شعبہ میں موجود رہیں اور ذمے داروں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ ہے ہمارے تعلیمی اداروں اور مستقبل کے معماروں کا طرز عمل۔ ایک طرف تعلیمی ادارہ دوسری طرف ضمانت پر رہا ملزمہ کے لیے اعزاز۔ ہے نا کتنا بڑا تضاد۔