معیشت کا نروس بریک ڈاؤن
کے الیکٹرک کے مطابق عام طور پر 220 کے وی کی ٹرانسمیشن لائن کنٹرکٹر کے ٹوٹنے کے باعث ٹرپ ہوتی ہ
ہماری جدید دنیا چارستونوں پر کھڑی ہے، معیشت، ٹیلی کمیونی کیشن،کمپیوٹر اورمیڈیا۔سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرکسی معاشرے کے یہ چارستون گرجائیں تو وہ سوسائٹی اکیسویں صدی سے براہ راست نویں صدی میں جاگرے گی اور آپ یہ دلچسپ حقیقت جان لیں کہ ''بجلی'' ان چاروں ستونوں کی جان ہے۔
اگر بجلی کا سوئچ آف ہوجائے تو ملک میں نہ معیشت بچتی ہے نہ کمیونی کیشن، نہ کمپیوٹر اورنہ ہی میڈیا۔ آپ ان اہم ترین چیزوں کو زیادہ عرصے زیادہ وقت یو پی ایس اور جنریٹر سے نہیں چلاسکتے۔ افسوس ہمارے ملک پاکستان میں اس وقت جدید زندگی کے یہ چار''ٹولز'' آخری سانسیں لے رہے ہیں، چنانچہ ہم بڑی تیزی سے اکیسویں صدی سے نویں صدی کی طرف جارہے ہیں اور یوں ہم ایک ایسی بندگلی میں آچکے ہیں جس کے آگے کوئی راستہ نہیں۔
کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت، ملک کا سب سے بڑا شہر، صنعتی و تجارتی مرکز اور قومی خزانے کوکل محصولات کا ایک تہائی سے زائد فراہم کرنیوالا شہر ہے، تاہم اس کے مسائل روز بروز سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یہاں مسلسل ابتری کا شکار ہے۔
بجلی کے طویل بریک ڈاؤن اب اس شہر کے معمول کا حصہ بن چکے ہیں، جب کہ شہرکے متعدد علاقوں میں پانی کا فقدان بھی مستقل مسئلے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ رمضان کے ابتدائی عشرے میں گرمی میں شدت آنے سے بجلی کا شدید بحران ڈیڑھ ہزار جانوں کی بھینٹ لے چکا ہے۔لیکن اب آئے دن بجلی کا بریک ڈاؤن مختلف علاقوں کو تاریکی حصہ بناتا رہتا ہے۔
کے الیکٹرک کے مطابق عام طور پر 220 کے وی کی ٹرانسمیشن لائن کنٹرکٹر کے ٹوٹنے کے باعث ٹرپ ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاور پلانٹ بیٹھ جاتے ہیں اور شہر کا بڑا علاقہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر بجلی کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے پمپوں کے بند ہوجانے سے شہر کے بڑے حصے کو پانی کی فراہمی معطل ہوجاتی ہے اور یہ بحران یہ خرابی اب کراچی کے معمولات میں شامل ہوگیا ہے۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر بار بار اس سلسلے میں واویلا ہوتا رہتا ہے ۔کسی بھی ادارے میں پائی جانیوالی خرابیوں کو مستقل بنیادوں پر دور یا ختم کردینا ادارے کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن کیا ہے کہ ہمارے معاشرے، ہماری سوسائٹی میں غیر ذمے داری کے جرائم سرائیت کرتے جارہے ہیں اور ذمے دار اس کی زد میں آکر اپنے فرائض منصبی سے بے گانے ہوتے جارہے ہیں۔دنیا کے سیکڑوں دوسرے ملکوں میں جو وسائل اور افرادی قوت میں ہم سے زیادہ نہیں، آئے دن بجلی کے بریک ڈاؤن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہمارے ہاں پورے ملک میں بجلی کا نظام انتہائی فرسودگی کا شکار ہے۔
بجلی کے نئے منصوبے تو ثمر آور ہونے میں یقینا لمبا وقت لیں گے لیکن موجودہ نظام کی فرسودگی ختم کردی جائے تو موجودہ وسائل ہی سے بجلی کی پیداوار میں اتنا اضافہ ہوسکتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی ضرورت ہی نہ پڑے۔لوڈ شیڈنگ کا عذاب جب علاقوں میں طوالت اختیار کرلیتا ہے تو علاقہ مکین آپے سے باہر ہوکر سڑکوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، روڈ بند کرکے اس پر رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور ٹائر جلاکر ٹریفک بند کردیتے ہیں۔
اس حوالے سے مشتعل عوام کا کہناہے کہ کے الیکٹرک کی تمام تر توجہ بجلی فراہم کرنے کی بجائے صرف بھاری بھرکم بل بھیجنے پر مرکوز ہے، جب کہ وفاقی و صوبائی حکومت کے الیکٹرک کے آگے بے بس نظر آتی ہیں۔شہرکے بیشتر علاقوں میں کے الیکٹرک کا یہ امر بھی معمول میں شامل چلا آرہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے اوقات جو مقررکیے گئے ہیں، علاقوں میں وہاں جیسے ہی لائٹ آتی ہے۔
چند لمحے بعد وہ پھر چلی جاتی ہے۔ 118 پر جب کے الیکٹرک سے اس بارے میں استفسار کیا جائے تو لائن پر موجود صاحب حیران ہوکر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو ایسی کوئی شکایت نہیں پہنچی اور نہ ہی ہماری طرف سے کوئی فالٹ ہے؟بہر حال یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کے الیکٹرک کے ترسیلی نظام میں دن بدن خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ آئے دن بجلی کی سپلائی میں تعطل اور بے تحاشا فالٹس سے عملاً بجلی کا نظام بیٹھتا جارہاہے۔
