میں پاکستان میں جنگی قیدی رہا

پہلے بھارتی فیلڈ مارشل،مداپا کری آپا کے پائلٹ بیٹے کی پاکستانی کیمپوں میں گذری دلچسپ داستان ِاسیری


سید عاصم محمود August 30, 2015
پہلے بھارتی فیلڈ مارشل،مداپا کری آپا کے پائلٹ بیٹے کی پاکستانی کیمپوں میں گذری دلچسپ داستان ِاسیری ۔ فوٹو : فائل

لاہور: یہ 22ستمبر 1965ء کی سہانی صبح تھی۔ بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ جاری تھی' گو جھڑپوں کا زور خاصا کم ہو چکا۔ کیونکہ دونوں ممالک کی افواج اسلحے کی کمی کا شکار ہورہی ہیں۔ اسی دن صبح بھارت کے ہلواڑہ ائیر بیس سے چار بھارتی ہاکر ہنٹر لڑاکا طیارے فضا میں بلند ہوئے۔لدھیانہ کے قریب واقع ہلواڑہ شمالی بھارت میں بھارتی فضائیہ کا سب سے بڑا جنگی اڈہ ہے۔

ان بھارتی طیاروں نے ضلع قصور میں پاکستانی توپوں کو نشانہ بنانا تھا۔ فنی خرابی کے باعث دو طیارے تو ٹارگٹ تک پہنچے سے پہلے ہی واپس چلے گئے ،بقیہ دو خراماں خراماں چلتے کسی پاکستانی شکار کو ڈھونڈنے لگے۔ پاکستانیوں کو بھی احساس تھا کہ ضلع قصور میں موجود توپ خانہ بھارتی طیاروں کے رحم و کرم پر ہے۔

چناں چہ انہوں نے یہ عاقلانہ تدبیر اختیار کی کہ اپنے پیٹن ٹینکوں پہ طیارہ شکن توپیں نصب کیں اور انہیں توپ خانے کے قریب کھڑا کر دیا۔بھارتی طیارے آخر پاکستانی توپ خانے کے قریب جاپہنچے۔ انھوں نے جیسے تیسے بم پھینکے اور واپس ہو لیے...انھیں خطرہ تھا کہ کوئی پاکستانی طیارہ اُدھر نہ آ نکلے۔ اس دوران پیٹن ٹینکوں میں بیٹھے جوانوں نے انہیں تاک لیا۔ فوراً ان کی طیارہ شکن گنیں آگ اگلنے لگیں۔ برق رفتاری سے چلتی گنوں سے شرارے یوں نکلنے لگے جیسے انار پھوٹ رہے ہوں۔



ایک پیٹن ٹینک میں میجر زیدی نامی فوجی افسر بیٹھے تھے۔ انہوں نے تاک کر ایک بھارتی طیارے پر گولیوں کی ایسی بوچھاڑ ماری کہ وہ ان کی زد میں آگیا۔ چند گولیوں نے پٹرول کی ٹینکی پھاڑ ڈالی اور ایندھن رسنے لگا۔پٹرول نے آگ پکڑنے میں دیر نہ لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہنٹر طیارہ بھڑکتے الاؤ کے ایک دیو ہیکل گولے کی صورت اختیار کر گیا۔ بھارتی طیارے میں بیٹھے پائلٹ نے خود کو موت کے قریب دیکھا تو آناً فاناً اپنے آپ کو باہر دھکیلنے والا بٹن دبایا اور باہر فضا میں آ گیا۔

بھارتی پائلٹ پہلے تو ہوامیں تیرتا رہا پھر اپنا چھاتہ یا پیرا شوٹ کھول لیا۔حیرت انگیز بات یہ کہ اس کا طیارہ ایسے مقام پر گولیوں کا نشانہ بنا جس کے ایک طرف بھارتی علاقہ تھا اور دوسری طرف پاکستان! پائلٹ کی بدقسمتی کہ اس دن ہوا دشمن علاقے کی سمت چل رہی تھی۔ اسی لیے سر توڑ کوشش کے باوجود پائلٹ کا چھاتہ پاکستانی علاقے میں ہی گرا۔ جبکہ فضا میں ڈولتا جلتا بھنتا ہنٹر بھارتی علاقے' کھیم کرن میں جا پہنچا اور گرتے ہی تباہ ہو گیا۔

پاکستانیوں نے بھارتی ہواباز کو پیراشوٹ کے ذریعے اُترتے دیکھ لیا تھا۔ چنانچہ وہ اس کا پیچھا کرنے لگے ۔چھاتہ ایک کھیت میں گرا۔ اس سے پہلے کہ بھارتی پائلٹ فرار ہونے کی سعی کرتا' پاکستانی جوانوں نے اسے جا پکڑا۔ یہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والا ساتواں اور آخری بھارتی پائلٹ تھا۔



بعدازاں انکشاف ہواکہ اس کا نام کوریندر نندا کری آپا ہے۔ یہ بھارتی بری فوج کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف' فیلڈ مارشل کوریندر مداپا کری آپا کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ بھارتی فضائیہ کے نمبر20 سکواڈرن سے بحیثیت فلائٹ لیفٹیننٹ وابستہ تھا۔ اور اب پاکستان میں جنگی قیدی بن گیا۔

1946ء میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے فیلڈ مارشل کری آپا کو بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دے کر فرنٹیئر بریگیڈ گروپ کا سربراہ بنایا تھا۔ وہ بریگیڈئر بننے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ اسی بریگیڈ گروپ میں مستقبل کے پاکستانی فیلڈ مارشل، ایوب خان بھی بحیثیت کرنل خدمات انجام دے رہے تھے۔

چناں چہ جیسے ہی انکشاف ہوا کہ نوجوان بھارتی قیدی فیلڈمارشل کری آپا کا فرزند ہے' یہ خبر ایوب خان تک پہنچائی گئی جو تب صدر پاکستان بن چکے تھے۔ اپنے سابق باس کا لحاظ کرتے ہوئے صدر ایوب خان نے ریڈیو پاکستان سے یہ خبر خاص طور پر نشر کرائی کہ فلائٹ لیفٹیننٹ نندا کیری آپا زندہ اور خیر و عافیت سے ہے۔ یوں پاکستانی صدر اپنے سابقہ باس کو تسلی و تشفی دینا چا ہتے تھے۔

روایت ہے' صدر ایوب خان نے فیلڈ مارشل کری آپا کو یہ پیش کش کی تھی کہ وہ چاہیں' تو ان کابیٹا فی الفور رہا ہو سکتا ہے۔ تاہم بھاری فیلڈ مارشل نے یہ کہہ کر انکار کر دیا: ''اب وہ میرا نہیں ملک کا بیٹا ہے۔ آپ کی فراخ دلانہ پیش کش کا شکریہ' مگر میری درخواست ہے ' تمام بھارتی جنگی قیدی رہاکر دیں ورنہ اسے تنہا آزادی نہ دیں اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا خصوصی برتاؤ کریں۔''

فلائٹ لیفٹیننٹ نندا کری آپا چار ماہ سرزمینِ پاکستان میں قید رہے اور انہیں 22 جنوری 1966کو رہائی ملی۔ بعدازاں وہ بھارتی فضائیہ میں ائر مارشل (مساوی لیفٹیننٹ جنرل) کے عہدے تک پہنچے۔ جب 1995ء میں ریٹائر ہوئے تو بھارتی فضائیہ کی ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ (ہیڈکوارٹر جودھ پور ) کے چیف تھے۔

ریٹائر منٹ کے بعد ائرمارشل نند ا کری آپا نے قیدی کی حیثیت سے پاکستان میں گذرے دنوں کی یادداشتیں قلمبند کیں۔ یہ آپ بیتی دلچسپ پہلو سامنے لاتی اور واضح کرتی ہے کہ پاکستانیوں کی قید میں آ کر ایک بھارتی قیدی پہ کیا گزری ۔ ممکن ہے' فیلڈ مارشل کا بیٹا ہونے کے ناتے ان سے کچھ خصوصی برتاؤ کیا گیا، تاہم ائرمارشل کی آپ بیتی یہ امر نمایاں نہیں کرتی ۔ لیجیے نندا کری آپا کی داستان اسیری انہی کی زبانی پڑھئیے۔

٭٭
پاک بھارت کے مابین ہونے والی دوسری بلکہ تیسری جنگ تین ہفتوں سے جاری تھی اور سیز فائر ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا تھا۔ افواہوں کا بہت زور تھا' اس لیے جنگ کی حقیقی تصویر ہم تک نہ پہنچ پاتی۔ تاہم نوجوان پائلٹوں کی حیثیت سے ہم دشمن پر زیادہ سے زیادہ حملے کرنا چا ہتے تھے۔



