شہرت کامیابی اور قسمت
یہ زندگی بھی خوب ہے کبھی ہنساتی ہے کبھی رلاتی ہے یہ دھوپ اور چھاؤں دکھ اور سکھ کا ملغوبہ ہے
WASHINGTON:
یہ زندگی بھی خوب ہے کبھی ہنساتی ہے کبھی رلاتی ہے یہ دھوپ اور چھاؤں دکھ اور سکھ کا ملغوبہ ہے، اس زندگی میں شہرت، دولت اورکامیابی کے حصول میں محنت سے زیادہ قسمت کو بڑا دخل ہے اور فن کی دنیا کا تو دستور ہی انوکھا ہے۔ شہرت کی ہما کسی ،کسی کے سر پہ بیٹھتی ہے اور جب یہ کسی کے سر پہ بیٹھتی ہے تو اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔
میں ایسے بے شمار فنکاروں سے ملا ہوں، جن کی ایک ہی فلم نے انھیں شہرت کے سنگھاسن پر بٹھا دیا کسی کہانی کارکی ایک کہانی نے کسی گیت نگار کے ایک گیت نے اورکسی موسیقار کی ایک ہی دھن نے اسے مقبولیت کی سند عطا کرتے ہوئے شہرت اس کے قدموں میں پھولوں کی طرح بچھا دی۔
مگر میں آج تین ایسے فنکاروں کا تذکرہ کروں گا جن تینوں کا تعلق موسیقی کے شعبے سے ہے ان میں سے ہر موسیقار کے پہلے گیت نے شہرت دوام حاصل کی مگر قسمت کی دیوی ان پر مہربان نہ ہوسکی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریڈیو سے نئی فلموں کے گیتوں کا پروگرام میں بڑی پابندی سے سنا کرتا تھا بعض فلمیں ابھی تکمیل کے مراحل میں ہوتی تھیں مگر ان کے ریکارڈز بن کر مارکیٹ میں آجاتے تھے اور گاہے گاہے ریڈیو نشر ہوتے رہتے تھے۔ ایسے ہی گیتوں میں ایک نئی فلم ''پروفیسر'' کے لیے گلوکارہ رونا لیلیٰ کا گیت ریڈیو سے مسلسل نشر ہوتا تھا جس کے بول تھے:
جنم جنم ترا مرا ساتھ رہے گا
او من چاہے پیا او من بھائے پیا
اس خوبصورت گیت کی موسیقی نئے موسیقار غلام علی نے مرتب کی تھی ، اس نے کیا متاثر کن دھن بنائی تھی یہ گیت سنتے ہی دل میں اترتا چلاجاتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس موسیقار کے بارے میں پتہ چلایا تو معلوم ہوا کہ غلام علی کراچی ٹیلی وژن پر ہوتا ہے ۔وہاں وہ سندھی ڈراموں میں پس منظر موسیقی کے علاوہ سندھی گیتوں کے پروگراموں کی موسیقی دیتا ہے۔میں غلام علی سے جاکر ملا میں نے اس کے گیت کی بڑی تعریف کی بہت خوش ہوا پھر کہنے لگا یونس ہمدم ! آپ نے میرے گیت کی دھن کی تعریف کی مگر اس گیت کی شہرت ہونے کے باوجود مجھے اورکسی فلمساز نے بھی اپنی فلم میں موقع نہیں دیا۔
غلام علی ایک سیدھا سادا اور فقیر منش آدمی تھا وہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا اس کی پی۔آر بھی صفر تھی جب کہ بحیثیت موسیقار وہ بہت ہی باصلاحیت شخص تھا میں نے اس کا ایک بھرپور انٹرویو بھی کیا مگر فلم ''پروفیسر'' کے اس ہٹ گیت کے بعد بھی وہ گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبا رہا اور خوش قسمتی اس کی طرف سے منہ موڑے رہی۔ اسی طرح لاہور کی ایک فلم تھی ''اتّ خدا دا ویر'' اس فلم کی موسیقی بخش وزیر نے دی تھی، اس فلم کے لیے میڈم نور جہاں کا گایا ہوا ایک گیت اپنی مثال آپ تھا۔ جس کے بول تھے:
جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں
میں تھاں مر جانی آں
