راستہ دکھانا ہوگا

ایک ہمارا ملک پاکستان ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے یوم آزادی کو بھی ’’سیاست کا تڑکا‘‘ لگایا جاتا ہے



کچھ باتیں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ ان پر کوشش کے باوجود آپ اپنی ہنسی نہیں روک سکتے اور اگر یہ قومی سطح پر ہوں تو پھر ہنسی بھی ''بین الاقوامی'' ہوجاتی ہے، دنیا بھر میں قومیں اور لوگ اپنے اعمال اورکردارکا جائزہ لے کر ان کو بہتر سے بہترکرتی ہیں اورکوشش کرتی ہیں کہ وسائل کو زیادہ بہتر انداز میں استعمال کیاجائے تاکہ قوم کو زیادہ فائدہ ہوسکے۔

اس میں شعبہ اطلاعات ایک اہم شعبہ ہے اور وقت ایک نہایت ہی اہم Factor جو قومیں آزاد ہوئی ہیں انھوں نے اپنے یوم آزادی کو Celebrate کرنے کا کوئی ایک طریقہ طے کیا اور آج تک ہر قوم اپنے اسی ایک طریقے کو Follow کررہی ہے اور ساری دنیا میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔

ایک ہمارا ملک پاکستان ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے یوم آزادی کو بھی ''سیاست کا تڑکا'' لگایا جاتا ہے اور اس ''سیاسی تڑکے'' کی بنیاد پر پیسہ اور وقت ضایع کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا اعلان 13 اور 14 اگست 1947 کی درمیانی رات کو ہوا، 14 اگست پاکستان کا یوم قیام ٹھہرا کہ اس دن پاکستان قائم ہوا، آزاد کرنے کا فیصلہ تو انگریز نے اس سے پہلے کرلیا تھا، یوں 14 اگست قیام پاکستان کا دن ہے اور صرف ایک دن ہے جسے ہم عام طور پر ''یوم آزادی کہتے ہیں''

اب طالع آزماؤں نے اس دن سے فائدہ اٹھانے اور قوم کو ''مصروف'' رکھنے کے لیے کچھ ترکیبیں سوچیں کیوں کہ ''جذبہ حب الوطنی'' ابھارے بغیر آپ پاکستانی قوم پر حکومت نہیں کرسکتے۔ سب سے زیادہ اس کا فائدہ آمروں نے اٹھایا کہ ان کے ''صلاح کار'' سیاست دان ہی تھے جنھوں نے آمروں کے ''پیر'' میں اپنا پیر ڈال رکھا تھا۔ لہٰذا آمروں کے دور میں اس یوم کو یعنی ایک بے چارے 14 اگست کو لمبا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور یکم سے چودہ تک کا فنکارانہ سلسلہ شروع کیا گیا کہ قوم کو مصروف کردیاجائے اور یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اب اس کو گزشتہ سال سے پورے ماہ پر محیط کردیاگیا ہے۔

پاکستانیوں کو پاکستانی بنایاجارہاہے اور بھی بہت سے کام ہیں ان ذمے داروں کو وہ کرنے دیے جائیں جس طرح دنیا بھر کے نشریاتی ادارے کام کرتے ہیں۔ ان کو مفید بنانے کے بجائے سرکاری ''راگی'' نہ بنائیں کہ یہ اس بچے کی طرح ایک ہی راگ الاپتے رہیں جو لکڑی کے گھوڑے پر بیٹھ کر آگے پیچھے جھولتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ گھوڑے پر سوار ہے۔

موجودہ حکومت نے جہاں اور بہت سے عجیب و غریب فیصلے کیے ہیں اسلام آباد کے بارے میں وہاں نشریاتی اداروں کو بھی ''قومی بنیادوں'' پر قومی نشریاتی رابطوں کے حوالے کردیاگیا ہے جہاں سے کیا نشر ہورہاہے سن کر دیکھ کر اندازہ کرلیجیے کہ ہم کیا کررہے ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے، عوام کی اپنی ایک پسند ہے، ایک مزاج ہے، آپ اپنی مرضی ان پر مسلط نہیں کرسکتے وہ اپنی روایات کے مطابق پروگرام دیکھتے، سنتے اور پسند کرتے ہیں، ان کا خیال رکھنا ضروری ہے، بھلا کوئی قوم ایک ماہ تک ''یوم آزادی'' مناتی ہے؟ یہ ہمارا ہی دل جگر ہے کہ ہر الٹے سیدھے کام کو دنیا میں سب سے پہلے ہم انجام دیتے ہیں۔

کیا ہم اتنے خوشحال، فارغ البال اور فرصت میں ہیں کہ یہ سب کچھ برداشت کرسکیں، زر کثیر ان فضولیات پر خرچہ ہو رہا ہے، حکومت کو تو یقینا فائدہ ہے عوام کی توجہ مسائل سے ہٹاکر حب الوطنی کے راگ پر لگا دو، مگر عوام بیزار ہیں، سخت بیزار، ایک ماہ تک پاکستان پاکستان کا راگ الاپنے سے بھلا ملک میں کیا ترقی ہوجائے گی؟ اس سے قوم متاثر نہیں ہوتی بلکہ بور ہوتی ہے۔ قوم متاثر ہوتی ہے جب انصاف آسانی سے ملے، زندگی کی ضروریات پوری ہوں تب نشریات کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