حبس، گھٹن یا شدید گرمی میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن لوگوں کے لیے قیامت صغریٰ سے کم ثابت نہیں، اس حوالے سے شہریوں نے وفاقی، صوبائی اور دیگر مقتدر اداروں کی جانب سے مسلسل خاموشی یا بے اعتنائی پر شدید رد عمل طاہر کیا ہے اور ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کے الیکٹرک کو فوری اپنی تحویل میں لے لے۔یہ بات کون نہیں جانتا کہ ہر گھرکا مکین جنریٹر یا یو پی ایس افورڈ نہیں کرسکتا، چنانچہ آئے دن ہونیوالے بریک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر یہی طبقہ ہوتا ہے۔
بیشترگھروں میں زمین دوز واٹر ٹینک بھی نہیں۔ لہٰذا وہ پانی کا اسٹاک بھی نہیں کرپاتے، چھوٹے موٹے ڈرمز وغیرہ میں وہ جو پانی بھرتے ہیں وہ جلد ہی ختم ہوجاتا ہے، کہتے ہیں کہ انسان سبھی چیزوں کے بغیرگزارا کرلیتا ہے یا کرسکتا ہے لیکن پانی کے بغیر قطعی وہ اپنی بقا سلامت نہیں رکھ سکتا۔جیساکہ سبھی جانتے ہیں کہ کراچی میں حال ہی میں پانی کا قحط شہریوں پر عذاب بن کے ٹوٹا تھا اور اب بھی بیشتر علاقوں میں پانی کی فراہمی بحال نہیں ہوسکی ہے۔
واٹر ٹینکر مافیا، پانی چوری کے نیٹ ورک کو سنبھالے لسانی اور سیاسی جماعتیں اور خود واٹر بورڈ کے بعض ''بڑے'' پانی کے بحران کے سب سے بڑے ذمے دار ہیں، نمائشی حکومتی کارروائیوں کے باوجود صورتحال وہی ڈھاک کے تین پات کی عملی تصویر دکھائی دیتی ہے۔
جب کہ واٹر بورڈ کا عملہ گھارو، دھابیجی اور پیپری وغیرہ پر بجلی کی فراہمی نہ ہونے پر اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اتنے ملین گیلن پمپنگ ہاؤس سے کراچی کو پانی فراہم نہیں کیا جاسکتا۔اور تو اور ایم ڈی واٹر بورڈ سید ہاشم رضا زیدی بھی قلت آب کے حوالے سے کے الیکٹرک کو ہی مورد الزام ٹھہراتے نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت ملک میں تعمیر وترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کرچکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کے ذریعے کاشغر کو گوادر کی بندرگاہ سے ملاکر اس پورے خطے کی معاشی تقدیر بدلنے کا اہتمام کیا جارہاہے۔ پانی، ہوا، کوئلے اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو عملی شکل دی جارہی ہے اور ارباب اختیار کا سارا زور بیان ان بڑے بڑے پروجیکٹس کو اہمیت ثابت کرنے پر صرف ہورہاہے، ان منصوبوں کی غیر معمولی افادیت سے کسی کو بھی کوئی انکار نہیں لیکن چوں کہ ان سارے منصوبوں کی تکمیل کے لیے لامحالہ کئی سال درکار ہیں۔
اس لیے عوام کا اتنے طویل عرصے تک محض خوابوں کے سہارے زندہ رہنا ممکن نظر نہیں آرہا، انھیں کچھ نہ کچھ فوری ریلیف ضرور دیا جانا چاہیے اور اس کے لیے بجلی کی قیمتوں میں آئے دن مختلف حیلے بہانوں سے کیا جانے والا اضافہ روکنا ناگزیر ہے کیوں کہ بجلی کے نرخوں کی سلیپ تبدیل کردینے سے عوام پر بوجھ اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ ان کے لیے بجلی کے بل ادا کرنا ایک اذیت سے کم نہیں۔کون نہیں جانتا کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن کسان بجلی، بیجوں اور کھادوں کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے باعث سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور عالمی منڈی میں پاکستانی کسانوں کی زرعی مصنوعات دوسرے ملکوں کی مصنوعات سے گراں تر ہونے کے باعث ان کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔
ٹیکسٹائل کی صنعت بھی عرصہ دراز سے سراپا احتجاج ہے اور سیکریٹری وزارت صنعت عارف عظیم نے کھلے الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ سبسڈی واپس کیے جانے کے باعث بہت سی صنعتیں بنگلہ دیش منتقل ہوگئی ہیں۔ کراچی اسٹیل مل گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے بند پڑی تھی اور اس کے ارباب اختیار نہ صرف وفاقی حکومت سے5 ارب روپے بلکہ گیس بلوں کی ادائیگی موخر کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ حکومت اقتصادی ترقی زراعت و صنعت کی بحالی کے لیے فوری اور نتیجہ خیز اقدامات کرے۔