یہ گیت فلم میں نغمہ اور حبیب پر فلمایا گیا تھا۔اس گیت کی شاعری بھی لاجواب تھی اور دھن بھی اتنی دلکش تھی کہ ایک بار سنتے ہی احساس کو مہکا دیتی تھی اس گیت کو نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور یہ گیت بھی پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن اور رات خوب نشر ہوتا تھا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی خوبصورت دھن کے خالق کے پاس بے شمار فلمیں ہوتیں اور اسے سرکھجانے کی ضرورت نہ ہوتی اور فلمسازوں کی قطاریں اس کے آگے پیچھے ہوتیں مگر ہوا اس کے برعکس،اس موسیقار کو اپنی مدھر موسیقی اور میڈم نور جہاں کی سریلی آواز بھی کامیابی کے راستے کا مسافر نہ بناسکی اس موسیقار کا بھی قسمت ساتھ نہ دے سکی اور یہ موسیقار بھی ناکامی کے بھنور میں ڈوب گیا جب کہ اس موسیقار سے کم صلاحیت والے کئی موسیقاروں نے بے شمار فلموں کی موسیقی دی ۔اب میں تیسرے ایسے گیت کی طرف آتا ہوں جو کسی فلم کا گیت تو نہیں تھا لیکن یہ گیت پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس گیت نے سارے پاکستان میں دھوم مچا دی تھی ۔
اس سے پہلے کہ میں اس گیت سے پردہ اٹھاؤں اس گیت کے کمپوزرکی طرف آتا ہوں، ایک دن ٹیلی ویژن کے مزاحیہ آرٹسٹ خالد نظامی نے جس سے میری بڑی اچھی دوستی تھی اس نے مجھے اپنے گھر پر یہ کہہ کر بلایا کہ یار ہمدم! آج تم میرے گھر آؤ گے تو میں تمہیں ایک سرپرائزدوں گا۔جب میں اس کے گھرگیا اور اس نے جس کمرے میں مجھے بٹھایا اس کمرے میں ایک طرف گٹار رکھا تھا۔ ایک طرف ہارمونیم اور طبلے کی جوڑی رکھی ہوئی تھی میں نے خالد نظامی سے پوچھا یار۔
کیا تمہارے گھر میں کوئی گویّا یا موسیقار بھی رہتا ہے۔ خالد نظامی نے مسکراتے ہوئے کہا جو شخص تمہارے سامنے بیٹھا ہے یہ ان دونوں خوبیوں کا مالک ہے پھر اس نے گٹار اٹھایا اور بڑی روانی سے بجاتے ہوئے اپنی بنائی ہوئی کئی دلکش دھنیں سنائیں جنھیں سن کر میں حیران رہ گیا۔ پھر اس نے ہارمونیم سنبھالتے ہوئے کہا۔ یار! اب میری ایک اور دھن سنو! یہ گیت میں نے شاعر اسد محمد خاں سے لیا تھا۔ پھر خالد نظامی نے ہارمونیم چھیڑتے ہوئے اپنی خوبصورت آواز میں ایک گیت سنایا جس کے بول تھے:
تم سنگ نیناں لاگے مانے نہ ہی جیارا
پیا پیا بولے جیا من کا پپیہارا
میں نے جب خالد نظامی کی آواز میں یہ گیت سنا تو میں تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ میری خالد نظامی سے ایک بڑی سریلی ملاقات تھی۔ بات آئی گئی ہوئی پھرکچھ عرصے کے بعد اچانک ٹیلی ویژن پر ایک گیت میں نے روبینہ بدرکی آواز میں سنا اور میں گیت کے حسن میں کھوگیا۔ روبینہ بدرکیا اچھا گا رہی تھی یہ وہی گیت تھا جو میں نے خالد نظامی سے سنا تھا اور اب روبینہ بدر کی آواز نے اس گیت کے حسن کو اور بڑھا دیا تھا۔یہ ٹی وی پروڈیوسر عارفین کی پروڈکشن تھی۔
