بارش بارش آجائو۔ دریا مت آنا

خالق کائنات کی بہت ساری نوازشوں،محبتوں اورانعامات میں سے ایک باران رحمت بھی ہے


عینی نیازی August 28, 2015

خالق کائنات کی بہت ساری نوازشوں،محبتوں اورانعامات میں سے ایک باران رحمت بھی ہے، بارش کی پہلی پھوارکے ساتھ بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، جس طرح وہ اچھل کودکر بارش کا لطف اٹھاتے ہیں، مجھے بھی اپنے بچپن کی بارشیں یاد آجاتی ہیں ( اور اور بیائے دریا میائے ) بارش، بارش آجاؤ دریا مت آنا یہ وہ بلوچی گیت ہے جوایک خاص ردھم کے ساتھ ہم ساتھی گایا کرتے تھے،گویا یہ گیت بھی تھا اوردعا بھی تھی۔

بارش خالق کا عمل ہے زمین میں اگنے والے اناج کو بارش سے جو تعلق ہے وہ محتاج بیان نہیں، اگر آسمانوں سے ابر رحمت نہ برسے تو رزق کی داستاںختم ہوکر رہ جائے، سائنس کی ترقی کے باوجود رزق کا نظام معیشت اورتقسیم دولت کا سارا نظام بارش نہ ہونے پر نیست ونابود ہوجائے، پانی کی کمی سے قحط سالی اپنے ظالم جبڑوں میں انسان کو دبوچ لیتی ہے ہر شئے کی زندگی پانی ہے، خشک سالی کے دنوں میں ہم باران رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں، نماز استسقاء ادا کرتے ہیں لیکن جب قدرت اپنی فیاضی سے یہ نعمت عطا کرتی ہے تو ہمارے لیے زحمت بن جاتی ہے ۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہزاروں دعاؤں کے بعد باران رحمت برسی اور ہماری لاپروائیوں کے باعث زحمت بن کر نازل ہوئی، ہمارے دریا اس وقت بارشوں کے باعث سیلابی صورت حال سے دوچار ہیں ،سیلابی پانی ریلوں کی صورت میں چترال اور پنجاب کے مختلف مقامات دریاؤں اور ندی نالوں کے کنارے توڑتا ہوا رہائشی علاقوں ودیہاتوں میں داخل ہوگیا ۔

جہاں مٹی کے گھرتباہ ہوگئے مویشی سیلابی پانی میں ڈوب گئے، انسانی جانیں ضایع ہورہی ہیں، بہت سے لو گ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے یہ تو شروعات ہیں ابھی نجانے کتنی قیامتیں ہمارے دیگر صوبوں کے نصیب میں اس مون سون نے لکھ دی ہیں۔ قصور ان بارشوں کا نہیں یہ تو ہماری اپنی بدانتظامی، سفاکی اور بے حسی ہے جو صرف اپنے گھر اپنی زمینیں بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان بننے کے 68 سالہ دور میں کئی سیاستداں اور جرنلز آئے اورچلے گئے ان تمام ادوار میں مون سون کی بارشیں آئیں تباہ کاریاں بھی ہوئیں گھروں،کھیتوں اور بے گناہ انسانی جانوں کے نذرانے بھی دیے گئے۔

حکومتی اراکان کے بذریعہ ہیلی کا پٹرز دورے بھی ہو ئے مگرکسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان شہروں، دیہاتوں، بستیوں کو بچانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی مستقل عملی اقدامات کرائے، ہم ہر سال ان تکلیف دہ حالات کا سامنا کرتے ہیں اور پھر چند دنوں میں سب بھول کر اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں وہ علاقے جو آج بارش کی تباہ کاریوں کا نمونہ پیش کررہے ہیں کیا ان کے منتخب نمایندوں کو اپنے علاقوں کی بابت کچھ خبر نہیں کہ ہر سال بارشوں کے دوران آبادی کو کس قدر نقصان اٹھانا پڑتا ہے پھرکیوں اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایسے اقدامات نہیں کرتے جن سے ان علاقوں میں جانی نقصان کا ہمیشہ کے لیے تدارک کیا جاسکے وہ سب آج ان سیکڑوں جانوں کے قاتل ہیں جو سیلاب کی نذرہوگئے یا ہوتے جارہے ہیں ۔

چترال میں تباہی پھیلانے کے بعد بربادی نے پنجاب کے علاقوں کا رخ کیا ہے، دیہات ڈوب گئے ہیں لوگ مددکے لیے پکار رہے ہیں ناقص انتظامات کے ہاتھوں پریشان حال متاثرین انتظامیہ اور حکمرانوں کو بدعائیں دے رہے ہیں۔ عوام سیلابی پانی میں ڈبکیاں لگاتے ایک چارپائی کوکئی افراد تھامے بپھرتی ہوئی لہروں سے لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈوبتے مویشی اورانسانوں کو دیکھ کر شدید دکھ کے ساتھ محسوس ہوتا ہے کہ ہم قیام پاکستان کے بعد وہیں کھڑے ہیں ، جہاں سے چلے تھے۔ ہم اچانک پیش آنے والے حادثات کے بچاؤ کے لیے کسی بھی قسم کے انتظامات نہیں کرپائے ہیں خواہ وہ کوئی سانحہ ہو یا 2005 کا زلزلہ ہو،آج بھی ہمارے پاس ان سے بچنے کے درست ذرایع نہیں ہیں، ہماری حکومتیں اپنی عیاشیوں کے لیے دل کھول کر خرچ کرتی ہیں، ہیلی کاپٹرز میں بیٹھ کرڈوبتے ہوئے لوگو ں کا تماشہ دیکھتی ہیں مگر خلق خدا کی زندگی بچانے کے لیے رقم دستیاب نہیں، سیلابی آفت میں بنیادی شے ابتدائی امداد اور سامان کے لیے دست نگر رہتے ہیں ۔

اشیائے ضرورت مون سون شروع ہو نے سے پہلے زیریں علاقوں میں ہونی چاہیے مگر افسوس ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ادارے کی بدانتظامی ہر سال سوالیہ نشان بنی رہتی ہے ۔ حسب روایت ہر مشکل مرحلے میں پاکستانی افواج نے اپنا مثبت کردار نبھایا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ راحیل شریف نے ہدایت کی ہے متا ثرہ علا قوں میں لوگوں کی مدد ومعاونت کو ہر ممکن طریقے سے بروئے کار لائیں، فوج کے جوان اس مشکل گھڑ ی میں اپنی خدمت سے مصروف عمل ہیں ۔

کہیں امدادی سامان تقسیم کررہے ہیں کہیں راشن کا انتظام نبھا رہے ہیں ڈوبتوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ آندھیاں، زلزلے اورطوفان اللہ کے لشکر ہیں، ہم اپنے اعمال کی طرف دیکھتے ہیں اپنی وزراء بیوروکریسی پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی کے مستحق نظر آتے ہیں آخرکرپشن ،جھوٹ ، بددیانتی، بداعمالی دنیا کے سب سے بڑے جرائم میں ہم پہلے نمبر پر ہیں ہم پر بر ا وقت آچکا ہے مگر اللہ تعالی نے توبہ کے دروازے ہمیشہ سب کے لیے کھلے رکھے ہیں۔

ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے،ایسے اقداما ت کی جو ہمیں آیندہ ان قدرتی آفا ت سے بچاسکیں اس کے لیے حکمراں طبقے کو فضول خرچیو ں کو خیرباد کہہ کر نئے ڈیمز بنانے پر توجہ دینی ہوگی، آج اگر بھاشا ڈیم،کالاباغ ڈیم، دریائے کابل پر ڈیم بن چکے ہوتے توشہرکے شہر اورگا ؤں نہ ڈوبے ہوتے، کالا باغ ڈیم کو ہم نے اپنی سیاسی انا کے بھینٹ چڑھا دیا۔ دنیا کے نقشے میں ہالینڈ ایک ایسا ملک ہے جوسطح سمندر سے نیچے آباد ہے وہا ں کبھی سیلاب نہیں آتا انھو ں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے آپ کو محفوظ بنایا ہے تو ایک کالا با غ ڈیم کس طرح پورے شہر کو ڈبوسکتا ہے ۔

اسی طر ح بلوچستا ن میں1986 میں آنے والے سیلا ب سے درہ بولان سے ڈھا ڈر 30 کلومیٹر جنوب میں بو لان ڈیم پانی کا بہاؤ برداشت نہ کرسکا تھا جس کی بنا ء پر بند ٹو ٹ گیا تھا، 26 سال گذرجانے کے باوجود ڈیم کا تباہ شدہ حصہ جوایک تہائی لا گت سے بھی کم میں تیارہوسکتا تھا مگر تیارنہ ہو سکا۔ کاش !ہما رے وزراء بیرون ملک دوروں میں کروڑوں ر وپے خرچ کرنے بجائے اس جانب توجہ کریں توآیندہ ہم اس آفت سے بچ سکیں گے ، محض خالی دعوؤں سے عوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے ہماری حکومتی نمایندوں کو اس بارے میں غورکرنے کی ضرورت ہے کہ یہ باران رحمت جو ہمارے کھیتوںکو سیراب کررہی ہے جو زندگی کی نوید ہے اس کی آمد سے ہمارے دل چور چور سے کیوں ہو جاتے ہیں یہ ہمارے لیے کیوں زحمت بن جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں