فلاحی اداروں پر نظر
لوگ یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر لب خاموش ہیں، کیونکہ پرائی آگ میں کودنا کوئی پسند نہیں کرتا۔
ISLAMABAD:
پچھلے دنوں این جی اوز کے حوالے سے کافی لے دے ہوئی، کچھ پر پابندی لگائی گئی تو کہیں صرف تنبیہہ کی گئی تو کہیں ان کے کردار کو سراہا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ این جی اوز یا فلاحی ادارے کافی اچھا کام کر رہے ہیں۔
ایسے لوگ جو اپنی کچھ مجبوریوں کی بنا پر پریشان حال ہیں یا وہ طالب علم جو اپنا تعلیمی سلسلہ غربت کی وجہ سے منقطع کرچکے ہیں یا کسی علاقے کے لوگ قدرتی آفات میں گھر چکے ہیں تو حکومت کے ساتھ ساتھ یہ فلاحی ادارے معاشرتی مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو یا کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو اندرون خانہ کچھ بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ ادارے کے بنانے والے اچھی نیت اور خلوص سے بھرے ہوتے ہیں مگر کہیں کچھ ایسا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے برسوں کی نیک نامی کو داغ لگ جاتا ہے۔
لالچ، حرص وہوس کی تیز آندھی میں خلوص و استقامت، محبت، رواداری، دوسروں کی ہمدردی سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے اور کچھ لوگوں کی غلط سوچ کی وجہ سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جو غلط کاموں میں حصے دار بننے سے انکار کردیتے ہیں۔ تو پھر ہوتا یہ ہے کہ ایسے معمولی ورکر کو غلط الزامات لگا کر فارغ کردیا جاتا ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے کا روپ دھارنے والے ایسے نیک نام اداروں کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں اور اپنے مکروہ خیالات کو پروان چڑھاتے ہیں، مگر یہ لوگ نہیں جانتے کہ وقتی خوشی کی خاطر دیرپا ثواب کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ ایک فلاحی ادارہ جوکہ انٹرنیشنل لیول پر اپنی اہمیت تسلیم کروا چکا ہے، وہاں کے چند لوگوں کی گھناؤنی حرکتوں کی وجہ سے ادارے کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے، اس ادارے کے بنانے والوں نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس پودے کو پروان چڑھا کر مضبوط درخت بنا رہے ہیں کوئی اس کی جڑوں کو ہی کاٹ دینے کا کام شروع کردیے گا۔
اس ادارے کے تحت غریب لوگوں کو ملنے والا کھانا جوکہ بچ جاتا ہے اس کی روٹیاں اورنگی کے کچھ علاقوں میں باقاعدہ بیچی جا رہی ہیں، کچھ لوگوں کی ملی بھگت سے یہ کام جاری و ساری ہے، اس مذموم مقاصد کے لیے ادارے کی ایمبولینسیں بھی استعمال کی جارہی ہیں، اسی طرح مخیر حضرات سے اکٹھا کیا ہوا سامان اور کپڑے وغیرہ مستحقین تک پہنچتے پہنچتے پرانے سامان کی مارکیٹوں میں بکتے نظر آتے ہیں۔
لوگ یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر لب خاموش ہیں، کیونکہ پرائی آگ میں کودنا کوئی پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح صدقے کے بکروں وغیرہ کی رقوم میں اکثر مخیر حضرات رسید لینا پسند نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی پیسے دے کر چلے جاتے ہیں جس میں سے آدھے پیسے ملازمین کی جیبوں کا رخ کرلیتے ہیں کہ کسی کا تو بھلا ہو، جب کہ امانت دار کے لیے حکم ہے کہ ''امانت میں خیانت نہ کرو'' دینے والے کا اجر تو رائیگاں نہیں گیا، مگر لینے والے کو جہنم کا ایندھن بننے سے کوئی روک نہیں سکے گا، مگر لوگ ایسی باتوں میں آکر سوچنے بیٹھ جائیں تو اپنا بھلا کیسے پورا ہوگا؟ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی فلاحی ادارہ بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد عام کی فلاح سے مشروط ہے تو پھر آنکھیں بھی چار ہونی چاہئیں، تاکہ ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کی کردار کشی کرکے تطہیر کا عمل کیا جائے۔
کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ منتظمین اور انتظامیہ کے لوگ جن کے ہاتھوں میں ادارے کو چلانا ہوتا ہے وہ لوگ ادارے میں آنے سے پہلے کچھ اور حالت میں تھے پھر کچھ عرصے کے بعد ان کی ظاہری حالت اور سماجی حالت میں نمایاں فرق نظر آنے لگتا ہے۔ کورنگی کے رہائشی ایک صاحب جوکہ کچھ عرصہ پہلے نہایت معمولی حیثیت رکھتے تھے مگر جب سے وہ کسی فلاحی ادارے کے سیاہ و سفید کے مالک ہوئے ہیں ان کی حالت میں ایسی تبدیلی آئی ہے کہ لگتا ہے ادارہ صرف ان کی بھلائی کے لیے کسی نے بنایا تھا۔ معمولی دکان داری کرنے والے جب اچانک کروڑوں کے مالک بن بیٹھیں، فارم ہاؤس اور مکانات کے مالک بن جائیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔
مگر ایسے سیاہ قلب لوگ اس طرح ہاتھ پاؤں بچا کر کام کرتے ہیں جن کی وجہ سے ان کا اپنا کام بھی باآسانی چل رہا ہوتا ہے اور ادارے کے مالکان وغیرہ کو علم ہی نہیں ہوپاتا کہ یہ نام نہاد شریف لوگ کیسے کیسے کام کر رہے ہیں اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی بلڈنگیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایک خاتون کا بیٹا ایسے ہی کسی ادارے میں کام کرکے اپنے گھر والوں کا خرچہ اٹھا رہا تھا، ایک دن اس نے اپنے ادارے کے کچھ بااثر لوگوں کو ہیرا پھیری کرتے دیکھ لیا۔
اس نے تو اپنی زبان بند رکھی مگر انتظامیہ کی طرف سے اس پر ہی چوری کا الزام لگا کر ملازمت سے فارغ کردیا گیا اور بائیک اور چابی چھین لی گئی اور چوری کا الزام بھی اسی دن لگایا جب کہ وہ چھٹی پر تھا اور ادارے کی طرف سے ہی اس دن اس کا آف ہوتا تھا۔ خاتون اس ادارے کے پاس گئیں اور کہا کہ میرا بیٹا بے قصور ہے، اگر یہ چور ہے تو آپ پولیس میں کہہ دیں ورنہ اس کی جاب بحال کریں مگر ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی، اس چیخنے چلانے کا صرف ایک فائدہ ہوا کہ بائیک اور چابی مل گئی نہ ہی کہیں مقدمہ درج ہوا نہ شنوائی ہوئی اور ایک گھرانے کو فاقوں پر مجبور کردیا گیا۔ قصور صرف یہ تھا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے کچھ ایسا دیکھ لیا تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کی شرافت کو آنچ آسکتی تھی۔ مگر کیا کیا جائے آج کل سستا اور فوری انصاف کہاں ملتا ہے۔ چھٹی اس کو نہیں ملتی جس کو سبق یاد ہوتا ہے۔
چوہدری نثار صاحب نے جب ایسے اداروں کی بیخ کنی کا بیڑا اٹھا لیا ہے تو پھر آپ کو چاہیے کہ کھلی آنکھوں سے ایسے اداروں کی جانکاری حاصل کریں اور ایسے اداروں کے خلاف کھلی جنگ کی جائے جو مستحق لوگوں کے نام پر اپنا پیٹ بھرتے ہوں اور اداروں کو بھی چاہیے کہ اپنے ملازمین پر کڑی نظر رکھیں جوکہ ایسے گھناؤنے کام میں ملوث ہیں تاکہ عوام کے نام پر لیا جانے والا پیسہ عوام کی خدمت میں ہی لگایا جائے، اگر یہ ادارے اپنا آڈٹ درست طریقے سے کروالیں اور اپنے ملازمین پر بھی گاہے بہ گاہے نظر ڈالیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی فوراً ہی ہوجائے گا مگر جب اوپر سے نیچے تک سب لوگ ایک سے ہوں تو مقدمہ کسی کے نام ہوتا ہے اور سزا کسی اور کو ملتی ہے۔