پاکستان چار صوبوں کا نام ہے، کچھ ملحقہ علاقے بھی ساتھ ہیں۔ تو سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، زبانوں کے ساتھ بھی نہ علاقائی زبانوں کی وجہ سے قومی زبان متاثر ہو اور نہ قومی زبان کی وجہ سے علاقائی زبانوں کو زک پہنچے، توازن، مساوات، برابری قائم کرنی چاہیے۔

نشریات میں ذاتی پسند نا پسند سے آپ ملک پر تو حکومت کرسکتے ہیں عوام کے دلوں پر نہیں اور وہ شاید کوئی چاہتا بھی نہیں ہے کوئی بھی حکمران یا ہونے والا حکمران یہ ایک ماہ کے ''یوم آزادی'' کی شہنائیاں بند کرکے سنجیدگی سے دنیا بھر کی قوموں کی طرح ایک دن رکھا جائے، پہلے کی طرح عوام کے خادم بنیں گے تو عوام سے محبت ملے گی، عزت ملے گی، ورنہ یہ عوام وہ ہے جس نے ایوب خان کو جو بلا شرکت غیرے ملک کا بادشاہ تھا نکال باہر کیا، اس نے انتقاماً قوم کو یحییٰ کے حوالے کردیا یہ الگ موضوع ہے اس پر بھی کبھی بات کریں گے ۔

کوئی نہیں جانتا کہ سمندر کب کروٹ بدل لے یہ انسان بھی ایک سمندر کی طرح ہیں ان کا کیا بھروسہ، کب پلٹ پڑیں۔ خس و خاشاک کی طرح اڑا کر رکھ دیں۔ 1947 سامنے ہے کیا ہوا تھا۔ انسان انسانوں کو نگل گئے۔ حکومتیں علاقوں کو ہڑپ کرگئیں۔ حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، گجرات، کشمیر، کیا ہوئے، ایک سے بچے تو دوسرا نگل گیا، آج تک اس کے جبڑے میں ہیں۔ امید نہیں کہ کشمیر کے علاوہ شاید آزاد ہوسکیں اور کشمیر بھی ریڈیو ٹی وی کے پروگراموں سے آزاد نہیں ہوگا۔ عزم، عمل، جد وجہد چاہیے اس کے لیے۔ نہ جانے کس نیند میں ہیں ہم لوگ کہ جاگتے نہیں ہیں۔

ہوش میں نہیں آتے۔ اپنے دشمن آپ لوٹ کر کھارہے ہیں ملک کو، جس کا جہاں زور چل رہا ہے وہ لوٹ رہا ہے، لوٹ سیل لگی ہے ریڈیو ٹی وی پر آنے والے سہانے سپنے قوم کو دکھاتے رہتے ہیں۔ یہ جادو گری تو 1956 سے چل رہی ہے۔

زمانہ کدھر جارہاہے، ہم کدھر ہیں۔ ہم نے ذاتی آرام اور ذاتی انا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے، قانون کو توڑنا ہی اصل قانون بن گیا ہے اور ظلم کرنا گویا انصاف کا دوسرا نام ہے، ہلاکو یا چنگیز خان کا رحم وکرم تو تاریخ میں محفوظ ہے، ملک کو آگے جانا ہے۔ ترقی کرنا ہے تو بدلنا ہوگا اور اس کے لیے ضرورت ہے کہ قوم کی ''نظم نو'' کی جائے نئی نظم شاعر سے نہ لکھوائی جائے، قوم کی بنیادی خدوخال اجاگر کیے جائیں وہ پاکستان ،پاکستان کہنے سے نہیں ہوں گے کرکے دکھانا ہوگا۔ وہ راستہ دکھانا ہوگا چل کر قوم کو کہ وہ خود درست راستے پر آجائے، عدل و انصاف کو عام کرنا پڑے گا۔

ماضی میں تو قوم کے بھٹکنے کے مناظر بہت دیکھے ہیں، اخلاقی گراوٹ کا بھی پیمانہ ٹوٹ چکا ہے، اب صرف تباہی ہے یا توبہ ہے کہ اسے اختیار کرکے مملکت خداداد پاکستان کو ترقی دینے کا سوچا جائے، قرض کے بجائے اصل آمدنی سے خزانہ بھرا جائے، کفایت کی جائے۔ عوام کو بھی بیدار ہونا ہوگا۔ بہت برداشت کرلیا، اب اور نہیں، اب درست فیصلے کرو اور پاکستان کو بچاؤ ان لوگوں سے جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

دوستو! خبردار رہو، آنکھیں کھلی رکھو اور بازو توانا، دشمن نے تمہارے گھر کے نیچے سرنگیں بنالی ہیں۔ کھود کھود کر نکالنا ہوگا اسے اور اس کا آغاز انھی صفوں سے کرنا ہوگا، اپنے اداروں کو بچانا ہوگا، درست کرکے ان کو اور پاکستان کا نام استعمال کرنے والوں کو اور ذاتی فائدے اس کے عوض حاصل کرنے والوں کو، باہر پھینکنا پڑے گا کچرا باہر ہی اچھا رہتا ہے، اندر رہے گا تو بدبو پھیل جائے گی۔ یہ معاشرہ ہمارا گھر ہی تو ہے اسے بدبو سے بچائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں