ہم بے ضمیر ہمیں کیا
بچوں کے ساتھ۔ اتنے ننھے ننھے بچوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے تمہیں شرم نہیں آتی۔
''میں تمہارے منہ پر ابھی ایک تھپڑ ماروں۔ بڑے بدبخت انسان ہو تم۔ بچوں کے ساتھ۔ اتنے ننھے ننھے بچوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے تمہیں شرم نہیں آتی۔ تمہیں بلایا گیا تھا تو آئے کیوں نہیں تم؟''
''کیا ہوا آنٹی! بلاوجہ گرم ہو رہی ہیں۔''
''بتاؤں ابھی... نشہ کرتا ہے کیا؟'' خاتون کی آواز میں ذرا تیزی پیدا ہوئی، وہ بلند آواز میں اس اکیس بیس برس کے نوجوان کی کلاس لے رہی تھیں جو کتھئی رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس ان کے نزدیک سے گزر کر گیا تھا۔ اپارٹمنٹس کے احاطے میں خاصے لوگ چل پھر رہے تھے گیٹ پر چوکیدار کے ساتھ اس کے حواری بھی بیٹھے تھے، کچھ کے چہرے مسکرا رہے تھے، کچھ خاتون کی باتوں کو سرسری انداز میں سنتے چلے جا رہے تھے، لعنت ملامت کرتی وہ خاتون ذرا آگے بڑھی، میل باکس سے پانی کے بلوں میں اپنا بل تلاش کرتی اس خاتون کو د یکھ کر بولیں۔
''اے ہے پانی کے بل یہاں بھرتا کون ہے۔ بھر دو تو پھر لگ کر آجاتا ہے۔'' ان کے لہجے کی تلخی کھو چکی تھی۔
''اچھا۔۔۔۔ پھر بھی بھرنا تو ہوتا ہے۔۔۔۔ کس کو ڈانٹ رہی تھیں؟''
''ارے اتنا بدمعاش لڑکا ہے۔۔۔۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اتنی بدتمیزی کی اس نے۔''
''آپ کے بچوں کے ساتھ۔۔۔۔؟'' پوچھا گیا تھا۔ ''ارے نہیں ہمارے بھائی کے بچے ہیں۔'' ہاتھ کے اشارے سے انھوں نے بتایا تو اندازاً چھ سات سال کے بچے تھے۔
''اچھا۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔ابھی جو لڑکا کھڑا تھا کیا چھیڑتا ہے بچوں کو؟''
''ہاں ہاں۔۔۔۔ وہی جو ابھی کھڑا تھا ادھر۔۔۔۔ کم بخت نشئی لگتا ہے۔ چھیڑتا ویڑتا نہیں۔۔۔۔بچوں سے اتنی گندی حرکت کی اس نے کہ کیا بتاؤں۔''
''گندی حرکت۔۔۔۔؟'' کان کھڑے ہوئے۔
''وہ فلیٹ خالی پڑا تھا، سامان پڑا تھا، لوگ آنے والے تھے، تو یہ بچوں کو لے کر وہاں بہانے سے گیا اور ہماری بھتیجی کے ساتھ ایسی حرکت کی کہ۔۔۔۔۔وہ تو بچوں نے شور مچادیا اور بھاگ کر فلیٹ سے نکل گئے۔''
انھوں نے روانی سے سنایا جیسے عام سی بات ہو۔ دماغ چھناکے سے جیسے ٹوٹ گیا جسے لکھتے ہوئے قلم لرز جائے ایک معصوم سے ذہن پر کتنے بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔
''کیا ۔۔۔۔اتنی بڑی بات اور آپ۔۔۔۔!'' خون میں ابال سا اٹھا، دل چاہا کہ اس بالشت بھر کے چھوکرے کا جاکر ایسا حشر کریں کہ پھر تصور میں بھی یہ غلاظت نہ ابھرے۔
''آپ جانتی ہیں کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے۔''
''ہاں تو اور کیا۔'' انھوں نے یوں سر ہلایا جیسے کلاس میں بیٹھے کسی غبی طالب علم سے کہا جائے سمجھ آیا اور وہ زور سے سر ہلاتے کہے ''یس مس!''