22 ستمبر کی صبح مجھے چار ہنٹر طیاروں کی فارمیشن کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ ہمیں قصور میں کھڑے پاکستانی توپ خانے پر بم باری کرنا تھی ۔ چنانچہ ہم ساڑھے آٹھ بجے فضا میں بلند ہو گئے۔ اپنا بنیادی مشن مکمل کرنے کے بعد ہماری راہ میں جو بھی شکار آتا ' ہمیں اس پر حملہ کرنے کی اجازت تھی۔ تاہم ہمیں ابتدا ہی میں مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑ گیا۔ہم ابھی اڑے ہی تھے کہ ایک ہنٹر کے انجن میں خرابی پیدا ہو گئی۔ لہٰذا ناچار اسے واپس ہلواڑہ جانا پڑا۔ بقیہ تین طیاروں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ہمارے راکٹ اور 30 ملی میٹر کی گنیں حملے کے لیے پوری طرح تیار تھیں۔ ایک ساتھی کھو دینے سے ہمارے جوش میں کمی نہ آئی۔

اگرچہ میں دل ہی دل میں کچھ گھبرایا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ دشمن کے علاقے میں نجانے کیسے حالات ہمارے منتظر ہوں۔ دشمن کی طیارہ شکن توپوں سے نکلا ایک گولہ بھی میرا کام تمام کر سکتا تھا۔ میں انہی سوچوں میں گرفتار تھا کہ اچانک ایک اور بری اطلاع ملی۔ ہمارے تیسرے ساتھی کا جہاز بھی گڑ بڑ کرنے لگا۔ اسے خراب حالت میں دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑنا نادانی تھی' چناں چہ میرے حکم پر وہ بھی واپس چلا گیا ۔یوں میرے چھاتے تلے صرف دو جہاز رہ گئے۔

تعداد میں کم ہو جانے کے باوجود ہم نے مشن جاری رکھا۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں گردوغبار اڑاتا پاکستانی فوجی گاڑیوں کا قافلہ جاتا دکھائی دیا۔ ان گاڑیوں پر ٹینک اور توپیں لدی تھیں۔ ہم نے اپنا سارا گولہ بارود قافلے پر دے مارا۔ جب بم گرے تو گرد کے مرغولے اٹھنے کی وجہ سے ہم نہ دیکھ سکے کہ دشمن کا کتنا نقصان ہوا ہے۔

پاکستانیوں کی گرفت میں
مشن پایہ تکمیل کو پہنچا' تو ہم نے واپسی کی راہ لی ۔ راہ میں دشمن کی ایک چوکی پر بیٹھی سپاہ نے ہمیں دیکھ لیا۔ بس پھر کیا تھا' ہمارے اردگرد طیارہ شکن توپوں کے گولے پھلجڑیوں کی طرح جلنے لگے۔ ہم نے بھی بساط بھر جواب دیا۔

توپوں کا باہمی مقابلہ جاری تھاکہ ایک گولہ میرے جہاز کو آن لگا۔ جہاز بری طرح لرزا اور تمام انتباہی روشنیاں جلنے بجھنے لگیں۔ یہ اس امر کا اشارہ تھا کہ ہنٹر کے بہت سے سسٹم ناکارہ ہو چکے اور یہ کہ اس میں آگ لگ چکی ۔میں اگلا قدم اٹھانے کا سو چ ہی رہا تھا کہ مجھے ریڈیو پر اپنے ساتھی کی آواز سنائی دی: ''کری آپا' تمہارے جہاز میں آگ لگ چکی ' فوراً نکل جاؤ۔'' میںنے اس کے مشورے پر صاد کیا اور خود کو باہر پھینکنے والا میکنزم بٹن دبا کر چالو کر دیا۔ اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو فضا میں پایا۔

میرا پیرا شوٹ کھل تو گیا' مگر میں اسے اپنے قابو میں نہیں کر سکا۔ اسی لیے میں زمین پر صحیح طرح نہیں اترا بلکہ ایک طرح سے جا گرا۔ کچھ عرصے بعد پاکستانی فوجیوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان کے کمانڈر نے حکم دیا''ہینڈز اپ... ہاتھ اوپرکر لو۔''

للیانی سے لاہور تک
انہیں بتایا کہ میں ہاتھ اوپر نہیں کر سکتا' گرنے کی وجہ سے میری کمر پر شدید چوٹ لگی تھی۔ فوجی خاکی وردی میں ملبوس تھے اور نجانے کیوں میں انہیں بھارتی ہی سمجھا۔ اس وقت دور کہیں توپیں گولہ باری کر رہی تھیں۔ ایک فوجی مجھے مخاطب کر کے بولا ''تمہاری یہ توپیں ہم پر گولے پھینک رہی ہیں۔''

یہ سن کر مجھے احساس ہوا کہ میں جنگی قیدی بن چکا۔ اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ زمین پر گرتے وقت میری گھڑی کو ضرب لگی' تو وہ اسی وقت پر رک گئی تھی۔ اب مجھ سے پوچھا گیا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے؟

میں طوطے کی طرح رٹے رٹائے جملے بولنے لگا اور پاکستانیوں کو اپنا نام' عہدہ اور نمبر بتایا۔ تبھی کسی نے بوچھا کہ کیا تمہارا جنرل کری آپا سے رشتہ ہے؟ میںنے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس وقت تک کمر کی چوٹ شدید درد کرنے لگی تھی۔ چناںچہ تکلیف کی تاب نہ لا کر میں بے ہوش ہو گیا۔جب میری آنکھ کھلی' تو میںنے خود کو ایک جیپ کی پچھلی نشست پر لیٹا پایا۔ سامنے ایک بریگیڈیر براجمان تھا۔ جیسے ہی میرے ہوش و حواس بحال ہوئے' وہ مجھ سے سوال کرنے لگا۔ میں نے الٹے سیدھے جواب دیئے۔ وہ جیپ مجھے للیانی نامی مقام پر لے گئی۔

للیانی میں ایک مقامی ڈاکٹر نے میرا معائنہ کیا اسی دوران تکلیف کی زیادتی نے مجھے پھر ہوش و حواس سے بیگانہ کر ڈالا۔ نجانے کب بیدار ہوا' تو میںنے خود کو ایک کمرے میں پایا ۔ یہ لاہور کا فوجی ہسپتال تھا۔ وہاں ڈاکٹرنے مجھے لگی چوٹ کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور یہ بھی کہ کہ تمہارا آپریشن ہو گا۔

پاکستانی ڈاکٹروں کا جذبہ حب الوطنی
آپریشن اگلے دن ہوا۔ ہسپتال میں بہت گہما گہمی تھی۔ ہر طرف ڈاکٹر چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ بیرون ملک سے کئی ڈاکٹر پاکستان چلے آئے ہیں تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کی مدد کر سکیں۔ ان کے جذبہ حب الوطنی نے مجھے بہت متاثر کیا۔

میں ہسپتال میں ایک ہفتہ مقیم رہا۔ اسی دوران جنرل ایوب خان مجھے دیکھنے آئے۔ وہ جان چکے تھے کہ میں ان کے سابق باس کا بیٹا ہوں۔ پوچھنے لگے کہ مجھے کچھ چاہیے۔ انہیں بتایا کہ میں دوسرے بھارتی جنگی قیدیوں کے پاس جانا چاہتا ہوں۔

چند دن بعد مجھے راولپنڈی پہنچا دیا گیا۔ وہاں بھی کچھ روز فوجی ہسپتال میں رہا۔ اسی دوران جنرل ایوب خان کے بیٹے (گوہر ایوب) میری خیریت پوچھنے آئے۔ ہسپتال میں علاج عمدہ تھا اور کھانا بھی مناسب، مگر تنہائی مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ بھاگ کر بھارتی قیدیوں کے پاس پہنچ جاؤں۔



ایک سہانی صبح اچانک ہسپتال سے مجھے ڈسچارج کر دیا گیا۔ پاکستانی فوجیوں نے پھر میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور کسی نامعلوم جگہ لے گئے۔ آنکھیں کھلیں تو خود کو ایک قیدخانے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں پایا۔ وہاں مجھے ایک فوجی کوٹ اور ربڑ والے جوتے ملے۔ دراصل وسط اکتوبر آن پہنچا تھا اور ہوا میں سردی کی شدت بڑھنے لگی تھی۔

راز اگل دو ورنہ...
کمرے میں فرنیچر کے نام پر صرف ایک چار پائی تھی۔ مجھے تین کمبل دیئے گئے۔ ایک کمبل بحیثیت گدا چارپائی پر بچھانا تھا اور دو اوڑھنے کے کام آتے۔ دن کے وقت کمرے کا دروازہ بند رہتا۔ کمرے میں کوئی کھڑکی یا روشن دان نہیں تھا' اس لیے دن میں بھی اچھی خاصی تاریکی چھائی رہتی۔ رات کو کمرے میں مدھم روشنی والا بلب جھلملاتا رہتا ۔

