آپ کا عمل بدترین بزدلی ہے
ہم دنیا کے وہ واحد لوگ ہیں کہ جن کے پیچھے مسائل نہ صرف یہ کہ زندگی میں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے ہوئے ہیں
اگر کوئی صاحب آپ سے اچانک یہ سوال کرنے کی غلطی کر بیٹھیں کہ آپ کی زندگی کن مسائل سے دوچار ہے، تو چند سیکنڈ کے لیے تو آپ سٹ پٹا جائیں گے کہ جواب کہاں سے شروع کروں اور پھر جب آپ کا ذہن آپ کا ساتھ دینے کے لیے راضی ہو جائے گا اور آپ کے منہ سے لگا تار اور مسلسل مسائل باہر نکلنا شروع ہو جائیں گے تو سوال کرنے والے صاحب تھوڑی ہی دیر میں اپنی جوتی چھوڑ کر بچاؤ بچا ؤ کی آوازیں لگا تے ہوئے بھاگنے پر مجبو ر ہو جائیں گے اور پھر وہ آگے آگے ہونگے اور آپ پیچھے پیچھے ہونگے اور ان صاحب کو اپنی جان بچانا آپ سے مشکل ہو جائے گی اور آیندہ وہ صاحب یہ ہی سوال کسی دوسرے سے کرنے کی جرأت تک نہیں کر سکیں گے۔
ہم دنیا کے وہ واحد لوگ ہیں کہ جن کے پیچھے مسائل نہ صرف یہ کہ زندگی میں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے ہوئے ہیں بلکہ مرنے کے بعد مسائل اور زیادہ شدت اختیار کر لیتے ہیں اور وہ زندگی کے مسائل کے مقابلے میں زیادہ خوفناک اور اذیت ناک ہوتے ہیں کیونکہ مرنے کے بعد میت کو دفنانے کی جلدی ہوتی ہے اور آپ مار ے مارے ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان میں پھر رہے ہوتے ہیں اور قبر ہے کہ کہیں خالی مل ہی نہیں رہی ہوتی ہے اور آپ گڑ گڑا کر گورکن کی منت سما جت کر رہے ہوتے ہیں ۔
کیونکہ وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہوتا ہے اور گورکن ہے کہ مان کر ہی نہیں دے رہا ہوتا ہے اگر آپ کے نصیب اچھے ہوئے تو کم لین دین پر خالی قبر آپ کو مل جائے گی ورنہ اس کی بات سن کر آپ کو دن میں تارے دیکھنا نصیب ہو جائیں گے اور ادھر دوسری طرف میت بے تابی سے آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے ۔
اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو آپ دنیا بھر کے انتہائی مفلوک الحال ممالک میں رہنے والوں کے مسائل پر ایک گہری نظر ڈال لیں اور ان سب کو در پیش مسائل میں سے اگر ایک بھی مسئلہ پاکستانی قوم کو کم درپیش ہو تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا۔ لگتا ایسا ہے کہ ہمیں مسائل کے انتقام کا سامنا ہے مسائل ہمارے چھوٹے چھوٹے اور بڑے ان گنت فیصلوں کا نتیجہ ہوتے ہیں آدمی سالہا سال غلط فیصلے کرتا رہتا ہے اسباب جمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر اچانک ایک دن نتیجہ منظر عام آ جاتا ہے اور پھر ہمارا فوری رد عمل یہ ہوتا ہے کہ یہ اچانک کیا ہو گیا۔
اصل میں کبھی بھی اچانک کچھ نہیں ہوتا ہر واقعے کے پیچھے اسباب کی طویل قطار ہوتی ہے۔ ہم ہر روز بے شمار چھوٹے بڑے فیصلے کرتے ہیں اور ان تمام فیصلوں کے مجموعی اثرات جلد یا بدیر ضرور برآمد ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ کچھ بھی ایسا نہیں ہو رہا ہے، جس کے لیے ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی کوئی امید نہ تھی یا یہ کہ غیر متوقع ہے یا ہمارے ساتھ انہونی ہو گئی ہے چاہے مسائل ہوں یا سیاست دانوں، بیوروکریٹس کی کرپشن اور لوٹ مار ہو یا اقتدار کے بھوکو ں کی یلغار کا سامنا ہو یہ تو پہلے ہی روز سے ظاہر ہو گیا تھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے کیونکہ جس راستے پر آپ چل رہے ہوتے ہیں۔
اس کی منزل کا سب کو پتہ ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ مسافر انجانہ بنے چلتا رہے عقل کو استعمال کیے بغیر سب کاموں کا انجام ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے غلط نہیں ہورہا ہے بلکہ ہمارے ساتھ تو اس سے بھی زیادہ برا ہونا چاہیے کیونکہ ہم اسی لائق ہیں اور اسی سلوک کے مستحق ہیں ہم سے زیادہ بے حس اور بے شرم لوگ دنیا میں اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے ہیں۔
قصور سارے کا سارا ہمارا اپنا ہوتا ہے اور بے قصور بنے بنے ہم پھرتے ہیں ہر چیز کے ذمے دار خود ہوتے ہیں اور سارا کا سارا الزام دوسروں پر ڈالتے پھرتے ہیں کر پٹ، نااہل، بے ایمانوں کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں خود بھیجتے ہیں اور جب وہ کرپشن، لوٹ مار اور بے ایمانی کرتے ہیں تو دہائیاں ہم دیتے پھرتے ہیں، لٹیروں کا ساتھ خود دیتے ہیں اور جب وہ اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں تو پھر لٹنے کا واویلا کرتے پھرتے ہیں۔
انھیں ساری بدعملیاں کرنے کی اجازت خود دیتے ہیں اور پھر قسمت اور نصیبوں کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ساری خرابیوں، برائیوں، کر پشن اور لوٹ مار کو چپ چاپ اندھے اور بہرے بنے ہوتے دیکھتے رہتے ہیں اور کچھ کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرکر معجزوں کا انتظار کر تے رہتے ہیں اور معجزے نہ ہونے کی صورت میں ان کے اعمال میں غیر ملکی سازش ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
ہماری عقل دشمنی، بزدلی اور کمزوری کا یہ عالم ہے کہ لوٹ مار، کر پشن کے خاتمے کے لیے سپرمین، اسپائیڈر مین اور ایلین کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور انھیں اس عذاب سے نجات دلوائیں۔ کیا ہماری مجرمانہ خاموشی اور بزدلی کے پیچھے بھی کوئی غیر ملکی سازش ہے۔ کیا ہمارا گونگے اور بہرے بننے میں بھی غیر ملکی ہاتھ ہے نہ جانے کیوں ہمیں اپنی بیہودہ سوچوں پر شرم نہیں آتی ہے۔
کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ سچ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کیا ہم اس قدر بزدل ہو چکے ہیں کہ لٹیروں، کرپٹ اور غنڈوں کے خلاف اٹھنے کے خیال سے کانپنے لگتے ہیں۔ یاد رکھو اپنے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھنا دانش مندی یا عقل مندی نہیں ہے۔
جانور بھی اپنے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک اور ظلم کے خلاف چپ نہیں رہتے ہیں۔ ذہن میں رکھیے آپ کا یہ عمل بدترین بزدلی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر اب بھی آپ نے اپنی مجرمانہ خاموشی اور بزدلی ختم نہ کی تو یہ کر پٹ، راشی لٹیر ے آپ کے چاروں طرف کھڑے ہو کر اسی طرح زور زور سے قہقہے لگاتے رہیں گے اور آپ ان کے سامنے زمین پر اکڑوں بیٹھے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے روتے رہیں گے کیونکہ وہ سب کے سب آپ کو کسی بھی صورت میں معا ف کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے کرتوت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