''آپ نے پولیس میں رپورٹ کی؟''
''نہیں وہ بات کی تھی ناں لڑکوں سے۔ انھوں نے اب یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔''
''تو آپ نے کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی؟''
''ارے نہیں اسے بلایا تھا دفتر میں، یہ آیا نہیں۔'' انداز میں کچھ بے پروائی پنہاں تھی۔
''آپ سب اپنی خواتین کو لے کر جاتیں اس کی خوب پٹائی لگاتیں، اس کے والدین کے پاس جاتیں۔''
''اس کم بخت کے ماں باپ نہیں ہیں ناں۔''
''تو کیا اس کو اس بات کا ایڈوانٹج دے کر جو اس کے دل میں آئے کرنے دیا جائے۔ یہ تو زیادتی ہے، جرم ہے۔''
''ہاں اور کیا۔'' خاتون نے اتنا کہتے لفٹ کا بٹن دبایا، لفٹ کا دروازہ کھلا اور وہ لفٹ میں غائب ہوگئی۔
یہ کہانی نہیں حقیقت ہے ایک ایسی تلخ حقیقت جو اب اتنی عام ہوگئی ہے کہ گلی گلی محلے محلے اس کے مجرم ابھرتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ قصور واقعے کے اتنے چرچے کے بعد بھی کراچی کے اچھے علاقے میں اس قسم کی حرکت کا ہونا اور جس قسم کا ردعمل زیادتی کا شکار بننے والی بچی کے خاندان والوں کا دیکھا گیا اس سے کیا تصویر بنتی ہے۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں رہی۔ شکر اس بات کا ہے کہ بچوں کے شور مچانے پر اور مجرم کے کچے پن نے بچی کو زیادتی کا شکار بننے سے تو بچا لیا لیکن انسان کے جس کریہہ روپ کو اس معصوم ذہن نے سمجھا کیا کوئی مسیحا اسے اس کے ذہن سے نوچ سکے گا؟
وہ میرے چاچا کا بیٹا ہے۔ وہ میرا جوائی ہے۔ وہ پوتڑا ہے ملک کا۔ اس کا تعلق پارٹی سے ہے۔ وہ تگڑی پارٹی کا ہے خیال کر۔ ہر جرم کے پیچھے اس قسم کے مجرموں کے لیے جیل کے دروازے اتنے چھوٹے کردیتے ہیں کہ جس میں سائل کے دل کا درد بھی بڑی مشکل سے گزرتا ہے، ہم اپنے اپنے تحفظات کے لحاف اوڑھ کر سب کچھ کرتے چلے جاتے ہیں، جرم دیکھتے ہیں اور چپ چاپ گزر جاتے ہیں، گویا مجرم کے ساتھی بن جاتے ہیں اس طرح۔ رشوت لیتے ہیں اور خون نگل جاتے ہیں، قاتل کے سنگی بن جاتے ہیں۔ اور اکثر عزت کا میلا لبادہ اوڑھ کر اپنے انتقام کی آگ میں کارو کاری کے کھیل میں تماشائی بن جاتے ہیں۔
آج بھی یاد ہے برسوں پہلے ایک میوزک پروگرام کی اینکر کے قتل کی خبر سنی۔ کسی بڑے نامور آدمی کا پوتا یا نواسا اس کے عشق میں گرفتار ہوا، فلمی انداز میں اس لڑکی کو شادی کے لیے مجبور کیا اس کی لالچی ماں کو نوٹوں کی خوشبو سے خاموش کرواکر ہمنوا بنایا اور شادی کے کچھ مہینوں بعد اسے اس کی خواہشات کی قبر میں ہمیشہ کے لیے اتار دیا۔ یہ اس امیر زادے کا انتقام تھا۔ محبت کا جنون تھا یا اپنے بڑوں کے رعب داب کا اثر۔ کیا ہوا۔۔۔۔کچھ خبر نہیں۔
کچھ نہیں سب ٹھیک ہے۔ سب اچھا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، ہمارے مذہب میں تو اس کی گنجائش ہی نہیں۔ بڑے بڑے لوگ۔۔۔۔بڑی بڑی باتیں۔ اونچے اونچے شملے۔ قبرستانوں میں بھٹکتی روحوں سے کبھی ان کے فسانے بھی سنیں۔ وہ کیا کہتی ہیں۔