جائے حاجت کمرے سے پچاس گزردور واقع تھی۔ جب مجھے وہاں جانا ہوتا' تو گارڈ میری آنکھوں پر پٹی باندھتا اور پاخانے لے جاتا۔ جب تک میں فارغ ہوتا' وہ باہر پہرا دیتا۔ میں نکلتا' تو مجھے پھر قید خانے لے آتا۔

اسی کمرے میں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ میں کوئی وی آئی پی شخصیت نہیں ایک جنگی قیدی ہوں۔ اور یہ کہ میں ایسے دشمن کی قید میں ہوں جو بھارت کواپنا ازلی مخالف سمجھتا ہوں۔اسی لیے ایک فیلڈ مارشل کا بیٹا ہونے کے باوجود مجھ سے کوئی خاص رعایت نہیں کی گئی۔اگلے دن چند فوجی افسروں نے مجھ سے تفتیش کی۔اس بار ان کا لہجہ خاصا سخت تھا اور پہلی دفعہ مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ تنہائی نے پہلے ہی مجھے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں' تمام سزاؤں میں سے سب سے خطرناک اورخوفناک سزا کسی انسان کو تنہا کمرے میں قید کر دینا ہے۔

میں ''تھرڈ ڈگری'' تشدد کا نشانہ تو نہیں بنا' مگر پاکستانی افسروں نے قطعی انداز میں مجھے بتا دیا کہ اگر میں نے ''راز'' نہ اگلے' تو انہیں اگلوانے کا ''دوسرا طریقہ'' بھی آتا ہے۔ اب مجھے احساس ہوا کہ یہاں افسری یا اثرو رسوخ کام نہیں آنا، لہٰذا میں نے جن معلومات کو غیر اہم سمجھا' وہ ان کے سامنے افشا کردیں۔

صدر کی کوٹھی
تفتیش کا یہ دور تین دن تک چلا ۔ مگر کوٹھڑی نما کمرے میں قید کا عرصہ دس دن پر محیط رہا۔اس دوران مجھے روزانہ دو بار چپاتیاں اور دال کھانے کو ملتی رہی۔ صبح سات بجے اور پھر سہہ پہر کو لنگر سے چائے بھی آتی۔

آخر کار میری تنہائی کا یہ جان لیوا عرصہ ختم ہوا اور مجھے اطلاع ملی کہ میں بھارتی قیدیوں کے پاس پہنچنے والا ہوں۔ مگر پاکستانی پھر مجھے کسی اور اجنبی کیمپ میں لے گئے ۔وہاں پھر میں دو دن ایک الگ تھلگ سیل میں قید رہا۔

اس کیمپ کے کمانڈر کو جب معلوم ہوا کہ میں فیلڈ مارشل کری آپا کا فرزند ہوں' تو وہ خاص طور پر مجھے ملنے آیا۔ کہنے لگا ''مجھے پتا لگا ہے کہ تم صدر کوٹھی میں تھے''۔ اس کے مراد صدر ایوب خان کے گھر سے تھی۔ ظاہر ہے' میں نے انکار کیا اور بتایا کہ پچھلے دس دن تو مجھ پر بہت کڑے گزرے ہیں۔

پشتونوں کے دیس میں
دو دن بعد میری آنکھوں میں پٹی باندھ مجھے ایک ریل میں بٹھا دیا گیا۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ میری منزل مالا کنڈ کا صدر مقام درگئی ہے۔ پاکستانیوں نے وہاں بھارتی جنگی قیدیوں کے لیے ایک بڑا کیمپ قائم کیا تھا۔ ایک زمانے میں برطانوی مدبر' ونسٹن چرچل بھی درگئی میں برطانوی فوج کے ساتھ مقیم رہا تھا۔



اس کیمپ میں 38بھارتی جنگی اسیر موجود تھے۔ ان سے مل کر بہت مسّرت ہوئی کیونکہ پچھلے چھ ہفتوں سے تنہائی نے میرا کباڑا کر دیا تھا۔ مجھے پتا چلا کہ اکثر بھارتی قیدیوں کو پہلے علیحدہ کوٹھڑیوں میں رکھا گیا اور ان سے تفتیش ہوتی رہی۔

اگلے چند دن قیدیوں کے ساتھ گھل مل جانے اور تعارف کرانے میں لگے ۔ میں ان کے درمیان فضائیہ سے تعلق رکھنے والا اکلوتا جوان تھا۔ رفتہ رفتہ ہماری زندگیاں معمول سے ہم آہنگ ہونے لگیں۔ جلد ہی بھارتی فضائیہ کے دیگر چھ قیدی...برج پال سکند،پیلو کاکر(سکوارڈن لیڈر) اور منموہن لوے،لال سدرنگنی،ایم سی سنگھ ،وجے مہادیو(فلائٹ لیفٹیننٹ) بھی ہم سے آن ملے۔

