جمہوریت اور آمریت کی جدلیات
انسانی سماج میں بہت سے ایسے باطل خیالات تشکیل پا جاتے ہیں کہ جنھیں ایک قول کی حیثیت سے دہرایا جاتا ہے۔
انسانی سماج میں بہت سے ایسے باطل خیالات تشکیل پا جاتے ہیں کہ جنھیں ایک قول کی حیثیت سے دہرایا جاتا ہے۔ انھیں ایک اٹل سچائی کے طور پر تسلیم کرلیا جاتا ہے اور ان کی تنقید یا ان کے ازسرِ نوجائزے کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کیا جاتا۔ ایسا ہی ایک خیال یہ ہے کہ جمہوریت خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو وہ ہر لحاظ سے آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔
غورکریں تو اس خیال کے اندر ہی اس کی نفی کا تصور موجود ہے۔ یعنی بری جمہوریت حقیقت میں جمہوریت ہوتی ہی نہیں ہے، بلکہ وہ آمریت ہی کی ایک شکل ہوتی ہے۔ جمہوریت کو پانچ برس کے بعد صرف ایک ووٹ کے استعمال تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔اس کا تعلق تعلیم، صحت، رہائش، روزگار اور طبی سہولیات کے بارے میں کی جانے والی فیصلہ سازی میں عوام کو مرکز میں رکھنے سے ہوتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خواہ کتنی ہی عوام دشمن پالیسیاں بنائیں، اس کے باوجود ان پالیسیوں کی روشنی میں جمہوریت اورآمریت کے درمیان قائم کی گئی فوقیتی ترتیب کو چیلنج نہیں کیا جاتا ہے۔آمریت کو پارلیمان، پولیس، تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور پاگل خانوں وغیرہ کے اندر ایک رجحان سمجھنے کی بجائے اسے جمہوریت سے حتمی طور پر الگ کر لیا جاتا ہے۔آمریت ایک سوچ اور رویہ ہے، طاقت یا آئیڈیالوجی کے استعمال سے لوگوں کے اذہان پر تسلط کو برقرار رکھنے کا نام ہے۔آمریت کے دوران لوگوں کو ان کی انفرادیت، آزادی، بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم کردیا جاتا ہے۔
آمریت یکسانیت کی قائل اورتنوع کی منکر ہوتی ہے۔ انفرادیت، آزادی اور تنوع سے محرومی کا احساس پاکستان میں قائم ہوئیں جمہوری حکومتوں کے عہد میں اکثر شدت اختیار کرتا رہتا ہے۔اسی نکتے کی بنیاد پر جمہوریت کے وسط میں آمریت کے تصورکو سمجھا جاسکتا ہے۔جمہوریت کو ہر حال میں آمریت سے بہتر سمجھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت کی یہ تفریق محض ظاہری سطح کو دیکھ کرکی جاتی ہے۔
یعنی اگر فوج نے کسی حکومت پر شب خون مارا تو اسے آمریت تصورکیا جاتا ہے، اگر ایک سیاسی جماعت کا سربراہ تاحیات سیاسی جماعت پر شب خون مارکر بیٹھا رہتا ہے اور اس کے بعد اس سیاسی جماعت کو وصیت کے ذریعے اپنی اولاد کو منتقل کردیتا ہے اور کسی سیاسی کارکن کو اس کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے تواس کے باوجود ایسے سربراہ کو بدترین آمریت کا نمایندہ کہنے سے گریز ہی کیا جاتا ہے۔
سوال بہرحال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت اور آمریت کے درمیان واقعی کوئی ایسی حتمی تفریق ہے کہ ایک میں سے دوسرے کا گزر نہیں ہوسکتا؟ اگر جمہوریت اور آمریت کو ایک دوسرے سے قطعی طور پر متضاد تصورات کے طور پر سمجھا جائے گا تو اس باطل خیال کو تقویت ملے گی کہ جمہوریت خواہ کتنی ہی غیر جمہوری کیوں نہ ہوجائے وہ کبھی آمریت میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔
جمہوریت کے تصورکی بہتر تفہیم کے لیے ضروری یہ ہے کہ اس کا موازنہ جمہوریت کے اس تصور سے ہی کیا جائے جو آمریت کا نمایندہ بن جاتا ہے۔ ان دونوں تصورات میں ناقابل عبورخلیج کو تصورکرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جمہوری اور آمرانہ تصورات کو مابعد الطبیعاتی اصولوں کے تحت جامد اور یکطرفہ تصور کرتے ہوئے جمہوریت کواعلیٰ مقام پر فائز کرلیا ہے۔جمہوریت اور آمریت پر جدلیاتی منطق کا اطلاق کرنے اور جمہوری حکومتوں کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کا تجزیہ کرنے سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے اندر آمریت اورآمریت کے اندر جمہوریت جیسے رجحانات موجود ہوتے ہیں۔
لہذا جمہوریت کی نفی اس آمریت سے نہیں ہوسکتی کہ جو جمہوریت سے باہرکہیں موجود ہے ، یعنی جمہوریت کو آمریت میں تبدیل ہونے کے لیے کسی وردی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، بلکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جمہوری حکومتیںکس وقت اپنے رویوں میں بدترین آمریت کی نمایندہ بن جاتی ہیں۔عوام دشمن پالیسیوں کا تسلسل کب ان کی جمہوریت کے بطن سے آمریت کو ظہور کرتا ہوا دکھاتا ہے۔واضح رہے کہ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب جمہوریت خود سے تضاد میں آجاتی ہے اورخود اپنے مخالف یعنی آمریت میں بدل جاتی ہے۔پاکستانی سیاست میں جمہوریت کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ چند مخصوص چہرے سرمائے کے زور پر ہر پانچ برس کے بعد انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، اس کے بعد جس حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے اسے ''جمہوری حکومت'' کہہ دیا جاتا ہے۔
عوام دوست یا جمہوری اقدار پر مبنی پالیسیوں کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستان کے جمہوری منظر نامے میں اس خیال کی کوئی حیثیت نہیں کہ یہاں لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے اور لوگوں ہی کے لیے قائم کرنی ہے۔
یہاں عمومی سیاسی سوچ یہی ہے کہ ستر اسی لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت اٹھارہ کروڑ عوام کی نمایندہ بن جاتی ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنے طبقاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے لگتی ہے۔جمہوریت سے یہاں مراد یہ ہے کہ عام لوگوں کو رہائش، خوراک، صحت ، بجلی اورگیس کی فراہمی جیسی انتہائی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے، اقربا پروری اور بدعنوانی کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ریاستی ظلم و بربریت کے شکار عوام کہ جن کے پاس رہائش کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے، اگر وہ کہیں سر چھانے کے لیے جھونپڑیاں بناکر بیٹھ جائیں تو ان پر ریاستی تشدد مسلط کردیا جاتا ہے۔
انھیں سڑکوں پر ذلیل و رسوا ہونے اور بھوکا مرنے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انھیں اس سطح تک نفسیاتی عارضے میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ جس کے بعد ان کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں : ایک سیدھا پاگل خانے کی طرف جاتا ہے اور دوسرا خالقِ حقیقی کی طرف! جب کہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والے سیاست دانوں کو یہ مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے سے ہزاروں ایکڑ کی اراضی فروخت کرکے غیر ملکی بینکوں میں اپنے اکاوئنٹ بھرتے رہیں۔ انھیں بھتہ خوری، لوٹ کھسوٹ کرنے کے علاوہ علاقائی اور لسانی تعصب پھیلانے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ بنیادی حقوق اور سہولتوں کے لیے سڑکوں پر نکلنے والے لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ریاستی مشینری کے ذریعے مظلوم و محروم لوگوں پر تشدد مسلط کرنے کا عمل اپنے آپ میں ایک آمرانہ عمل ہے۔ جو لوگ اپنے سیاسی حقوق اور نمایندگی کے لیے کسی تحریک کا حصہ بن کر سڑک پر نکلتے ہیں ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو سیاسی جماعت انتخاب میں کامیابی کے بعد ریاست پر براجمان ہوتی ہے وہ لوٹ مار، ظلم و استحصال، جبر و سفاکیت کی بدترین مثال قائم کرتی ہے، عوام سے اس کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔
ایک سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ اس کے سربراہ نے جمہوریت کی خاطر جلاوطنی کاٹی ہے تو دوسری جماعت یہ تبلیغ کرنے میں مگن رہتی ہے کہ جمہوریت کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں اسی نے دی ہیں۔ پانچ برس انھی افکار کی تبلیغ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ پانچ برس کے بعد کوئی اور سیاسی جماعت انتخاب میں فتح حاصل کرکے لوٹ مار، ظلم و جبر اور عوام کے استحصال کے گھناؤنے عمل کو دہرانے لگتی ہے۔ جمہوریت کی نفی کا تصور جمہوریت کے اندر، سیاستدانوں کی غیر انسانی پالیسیوں کی شکل میں ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔طبقاتی مفادات کا ٹکراؤ جمہوریت کی نفی کرکے اسے آمریت میں تبدیل کردیتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیںہمہ وقت جمہوریت کی وکالت کرتی ہیں، جب کہ اپنی عوام دشمن پالیسیوں کے علاوہ ان کے سربراہان کے آمرانہ رویوں سے ان کے تصور جمہوریت کی نفی ہوجاتی ہے۔ اس طرح یہ سیاسی جماعتیں خود میں ایک آمرانہ شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ہر بڑی سیاسی جماعت کے اپنے اندر جمہوریت کا فقدان ہے۔ ہر بڑی سیاسی جماعت موروثی اور شخصی سیاست کے تصور پر قائم ہے۔
ہر بڑی سیاسی جماعت خود میں جمہوری نہیں ہے، انھیں عوام کا ووٹ تو درکار ہوتا ہے، اس لیے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، مگر سیاسی جماعت کے اندر کسی انتخاب کو ضروری نہیں سمجھتیں۔ یعنی ہر بڑی جماعت جو جمہوریت کی تبلیغ ہمہ وقت کرتی ہے وہ بذاتِ خود آمریت کے تصور پر استوار ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس طرح سابق صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے نئے چیئرمین کا نام تبدیل کیا، وہ ایک انتہائی غیر جمہوری اور پیپلز پارٹی میں موروثی سیاست کے فلسفے کی نمایندگی کرتا ہوا آمریت کے تسلسل کو قائم رکھنے کا عمل تھا۔
اس غیر جمہوری رویے کے باوجود جمہوریت کے لیے پیپلز پارٹی کی 'قربانیوں' اور 'شہادتوں'کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ 'شہادتیں' گنوا کر سیاست کی جائے، جمہوریت کی حقیقی روح جمہوری پالیسیوں کے احیا میں پیوست ہوتی ہے۔ 'شہادتیں' گنوانے کا واحد مطلب یہ نکلتا ہے کہ جمہوری اقدار کی نفی کی جارہی ہے ، اور اس نفی سے جو خلا پیدا ہورہا ہے اسے موروثی سیاست کو لوگوں کے اذہان میں راسخ کرکے پُر کیا جاتا ۔