میں نے ٹی وی پر یہ گیت سن کر دل ہی دل میں کہا۔ یارخالد نظامی! تجھے مزاحیہ آرٹسٹ نہیں ایک سنجیدہ موسیقار ہونا چاہیے تھا۔ پھر یہ گیت ٹیلی ویژن کے ہر اسٹیشن سے اس طرح ٹیلی کاسٹ ہوتا رہا کہ بڑے مشہور فلمی گیتوں کی طرح اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اس گیت نے روبینہ بدرکو بڑی شہرت اور عروج عطا کیا وہ اس گیت کی بدولت لاہور فلم انڈسٹری میں چلی گئی وہاں اس نے کئی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ندیم، نشو کی فلم ''بہشت'' میں اس نے گایا پھر موسیقار نذیر علی نے فلم ''ساجن رنگ رنگیلا'' کے لیے گیت گائے ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
ذرا بدلی میں چاند چھپ جائے
گلے سے مجھے اپنے لگا لینا
روبینہ بدر نے اردو فلموں کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے لیے بھی گیت گائے۔ جن میں فلم ''خطرناک'' اور ''خانزادہ'' کے نام شامل تھے، پھر روبینہ بدر اپنی والدہ کے ساتھ واپس کراچی آگئی کہ اس کی والدہ لاہور میں بیمار رہنے لگی تھیں۔ وہاں کا ماحول ان کو راس نہیں آیا تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس گیت کی شہرت نے روبینہ بدرکو عروج عطا کیا اسی گیت کے موسیقار خالد نظامی کو نہ کراچی میں پھر کسی نے پوچھا اور نہ ہی لاہور کے کسی فلمساز نے اس کی طرف توجہ دی۔
جب یہ لاہورکی فلمی دنیا میں اپنے قدم نہ جما سکا اور فلمسازوں کے دفتروں کے چکر لگا لگا کر تھک گیا تو یہ پریشان ہوگیا اور پھر اتنا ناامید اور مایوس ہوا کہ نہ صرف لاہور فلم نگر کو خیرباد کہا بلکہ پاکستان چھوڑکر امریکا چلا گیا اور ہوسٹن میں رہائش اختیار کرلی۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد پھر اس کی بے چینی بڑھنے لگی اور وہاں بھی یہ بے قرار رہنے لگا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر پھر اپنے وطن کی مٹی میں واپس آگیا اور پہلے کی طرح ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے لگا کیونکہ یہی اس کا وسیلہ روزگار تھا۔ دو سال پہلے میں جب کراچی گیا تو کراچی فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور سٹی تھنکرز کراچی کے اشتراک سے میرے ساتھ ایک شام منائی گئی تھی، وہاں بہت سے پرانے صحافی دوستوں اور فنکاروں سے بھی ملاقات رہی جن میں گلوکار جمال اکبر، محمد افراہیم، عقیل اشرف اور خالد نظامی بھی شامل تھا۔
میں نے خالد نظامی سے شکایتی انداز میں کہا۔ یار! تم اتنے باصلاحیت موسیقارہو لیکن تم نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس طرف کیوں نہیں دھیان دیا۔ خالد نظامی نے میری بات سن کر ایک زہرخند کے ساتھ دھیمے لہجے میں کہا۔ میرے بھائی! ہمارے ملک میں باصلاحیت فنکاروں کے لیے راستے مسدود کردیے ہیں اور پھر جس ملک میں قدم قدم پر میرٹ کا قتل ہوتا ہو وہاں ہم جیسے فن پرستوں کو کون پوچھتا ہے ۔''
میں نے خالد نظامی کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا میرے دوست! شہرت تو دھوپ اور چھاؤں میں بدلتی رہتی ہے تم ایک ذہین، باصلاحیت اور سچے فنکار ہو اور ہمیشہ رہو گے۔ یہ سن کر خالد نظامی کی آنکھیں بھیگ سی گئی تھیں۔ پھر میں نے کہا یار! زندگی کی اصل خوشی دل کا سکون ہے اور وہ تمہیں ہمیشہ حاصل رہے گا اور لوگوں کی محبت تمہیں ہمیشہ ملتی رہے گی۔