وہ کیمپ تین عمارتوں پر مشتمل تھا۔ دو عمارتوں میں ہندو قیدیوں کو رکھا گیا۔ جب کہ تیسری عمارت میں صرف سکھ قیدی اسیر تھے ۔ ہمیں ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ نجانے پاکستانی ا ن سکھوں کے ساتھ کیا کھچڑی پکانے میں مصروف رہتے۔

دوسری عمارت کا ایک بڑا کمرا ہم فضائیہ والوں کے لیے مخصوص تھا۔ اس میں ساتھ ساتھ سات چارپائیاں بچھی تھیں۔ کونے میں جائے حاجت تھی اور دوسرے کونے میں جائے طعام! صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا) میں اچھی خاصی سردی تھی' اسی لیے ہر قیدی کو شروع میں تین کمبل دئیے گئے۔ اور سبزپل اوور بھی تاکہ ہم شدید ٹھنڈ سے محفوظ رہیں۔ ہم سرشام ہی بستروں میں گھس جاتے اور دنیا جہاں کی باتیں کرتے۔ سکواڈرن لیڈر سکند کے پاس لطیفوں کا ذخیرہ جمع تھا۔ وہ لطیفے سنا کر ماحول گرمائے رکھتا اور ہم ہنس ہنس کر قید کی صعوبتیں برداشت کر لیتے۔

بھارتیوں کے پارسل
ماہ نومبر کے پہلے ہفتے اچانک مجھے اور میرے ساتھی' فلائٹ لیفٹیننٹ مانی لوے کو حکم ملا کہ اپنا سامان باندھ لو۔ ہمیں پھر پٹیاں باندھ اندھا کر کے کسی اجنبی مقام پر پہنچا دیا گیا۔ ہمیں وہاں دو تاریک سرد کو ٹھڑیوں میں رکھا گیا۔ گویا میری اذیت ناک تنہائی پھر لوٹ آئی۔

اس جگہ بھی جائے حاجت پچاس گز دور واقع تھی۔ مجھے پٹی بندھوا کر وہاں پہنچنا پڑتا۔ میں آج تک نہیں جان سکا کہ وہ کون سی جگہ تھی اور ہمیں اپنے ساتھیوں سے کیوں علیحدہ کیاگیا۔ تاہم ہم یہ ضرور جان گئے کہ وہ کوئی فضائی اڈہ تھا۔ کیونکہ چوبیس گھنٹے لڑاکا اور باربردار جہازوں کے پرواز کرنے یا اترنے کی گھن گرج والی آوازیں سنائی دیتی رہتیں۔

نئے مقام پر میری قید کا عرصہ دس دن طویل رہا۔ پھر ہمیں واپس درگئی پہنچا دیا گیا۔ قدرتاً ہم ساتھیوں کے درمیان پہنچ کر بہت خوش ہوئے۔7دسمبر کو ہلال احمر (ریڈ کراس ) والوں نے ہمیں وہ پارسل دیئے جو بھارتی شہریوں نے قیدیوں کے لیے بھجوائے تھے۔

ان پارسلوں سے مختلف تحائف برآمد ہوئے۔ ایک پارسل مشہور ادکارہ ،آشا پاریکھ نے بھی بھجوایا تھا۔ اسے پاکر ہم سب نے سنسنی محسوس کی۔ اس میں سے خشک میوہ جات برآمد ہوئے جو ہم نے مزے سے کھائے۔

جنیوا کنونشنز کی رو سے ہم تمام قیدی ماہانہ60روپے اعزازی معاوضے کے حق دار تھے۔ پاکستانیوں نے ہمارے اعزازی معاوضوں میں مزید رقم ملائی اور ہمیں لحاف خرید دیئے۔ بھارت سے تحائف کی آمد اس بات کا ثبوت تھی کہ ہمارے پیاروں کو علم ہے' ہم زندہ ہیں۔

کیمپ میں شب وروز
ہم سب قیدی سب سے زیادہ کھانے پر توجہ دیتے۔ صبح عام طور پہ ہمیں تین پوریوں کے ساتھ ایک ابلا انڈہ ملتا۔ ساتھ ہی ایک پیالی چائے ہوتی۔ قید کے دوران ہمیں مسلسل دوپہر اور رات کو کھانے میں دو سبزیوں پر گزارا کرنا پڑا۔ کبھی چپاتیوں کے ساتھ بھنڈی کھانا پڑتی یا پھر پانی جیسے شوربے میں ڈوبے شلجم چاولوں کے ساتھ تناول کیے جاتے۔

شام تین بجے چائے کا وقت ہوتا ۔چائے پی کر ہم عموماً ایک گھنٹے تک کوئٹس (quoits)کا کھیل کھیلتے۔ ہفتے میں ایک بار ہمیں گرم غسل کی سعادت نصیب ہوتی۔ چھ سات بجے رات کا کھانا کھایا جاتا۔ پھر کوئی ایک ساتھی سب کو بھگوت گیتا پڑھ کر سناتا جو ہمیں بذریعہ پارسل موصول ہوئی تھی۔

سکرند کھانے پکانے میں ماہر تھا،چناں چہ وہ ہمارا ''ماسٹر شیف'' بن گیا۔ وہ پاکستانیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ ہمیں سرسوں کا تیل درکار ہے تاکہ ہم اپنی جلد خشک سردی سے محفوظ رکھ سکیں۔ رفتہ رفتہ سکرند تیل کو کھانے میں استعمال کرنے لگا۔ یوں ہمارے کھانے زیادہ لذیذ ہو جاتے۔ ''میٹھے'' کے نام پر ہمیں چاکلیٹ والے بسکٹ ملتے جو لمحہ بھر میں اڑا لیے جاتے۔

ٹھرے کی تیاری
جب 31 دسمبر کی تاریخ قریب آنے لگی، تو ہم سب نے طے کیا کہ نئے سال کی آمد پر خوشی کی ایک تقریب کا اہتمام ہونا چاہیے۔ تقریب کی پہلی ضرورت ''ٹھرا'' تھا۔ لہٰذا اس کے بندوست کا پروگرام بنایا گیا۔

میرے اور دیگر چند ساتھیوں کی مرہم پٹی کرنے ایک کمپاؤنڈر آتا تھا۔ اس کی ٹرے میں میتھیلیٹیڈ سپرٹ (methylated spirits) بھی موجود ہوتی۔ ہم نے اپنے ایک ہوشیار ساتھی کے ذمے سپرٹ اڑانے کی ڈیوٹی لگادی۔ کمپاؤنڈر کو ہم نے باتوں میں لگایا، اُدھر ہمارا جاسوس ایک بوتل اٹھانے میں کامیاب رہا۔

پہلا مرحلہ طے ہوا، تو کسی بہانے ہم نے پاکستانیوں سے مٹکا لے لیا۔انھیں تعجب تو ہوا مگر ہماری فرمائش پوری کر دی گئی۔خوش قسمتی سے ہمیں ان دنوں منہ میٹھا کرنے کے واسطے ''میٹھے'' مل رہے تھے۔ ہم نے سارے میٹھے چھلکوں سمیت مٹکے میں ڈالے پھر سپرٹ، کشمش اور گڑ بھی ڈال دیا۔ اس آمیزے میں چند چپاتیاں بھی شامل کردیں تاکہ خمیر جنم لے اور ٹھرا بننے کا آغاز ہوجائے۔ ہم نے یہ مٹکا کمبل میں لپیٹ آتش داں کے قریب رکھ دیا۔

آخر 31 دسمبر کی شام آگئی۔ ہم بے چینی سے ٹھرے کا انتظار کرنے لگے۔ اچانک وہاں کیمپ کمانڈر آن ٹپکا۔ ہم خاصے گھبرا گئے مگر وہ پاکستانی افسر نفیس و مہذب ثابت ہوا۔ اس نے ہمیں بھنے چھوٹے گوشت کے تحفے سے نوازا۔ یہ تحفہ بسرو چشم قبول کرلیا گیا۔ چناں چہ ہم نے اس رات مزے سے دعوت اڑائی۔ قید خانے میں بنائے ٹھرے کا ذائقہ میں آج تک فراموش نہیں کرسکا۔

جمعدار ہمارا جاسوس بن گیا
دن گزرتے رہے۔ 10 جنوری 1966ء کو ہمیں ایک خفیہ اطلاع ملی۔ یہ اینٹلی جنس رپورٹ دینے والا ہمارا جمعدار تھا۔ وہ ہر صبح ''تھنڈر باکس'' (thunder boxes) صاف کرنے آتا تھا۔ ہندو ہونے کے ناتے ہم سے ہمدردی رکھتا تھا۔ سکرند ناک پہ رومال باندھے تب جائے حاجت میں گھس جاتا اور اس سے باتیں کرتارہتا۔

اسی جمعدار نے بتایا کہ چند دن بعد ایک درزی تم لوگوں کے پاس آئے گا۔ اس کی اطلاع درست ثابت ہوئی اور درزی ہمارا ناپ لینے آپہنچا۔ ہمارے دلوں میں وسوسے آنے لگے۔ سمجھ نہیں آئی کہ پاکستانی ہمارا ناپ کیوں لے رہے ہیں۔ ذہن میں آیا ہی نہیں کہ ہمیں وطن بھجوانے کا انتظام ہورہا ہے۔ بہرحال جلد ہمارے نئے کپڑے سل کر آپہنچے۔

آخر 21 جنوری کی رات ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ ہمیں پشاور پہنچا دیا گیا۔ وہاں ایک فوکر طیارہ ہمیں بھارت لے جانے کے لیے خاطر تیار کھڑا تھا۔ اگلے دن صبح نو بجے وہ فضا میں بلند ہوگیا۔ یہ تقریباً وہی وقت تھا جب چار ماہ قبل میں پاکستان میں جنگی قیدی بن گیا تھا۔

بھارت میں جنگ ستمبر کا ''جشن''
اس سال جنگ ستمبر 1965ء کی پچاسویں سالگرہ آرہی ہے۔ اس موقع پر نریندر مودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جنگ میں ''فتح'' پانے کی خوشی میں 28 اگست تا 22 ستمبر جشن منایا جائے گا۔بھارتی حکومت اس ضمن میں مختلف تقریبات منعقد کرے گی۔ موسیقی کے پروگرام ہوں گے اور نمائش وغیرہ ہوں گی۔ یاد رہے، 28 اگست کو بھارتی فوج کی بھاری تعداد نے درہ حاجی پیر (آزاد کشمیر) پر قبضہ کرلیا تھا ۔



دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر کے عسکری ماہرین متفق ہیں،دونوں پڑسیوں کے مابین ہونے والی جنگ ستمبر 1965ء برابر رہی۔ بلکہ غیر جانب دار ماہرین اس جنگ میں پاکستان کو فاتح گردانتے ہیں۔ وجہ یہ کہ زمینی لڑائی میں تو پھر بھارتی بری فوج نے کچھ کارکردگی دکھائی، فضائی اور بحری لڑائیوں میں بھارتی چلا ہوا کارتوس ثابت ہوئے۔ مزید براں اپنے سے پانچ گنا بڑی قوت کو منہ توڑ جواب دے کر پاک افواج نے دنیا والوں پر اپنی دلیری و مہارت کا سّکہ جمادیا۔

نریندر مودی جنگ ستمبر میں ''فتح'' کا جشن دکھا کر دراصل پاکستان کو اپنے ''مسلز'' دکھانا چاہتے ہیں۔ مگر خود بھارتی افواج اور ایلیٹ طبقے سے اس جشن کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔میجر جنرل (ر) اشوک مہتہ نے بہ حیثیت کرنل جنگ ستمبر میں حصہ لیا تھا۔ کہتے ہیں:''جشن جنگ جیتنے پر منایا جاتا ہے، برابر رہنے پر نہیں۔ لہٰذا یہ جشن منانے کی تُک کیا ہے؟''

بھارتی خفیہ ایجنسی، را کے سابق چیف، ایس اے دلت کشمیرکے معاملات پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ''یہ جشن منانا بالکل غیر ضروری ہے۔ اس سے وادی (کشمیر) میں بھارت کے خلاف نفرت مزید بڑھے گی۔''

سری ناتھ راگھوان بھارت کے ممتاز ماہر عسکریات ہیں۔ وہ بھارتی حکومت کے ''جشن فتح'' کی بابت کہتے ہیں :''حکومت اس جشن میں چار پانچ کروڑ روپے خرچ کر ڈالے گی۔ یہ پیسے کا ضیاع ہے۔''


پاکستان تو جنگ ختم ہونے کے بعد شروع سے چھ ستمبر کو بطور ''یوم دفاع'' منارہا ہے۔ اس موقع پر افواج پاک ہی نہیں عوام بھی مختلف عسکری و سماجی تقریبات منعقد کرتے، ملک و قوم کی سلامتی کے لیے جانیں لڑا دینے کا عزم تازہ کرتے اور دعائیں مانگتے ہیں۔ بھارتی حکمران طبقے کو نجانے کیوں پچاس برس بعد یہ خیال آگیا کہ جنگ ستمبر میں وہ ''فاتح'' رہا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں